Sharif-1

اکتوبر ۲۳ کو پاکستانی صحافی ارشد شریف کینیا میں جان لیوا گولیوں کا نشانہ بنے، جس نے پاکستان میں غیرجانبدار صحافت پر سیاسی تقسیم کے اثرات کے خدشات کو بڑھاوا دیا۔ اس قتل سے قبل کے مہینوں میں، شریف نے پاکستان کی موجودہ حکومت اور اس کی طاقتور عسکری قوتوں کو زبانی تنقید کا نشانہ بنایا تھا، جس کی وجہ سے ان کی ہلاکت میں ریاست کے ملوث ہونے کے شبہات کو تقویت ملی۔ شریف کی ہلاکت نے شائد ملک کو متحد کیا ہو، لیکن اس کے بعد پاکستانی رہنماؤں نے اس کیس کو اپنے سیاسی فائدے کے لیے استعمال کیا۔ ملک میں مختلف دھڑوں کی جانب سے اقتدار کے لیے کھینچا تانی جاری ہے، اور ایسے میں شریف کی موت کو سیاسی رنگ دیا جانا پاکستان میں جانب دار صحافت کے لیے خطرناک رجحانات کی جانب اشارہ کرتا ہے۔

اس کیس پرقائم ہونے والی فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ جہاں بہت سی تفصیلات سے ابہام کا پردہ اٹھاتی ہے، وہیں شریف کی موت کے حوالے سے پائی جانے والی تقسیم زیادہ اہمیت کی حامل ہے۔ ماضی میں ہونے والی گفتگو میں شائد پاکستان میں صحافتی آزادی کے لیے تنگ پڑتی جگہ پر توجہ مرکوز رہی ہو۔ لیکن اس کے برعکس، شریف کی موت کو پاکستانی رہنماؤں نے سیاسی برتری کے لیے استعمال کیا ہے۔ مثال کے طور پر اقتدار سے بے دخل کیے گئے وزیراعظم عمران خان نے اپنے حامیوں کو ایک بار پھر مجتمع کیا، عسکری قیادت نے قتل پر سویلین قیادت کو سرعام تنقید کا نشانہ بنایا اور موجودہ اتحادی حکومت نے الٹا عمران خان پر الزام لگایا۔ سیاسی فوائد ہی سب سے بالاتر رہے۔

صحافتی آزادی کے تحفظ کے لیے پاکستان کی جدوجہد میں، شریف کے قتل کے واقعات اس امر کی واضح یاد دہانی کرواتے ہیں کہ اقتدار کی لڑائی میں غیرجانب دار صحافت بھی اپنے انجام کو پہنچ چکی ہے۔ پہلے سے زیادہ سیاسی تقسیم اور رسہ کشی کے جاری رہنے کے ساتھ ساتھ ، سیاسی فوائد کے لیے ذرائع ابلاغ کا استعمال ملک میں جمہوریت کے لیے خطرناک رجحانات تجویز کرتا ہے، اور جن سے بچاؤ کے امکانات بھی معمولی دکھائی دیتے ہیں۔

سیاسی پس منظر

شریف کا قتل ایک ایسے وقت میں ہوا جب پاکستان کا سیاسی ماحول شدید تقسیم کا شکار تھا۔ گزشتہ برس اپنی بے دخلی کے بعد سے، سابق وزیراعظم عمران خان موجودہ حکومت سے اقتدار واپس حاصل کرنے کی اپنی کوششوں میں بے دریغ ثابت ہوئے ہیں۔ دریں اثنا، اتحادی حکومت کو سابق حزب اختلاف کی جماعتوں کے ساتھ کمزور شراکت داری میں قائم اپنے اقتدار پر گرفت مضبوط رکھنے میں بدستور مشکلات کا سامنا ہے۔ مزید برآں، طاقتور عسکری اسٹیبلشمنٹ کی حمایت پانے کی خواہش رکھنے کے باوجود بھی، سیاست دانوں کے ان کی سویلین امور میں غیرضروری دخل اندازی کا پردہ چاک کرنے کے بعد سے، اسٹیبلشمنٹ کی ساکھ کو نقصان کا سامنا ہے۔ تناؤ سے پُر اس پس منظر میں شریف کی موت سیاسی برتری پانے کے لیے ایک ہتھیار بنی ہے۔

اگرچہ ارشد شریف کو ایک وقت میں عسکری اسٹیبلشمنٹ کے قریب سمجھا جاتا تھا، لیکن گزشتہ برس اپریل میں عمران خان کی اقتدار سے متنازعہ بے دخلی کے بعد وہ فوج کے سیاست میں کردار پر تنقید کرنے لگے تھے۔ بے دخلی کے بعد، شریف، خان کے جوشیلے حمایتی بن گئے تھے۔ قتل کے بعد کے دنوں میں، خان نے عوامی غم و غصے کو سیاسی فائدے کے لیے منظم کیا۔ جس شب خان نے اس قتل کی مذمت کی، انہوں نے دارالحکومت کی جانب ‘حقیقی آزادی مارچ‘ کا اعلان کیا، اس موقع پر انہوں نے ‘صحافیوں کو دھمکانے’ پر حکومت پر تنقید کی اور ریاست کے اس قتل میں ملوث ہونے کی رائے دی۔ یہ تدبیریں اگرچہ ان کی سیاسی حیثیت کے لیے مفید ثابت ہوئیں، لیکن یہ امر قابل ذکر ہے کہ خان جب اقتدار میں تھے، تو اس وقت انہوں نے بھی انہی حکمت عملیوں سے کام لیا تھا۔

بے چینی کی اس فضا میں، پاکستان کی اتحادی حکومت نے بھی شریف کی موت سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی۔ ایک پریس کانفرنس میں، خان کی جماعت پی ٹی آئی کے ایک سینیئر ممبر نے، ایک پریس کانفرنس میں دعویٰ کیا کہ شریف کی موت میں ‘ دوستوں کے بھیس میں چھپے دشمنوں نے’ کردار ادا کیا تھا، جس کا مقصد یہ تجویز کرنا تھا کہ اس قتل میں فوج یا حکمران جماعتوں کے بجائے پی ٹی آئی کے اندر موجود دھڑے شامل تھے۔ فوج کی حمایت کو نقصان پہنچانے والے امور پر خاموشی اختیار رکھنے والی حکومت نے ریاستی حکمرانی میں چلنے والے چینلز سے یہ پریس کانفرنس نشر کرتے ہوئے خان کے بیانیے کو کھوکھلا کیا۔ مزید برآں، سرکاری حکام نے سیاسی فوائد بٹورنے کے لیے سرعام ارشد شریف کے قتل میں خان کے ملوث ہونے کا الزام عائد کیا۔

شریف کی موت پر انتہائی عوامی سطح پر جاری مباحثے میں پاکستان کی عسکری اور انٹیلی جنس سروسز بھی شامل رہیں۔ شریف کے قتل کی منصوبہ بندی کے لیے عسکری قیادت پر الزامات کی بوچھاڑ سے نمٹنے کی کوشش میں، پاکستان کے انٹیلی جنس چیف ملکی تاریخ میں پہلی بار ایک پریس کانفرنس میں نمودار ہوئے تاکہ “حقائق، فسانے اور رائے” میں فرق بیان کر سکیں۔ عسکری قیادت کے ملوث ہونے کے “بے بنیاد” الزامات کو مسترد کرتے ہوئے، چیف نے عمران خان کی جانب جوابی انگلیاں اٹھائیں اور پریس کانفرنس کو خان پر یہ الزام عائد کرنے کے ایک موقع کے طور پر استعمال کیا کہ خان نے ‘غیر آئینی رعایتیں’ طلب کیں اور فوج کو ‘متنازعہ سے آئینی کردار’ کی جانب منتقل ہونے سے روکا۔

 اگرچہ پاکستانی حکام نے بارہا مخالفین کو دبانے اور حزب اختلاف کو کمزور کرنے کے لیے میڈیا کو پابندیوں میں جکڑا ہے، تاہم شریف کی موت پر جس طرح کی تقسیم دیکھنے کو ملی اور اس واقعے کو اپنے مقاصد کے لیے توڑا مروڑا گیا، اس کی نظیر نہیں ملتی۔ حکومت، عمران خان کی جماعت پی ٹی آئی اور فوج، تینوں بڑے متعلقین نے اس واقعے کو اقتدار کے لیے جاری جنگ میں اپنی متعلقہ جماعت کے موقف میں حمایت تیار کرنے کے لیے استعمال کیا۔ نتیجتاً شریف کی موت کے گرد گھومتے واقعات یہ اشارہ دیتے ہیں کہ سیاسی فائدے کے لیے قابل استعمال مواقع، جمہوری اور صحافتی روایات کو پیچھے چھوڑتے ہوئے آگے نکل جائیں گے۔

الزامات کے کھیل کے مستقبل پر مضمرات

حالات و واقعات کا سیاسی فائدے کے لیے استعمال اگر، جمہوریت کے تحفظ کے اوپر چھایا رہا تو سچائی پر مبنی اور تنقیدی رپورٹنگ کہیں کھو جائے گی۔ پاکستان کا منقسم سیاسی ماحول شریف کے قتل کے حوالے سے سچائی کے اوپر چھایا رہا اور سیاسی حلقے اس کی موت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پارٹی بیانیے کو مضبوط کرتے رہے۔ خان، بجائے اس کے کہ سچائی سے پردہ اٹھانے کے لیے نیک نیتی کے ساتھ کوششوں اور جمہوری روایات کو برقرار رکھنے کا مطالبہ کرتے، انہوں نے سیاسی مخالفین پر الزامات کی بوچھاڑ کر دی اور نئی عسکری قیادت جنرل باجوہ کے بعد اپنے تشخص کو سہارا دینے کی کوششوں میں مصروف ہو گئی۔ اس کیس کو سیاسی طور پر آگے بڑھانے کی کوشش نے حقائق کی غیرجانبدارانہ پرکھ نہ ہونے دی اور یوں پاکستان میں تنقیدی صحافت کے لیے جگہ مزید تنگ ہوئی۔

پاکستانی سیاست میں اگرچہ شریف کی موت کو بہت نمایاں جگہ ملی، لیکن یہ ہراساں کیے گئے، پیٹے گئے، دھمکائے اور قتل کیے گئے پاکستانی صحافیوں کی طویل فہرست میں صرف تازہ ترین واقعہ ہے۔ درجنوں پاکستانی صحافی ملتے جلتے انجام سے بچنے کے لیے بیرون ملک پناہ لے چکے ہیں۔ حتیٰ کہ وہ جلاوطنی میں بھی خود کو اب مزید محفوظ تصور نہیں کرتے۔اگرچہ شریف کے بہیمانہ قتل کے پس پشت بہت سے حقائق سے پردہ اٹھایا جانا ابھی باقی ہے، وہ حقائق جنہوں نے انہیں ملک چھوڑنے پر مجبور کیا، پاکستان میں سیاسی رسہ کشی کے ماحول میں صحافت کی نازک صورتحال کی عکاسی کرتے ہیں۔ ایک ایسا سنگم پر جہاں حکومت اقتدار پر اپنی گرفت کی مضبوطی، عسکری ادارے اپنے تشخص کی بحالی اور خان دوبارہ اختیارات کے حصول کے لیے جدوجہد میں مصروف ہیں، ملکی قیادت کی جانب سے سیاسی مفادات کے لیے میڈیا کا استعمال ممکنہ طور پر جاری رہے گا۔

شریف کے واقعے کے گرد گھومتی سیاسی کھینچاتانی پاکستان کے ابتر داخلی ماحول میں اگرچہ ایک واقعہ ہے، تاہم اس کے اثرات تادیر باقی رہیں گے۔ گہرا ہوتا سیاسی تناؤ ممکنہ طور پر جاری رہے گا۔ سیاسی رہنماؤں کی جنگ جاری رہنے کے ساتھ ساتھ، ذرائع ابلاغ کا بے دریغ استعمال، ملک میں صحافتی آزادی کو محفوظ رکھنے میں ریاست کے سیاسی نظام کی صلاحیت پر سوال اٹھاتا ہے۔ شریف پاکستان میں سیاسی تقسیم کے تازہ ترین رجحانات کا شکار ہوا۔ گو کہ بہت سے افراد کے نزدیک ان کی صحافت، اخلاقیات اور اس کے معتبری پر سوالیہ نشان عائد کرتی تھی لیکن میڈیا کو خاموش کرنا اور مخالف آوازوں کا گلا گھونٹنا پاکستان کی نازک جمہوریت کے لیے خطرناک رجحانات کی عکاسی کرتا ہے۔

***


Click here to read this article in English.

Image 1: Rizwan Tabassum/AFP via Getty Images

Image 2: Asif Hassan/AFP via Getty Images

Share this:  

Related articles

کواڈ کو انڈو پیسیفک میں جوہری خطروں سے نمٹنا ہو گا Hindi & Urdu

کواڈ کو انڈو پیسیفک میں جوہری خطروں سے نمٹنا ہو گا

کواڈ کے نام سے معروف چار فریقی سیکیورٹی ڈائیلاگ کے…

بھارت اور امریکہ کی دفاعی شراکت داری  کے لئے رکاوٹیں اور مواقع  Hindi & Urdu

بھارت اور امریکہ کی دفاعی شراکت داری  کے لئے رکاوٹیں اور مواقع 


سرد جنگ کے دوران جغرافیائی سیاسی نقطہ نظر میں اختلافات…

پلوامہ – بالاکوٹ پانچ برس بعد جائزہ Hindi & Urdu

پلوامہ – بالاکوٹ پانچ برس بعد جائزہ

لمحۂ موجود میں پاکستان، بھارت کے تزویراتی بیانیے سے تقریباً…