070629-N-7415V-008.jpg
Ghazni, AfghanistanÑ Soldiers from the 4th Brigade Combat Team of the 82nd Airborne Division, the Afghan National Police, and the Afghan National ArmyÕs 203rd Corps assemble for a recognition ceremony for Operation Maiwand. The operation was initiated and planned by the Afghan National Army and was carried out with the help of the ANP and Task Force Fury. Together they conducted security and military operations and delivered humanitarian aid in Ghazni Province to gain support from the Afghan people. (U.S. Navy Photo/ Petty Officer First Class David M. Votroubek) (Released)

 پاکستان میں پاک امریکہ تعلقلت سے متعلق مختلف آرا پائی جاتی ہیں۔ کچھ لوگوں کے مطابق چین کی ابھرتی ہوی فوجی اور معاشی قوت پر امریکہ میں تشویش پائی جاتی ہے اور اسی لیے امریکہ بھارت کی جوہری، دفاعی اور معاشی قوت کو مضبوط کرنے میں اس کی مدد کر رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ اور بھارت کے جوہری ،دفاعی اور معاشی تعلقات میں گزشتہ چند سالوں میں نمایاں بہتری آئی ہے۔ چند دیگر مفکرین یہ سمجھتے ہیں کہ دراصل امریکہ کی افغان پالیسی شروع ہی سے درست سمت میں نہیں تھی اورامریکہ، اب ناکامی کا یقین ہونے کے بعد، اسکا سارا ملبہ پاکستان پر گرانا چاہتا ہے۔ گویا اب نئی امریکی پالیسی میں پاکستان کو قربانی کا بکرا بنایا جانا مقصود ہے۔ پاکستان کےمقتدرہ حلقوں میں یہ سوچ تقریباً متفقہ طور پرپروان پا چکی ہے کہ امریکہ کے پاس افغانستان کا کوئی ٹھوس حل موجود نہیں جس کی بنیادی وجہ افغانستان کے معروضی حالات سے لا علمی اور امریکی پالیسی ساز اداروں میں تقسیم اور عدم تعاون ہے۔ اس بات سے قطعہ نظر کہ افغانستان میں امریکی ناکامی کی اصل وجوہات کیا ہیں، یہ بات تو گزشتہ سترہ سال کی جنگی حکمت عملی کے تناظر میں مسمم حقیقت کے طور پر سامنےآچکی ہے کہ مزید فوجی کاروائی کے ذریعے افغانستان میں امن قائم ہونے کا کوئی امکان نہیں۔ پاکستان میں عمومی تاثر یہی ہے کہ امریکہ کی افغان پالیسی میں بہت سی خامیاں پائی جاتی ہیں۔ مثلاً امریکی ایوانوں میں یہ تاثر کہ افغان طالبان کی باگیں پاکستان کے ہاتھ میں ہیں، درست نہیں۔ مزید براں یہ سوچ کہ فوجی قوت میں اضافے کی مدد سے افغانستان میں حالات درست کیے جا سکتے ہیں، ناکام ثابت ہو چکی ہے۔

افغانستان میں کثیر البنیاد حکومت کا وجود ناگزیر ہے۔ پاکستان دیگرعلاقئی ممالک مثلاً، روس اور چین، کی مدد سے افغانستان میں بات چیت کے ذریعے وسع البنیاد حکومت کی تشکیل میں نمایاں کردار ادا کر سکتا ہے۔ البتہ یہ سوچ کہ پاکستان افغان طالبان کی پالیسی یا حکمت عملی کو تبدیل کر سکتا ہے، پاکستانی حکومتی نمائدوں کے مطابق مبالغہ آمیز اور حقائق کے منافی سوچ ہے۔ امریکی پالیسی سازوں کا یہ خیال کہ افغانستان میں فوجی کاروائی کے ذریعے حالات درست کیے جا سکتے ہیں، خام خیالی پر مبنی ہے۔ اس کے علا وہ بہت سے امریکی نمائیدہ گان کا یہمفروضہ کہ پاکستان افغانستان میں عکسریت پسند کاروائیوں کی حمایت کرتا ہے،پاکستان کے پالیسی ساز حلقوں کے مطابق، بالکل بے بنیاد اور حالات میں بہتری کے لیے نہایت ناسازگار ہے۔ امریکہ، پاکستان اور افغانستان کی ایک دوسرے پر الزام تراشی سے نہ صرف باہمی کشیدگی میں اضافہ ہورہا ہے بلکہ افغانستان میں قیام امن کی کوششوں کو بھی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ پاکستان پہلے ہی دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ کی وجہ سے بے پناہ جانی و مالی نقصان اٹھا چکا ہے اور بہت تگ و دو کے بعد شورش زدہ علا قوں میں امن بحال کرنے میں کامیاب ہو سکا ہے۔ اس تناظر میں دیکھتے ہوئے پاکستان کا عسکریت پسندی کی حمایت کا جواز بعیدالقیاس ہے۔

پاکستان کو افغانستان میں بنیادی طور پر دواہم خدشات لاحق ہیں۔ پہلا یہ کہ کسی ایسی افغان حکومت کا قیام عمل جو کہ پاکستان مخالف نظریات کی حامل ہو، اور دوسرا، بھارت کاافغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنا۔ ان خدشات کا اظہار پاکستان کے سرکاری حلقوں کی جانب سے کئی مرتبہ امریکی اور افغان نمائدوں کے سامنےبرملا کیا ہے۔ مگر اس کے باوجود، پاکستانی حلقوں کے مطابق، ان خدشات کو دور کرنے کے لیے امریکی اور افغان حکام نے کوئی خاطر خواہ قدم نہیں اٹھایا۔ پاکستانی حکام کے لیے تویہ بات تقریباً ثقہ ہے کہ بھارت کے افغانستان میں عمل دخل سے قیام امن کی کوششوں پر تو کوئی مثبت اثر نہیں پڑا البتہ پاک- بھارت اور پاک-افغان کشیدگی میں اضافہ ضرور ہوا ہے۔ اگرچہ افغانستان ایک خودمختار ملک ہے اور اس کوکسی دوسرے ملک سے تعلقات استوار کرنے کا مکمل اختیار حاصل ہے، مگر بھارت سے تعلقات استوار کرتے ہوے افغانستان کو یہ امر بھی یقینی بنانا ہو گا کہ دوستی کی آڑ میں اس کی سرزمین کو بھارت، پاکستان مخالف سوگرمیوں کے لیے استعمال نہ کرے۔ اور دوسری طرف پاکستان کو افغانستان کے حوالے سے اپنی ذمہ داریوں کو بھی پورا کرنا ہو گا جس میں پاک-افغان سرحد پر اپنی گرفت بہتر کرنا اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ پاکستان میں بہت سے مبصرین افغانستان میں بھارتی سرگرمیوں اور امریکہ کی پاکستان سے “مزید اقدامات” اٹھانے کی تکرار کو پاکستان اورامریکہ کے تعلقات میں بڑھتی ہوی سرد مہری کا بنیادی محرک گردانتے ہیں۔

صدر ٹرمپ کی انتظامیہ کی جانب سے اقتدار میں آتے ہی پاکستان سے متعلق سخت موقف اختیار کر لیا گیا ہے جس کا اظہار کولیشن سپورٹ فنڈ روک لینے کے فیصلے سے کیا گیا۔ اگرچہ اس سے قبل بھی پاکستان امریکی دباؤ اور معاشی بندشوں کا شکار رہا ہے مگر اس مرتبہ صورتحال مختلف یوں معلوم ہوتی ہے، کیونکہ ٹرمپ انتظامیہ افغانستان میں پرانی پالیسی کو روا رکھنے کے حق میں نہیں اور کچھ نیا کرنا چاہتی ہے۔ اس حوالے سے مختلف اقدامات پر غور کیا جا رہا ہے جس میں پاکستان کو سفارتی طور پر تنہا کرنے، معاشی امداد روکنے، معاشی بندشیں لگانے سے لے کر ڈرون حملوں جیسے انتہائی اقدامات بھی شامل ہیں۔ مگر ایسے اقدامات سے حالات کا بہتر ہونے کے بجائے مزید خراب ہونا یقینی امر ہے۔ افغانستان میں حالات کے بگاڑ کی وجوحات کا تجزیہ آنند گوپال سے زیادہ بہتر انداز میں شائد ہی کسی اور مصنف نے کیا ہو۔

 آنند گوپال نے اپنی کتاب میں افغانستان میں امریکی اور پاکستانی پالیسیوں اور ان کےاثرات کا بھرپوراور غیرجانبدانہ تجزیہ کیا ہے۔ اگرچہ آنند گوپال نے اس کتاب میں بہت سی کوتاہیوں کی نشاندہی کی ہے جن میں سب سے قابل ذکر، جنگجو سرداروں پر غیرضروری انحصار،امریکی کرنسی کی بے دریغ اور بلاجوازتقسیم، جس کی وجہ سے افغانستان میں بدعنوان عناطرنےبےپناہ فائدہ اٹھایا، طالبان کمان داروں کے ہتھیار ڈالنے کی پیشکش کو رد کرنا، افغانوں کو صرف دوست یا دشمن کی نظر سے دیکھنا اورفوجی قوت کے بیجا استعمال کی وجہ سے بےگناہ لوگوں کی اموات وغیرہ شامل ہیں۔ ان کوتاہیوں سےامریکہ، افغان حکومت اور پاکستان کوسبق حاصل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ خاص کر بدعنوآں قبائلی سرداروں وحکومتی عناصر کی پزیرائی اور طاقت کے بےجا استعمال سے معصوم جانوں کے ضیائع جیسے غیرذمہ دارانہ اقدامات فوری درستگی کے متقاضی ہیں۔ ان اقدامات سے نہ صرف افغان شہریوں کا حکومت پر اعتبار جاتا رہا بلکہ بےشمار افغانوں نے انتقام لینے کی خاطر شدت پسندوں کی صفوں میں شمولیت اختیار کی اور افغانستان میں داعش کو قدم جمانے کا موقع ملا۔

افغانستان کے حالات بہتری کی طرف لے جانے کے لیےاس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام متعلقہ پڑوسی ممالک مثلاً پاکستان، چین، روس اور ایران کو امریکہ ایک مزاکراتی عمل میں شامل کرے جس کا مقصد افغانستان میں ایک کثرالجمعاتی حکومت کو وجود میں لانا ہو۔ اس کے لیے تمام نمایاں گروہ، مثلاً شمالی اتحاد، طالبان، حزب اسلامی، ازبک، تاجک وغیرہ، کو قومی دھارے میں لایا جاۓ- اور وسع البنیاد قومی حکومت کی تشکیل کے بعد افغانستان میں قومی نوتعمیر کا آغاز کیا جاۓ۔ یہ کام چند ہفتوں یا مہینوں کا نہیں بلکہ سالوں پر محیط ہو سکتا ہے۔ اس سلسلے میں پہلے ہی بہت وقت گنوا دیا گیا ہے۔ اور اب یہ ناگزیر ہو چکا ہے کہ اس عمل کو جلد از جلد شروع کیا جاۓ۔ اس سمت میں ٹرمپ حکومت کتنی پیشرفت کرے گی؟ یہ تو وقت ہی بتاۓ گا۔ مگر یہ بات تقریباً مسمم ہے کہ موجودہ حکومتی پالیسی سے پورے خطے پر، منفی یا مثبت، بہت دوررس نتائج مرتب ہونے جا رہے ہیں۔

***

Image 1: U.S. Navy Photo from Petty Officer First Class David M. Votroubek via Flickr (cropped)

Image 2: Mikhail Svetlov via Getty Images.

 

Share this:  

Related articles

کواڈ کو انڈو پیسیفک میں جوہری خطروں سے نمٹنا ہو گا Hindi & Urdu

کواڈ کو انڈو پیسیفک میں جوہری خطروں سے نمٹنا ہو گا

کواڈ کے نام سے معروف چار فریقی سیکیورٹی ڈائیلاگ کے…

بھارت اور امریکہ کی دفاعی شراکت داری  کے لئے رکاوٹیں اور مواقع  Hindi & Urdu

بھارت اور امریکہ کی دفاعی شراکت داری  کے لئے رکاوٹیں اور مواقع 


سرد جنگ کے دوران جغرافیائی سیاسی نقطہ نظر میں اختلافات…

پلوامہ – بالاکوٹ پانچ برس بعد جائزہ Hindi & Urdu

پلوامہ – بالاکوٹ پانچ برس بعد جائزہ

لمحۂ موجود میں پاکستان، بھارت کے تزویراتی بیانیے سے تقریباً…