brahmos-1

۲۷ جنوری ۲۰۲۳ کو بھارت نے تیسری بار اپنے ہائپرسونک ٹیکنالوجی ڈیمونسٹریشن وہیکل (ایچ ایس ٹی ڈی وی) کا تجربہ کیا اور بعد میں جون میں اوڈیشہ کے ساحل کے قریب ‘اگنی پرائم’ میزائل کا کامیاب تجربہ کیا۔ اس کے تین ماہ بعد بھارت نے زمینی، فضائی اور بحری ، تینوں پلیٹ فارمز سے توسیعی فاصلے تک مار کرنے والے (ایکسٹینڈڈ رینج  ای آر) براہموس میزائلوں کا تجربہ کیا۔ ان تجربات کے ساتھ ساتھ بھارت کی جانب سے مقامی بیلسٹک میزائل ڈیفنس سسٹم (بی ایم ڈی) اور پاکستان کی سرحدوں پر روس سے نئے خریدے گئے ایس-۴۰۰  (میزائل سسٹم) کی تنصیب بھی شامل ہے۔ اگرچہ صفحۂ قرطاس پر  بھارت کی  نو فرسٹ یوز  پالیسی (جوہری ہتھیار کےاستعمال  میں پہل نہ کرنے کی پالیسی ) موجود ہے لیکن اس کے حالیہ میزائل تجربات اور بی ایم ڈی کی صلاحیتوں کی ترویج اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ بھارت کاؤنٹر فورس سٹریٹیجی (مدِمقابل کی فوجی تنصیبات حملے کی حکمتِ عملی)  کی جانب بڑھ رہا ہے جس کا مقصد پاکستان کو ایک ہمہ گیر فرسٹ سٹرائیک (جوہری حملے  میں پہل)کے ذریعے غیر مسلح کرنا ہے۔


مجموعی طور پر ۲۰۲۳ میں بھارت نے گیارہ میزائل تجربات کیے جبکہ پاکستان نے ممکنہ  جوابی طور پر  دو میزائل تجربات کیے۔ اکتوبر میں اسلام آباد نے درمیانے فاصلے تک مار کرنے والے (میڈیم رینج ) دو بیلسٹک میزائلوں ،غوری اور ابابیل کا تجربہ کیا۔  موخر الذکر ایک ملٹی پل انڈیپینڈنٹ ٹارگٹ ایبل ری انٹری وہیکل (ایم آئی آر وی) ٹیکنالوجی ہے، جسے بھارت کے بی ایم ڈی کے  مقابلے میں ایک کم لاگت حل کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ پاکستان کے نقطہ نظر سے، اس کے حالیہ میزائل تجربات بھارت کی میزائل ٹیکنالوجی کی ترقی اور مبینہ جارحانہ پوزیشن کے سامنے ڈیٹرنس کریڈیبیلیٹی (مزاحمتی قوت)کو یقینی بنانے کے لئے ایک ضروری ردعمل ہے۔  بھارت کے میزائل تجربات اور اس کا ہمہ گیر فرسٹ سٹرائیک سے متعلق غور و خوض موجودہ حالات میں غیر ذمہ دارانہ ہیں اور خطے میں عدم استحکام کو  مزید بڑھا سکتے ہیں۔

بھارت کے میزائل  تجربات

ایچ ایس ٹی ڈی ویز

بھارت نے ۲۰۱۹ سے ہائپر سونک ٹیکنالوجی ڈیمونسٹریٹر وہیکلز (ایچ ایس ٹی ڈی ویز) مقامی طور پر تیار کر لیے ہیں، جس کا تازہ ترین تجربہ گزشتہ سال کے اوائل میں کیا گیا تھا۔ پاکستان بھارت کی جانب سے ہائپر سونک ہتھیاروں کی تیاری کو ان کی انتہائی ٹھیک  پیمائش کرنے،  تیزرفتاری اور بہتر حرکت پذیری کی بدولت، جس کے باعث انہیں انٹرسیپٹ کرنا (راہ میں روکنا) مشکل ہو جاتا ہے،  کاؤنٹر فورس ٹول (مدِمقابل کی فوجی تنصیبات پر حملے کےہتھیار) کے طور پر دیکھتا ہے۔  ایچ ایس ٹی ڈی اسکریم جیٹ انجن ٹیکنالوجی کی بدولت  آواز کی رفتار سے چھ گنا  زیادہ رفتار حاصل کر سکتے ہیں۔


ایچ ایس ٹی ڈیز  کو ترقی دینے کا بھارتی فیصلہ پاکستان کے لیے بڑھتے ہوئے خدشات کا مظہر ہے۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان ایک طویل سرحد ہے، جس کے باعث  پاکستان کے خلاف فرضی طور پر فرسٹ سٹرائیک  میں سپرسونک اور ہائپرسونک ہتھیار بہت مؤثر ہیں۔ بیلسٹک میزائل کے لیے سفر کا وقت محض چند منٹ ہے لیکن ہائپر سونک صلاحیت کے ساتھ بھارت ۲۵۰ میل کی رینج کے اہداف کے لیے میزائل کی ترسیل کے وقت کو ایک منٹ سے بھی کم کر دیتا ہے۔ لہٰذا اگر بھارت کامیابی کے ساتھ ہائپر سونک ٹیکنالوجی تیار کرلیتا ہے تو یہ پاکستان اور بھارت کی نازک  ڈیٹرنس  سٹیبلیٹی (مزاحمت کے توازن) کو شدید  مشکل میں ڈال سکتا ہے۔

اگنی۔پی


اگنی۔ پی پہلے کے سسٹمز سے مختلف ہے کیونکہ یہ مختصر نوٹس پر فائر کرسکتا ہے۔ یہ میزائل ایک کنستر میں درجک بند ہوتا ہے، جو بھارت  کو وار ہیڈ کو مستقل طور پر ڈلیوری سسٹم کے ساتھ مربوط رکھنے دیتاہے، جس سے بھارتی اسٹریٹیجک فورسز کی مستعدی میں اضافہ ہوتا ہے۔ وار ہیڈ کو ڈلیوری سسٹم کے ساتھ مستقل طور پر مربوط رکھنے سے بحران کے دوران میزائل کو لانچ کرنے میں  وقت گھنٹوں سے  کم ہو کرمنٹوں تک رہ جاتا ہے۔ علاوہ ازیں اس سسٹم میں  سرکلر ایرر پروببل محض دس میٹر کا ہے جس کی وجہ سے یہ سائلوز (زیرِ زمین فوجی تنصیبات)، کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹرز، زیر زمین تنصیبات اور اسٹریٹیجک میزائل اڈوں کو نشانہ بنانے اور تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔  یہ ۶۰۰-۱۲۰۰ میل کی رینج کے ساتھ ٹھوس ایندھن سے چلنے والا جوہری صلاحیت کا حامل ایم آر بی ایم ہے۔


اس ٹیکنالوجی کے استعمال سے بھارت پاکستان کے اندر کہیں بھی اہداف کو نشانہ بنا سکتا ہے جو کاؤنٹر فورس (مدِمقابل کی فوجی تنصیبات پر) حملہ کرنے کے لیے کافی ہے۔ اگنی۔ پی کا کئی بار کامیاب تجربہ کیا گیا ہے اور سسٹم سروس میں شامل ہونے کے لیے تیار ہے۔ مشترکہ طور پر یہ صلاحیتیں اگنی ۔ پی کو ایک مؤثر  کاؤنٹر فورس ہتھیار بناتی ہیں اور پاکستان کے اس قیاس کو تحریک دیتی ہیں کہ بھارتی حکمت عملی ہمہ گیر فرسٹ سٹرائیک  اور جوہری جنگ کی طرف بڑھ رہی ہے۔ بھارت کی طرف سے اس طرح کی میزائل کی ترویج غلطی یا تیزی سے بڑھنے والی چپقلش کے امکانات کو بڑھا سکتی ہے۔

براہموس


دوہری صلاحیت رکھنے والا یہ  سٹینڈ آف میزائل ایک وسیع رینج کا حامل ہے جو پاکستان کے موجودہ فضائی دفاعی نظام سے بچ کر پاکستان میں گہرائی تک حملہ کرنے کے قابل ہوگا، جس کے نتیجے میں موجودہ ڈیٹرنس ایکویشن (مزاحمت کا توازن) تبدیل ہوجائے گی۔ پاکستان کے پاس فضائی خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے ایل وائے-۸۰، سپاڈا-۲۰۰۰ اور جدید ترین ایچ کیو-۹ موجود ہیں، لیکن براہموس جیسے سپرسونک کروز میزائلوں کا  بِلا کم و کاست مقابلہ کرنا ایک چیلنج ہے۔ بھارت نے اپنے جوہری صلاحیت کے حامل سپرسونک کروز میزائلوں کی رینج ۱۸۰ میل سے بڑھا کر ۳۱۰ میل کر دی ہے جبکہ  ایک ایکٹیو ریڈار سِیکر کا استعمال کرتے ہوئے  نشانے کی درستگی کو بہتر بنایا ہے۔ بھارت نے مارچ ۲۰۲۲ میں ‘تکنیکی خرابی’ کا دعویٰ کرتے ہوئے  حادثاتی طور پر براہموس میزائل لانچ کیا تھا اور اب اس نے بحری، زمینی اور فضائی تینوں پلیٹ فارمز سے میزائل کا تجربہ کر لیاہے، جس سے پاکستان کے میزائل کو جارحانہ صلاحیت کا مظہر گرداننےکے قیاس کو مزید تحریک ملتی ہے۔

بھارتی بیلسٹک میزائل ڈیفنس سسٹمز

بھارت کے بہتر بی ایم ڈی سسٹمزنے اسلام آباد کویہ تاثر دیا ہے کہ ان سسٹمز کا مقصد  ہمہ گیر  فرسٹ سٹرائیک کے آغاز کے بعد بھارت کا دفاع کرنا ہے۔  اگر ایسا ہوا  تو نئی دہلی اپنے بی ایم ڈی سسٹمز کے ذریعے پاکستان کے باقی ماندہ میزائلوں کو  انٹرسیپٹ  کرنے (راہ میں روکنے) کی امید کر سکتا ہے۔


بھارت دو درجہ داربیلسٹک میزائل ڈیفنس سسٹم مقامی طور پر   تیار کر رہا ہے جس نے پہلے مرحلے کو مکمل کر لیا ہے اور دوسرے مرحلے کے تجربات شروع کر دیے ہیں۔  بھارت نے ۲۱ اپریل ۲۰۲۳ کو اپنے سمندر ی اینڈو ایٹموسفیئرک انٹرسیپٹر میزائل کا کامیاب تجربہ کیا تھا۔ گو کہ بھارت اپنے مقامی بی ایم ڈی سسٹمز  میں سرمایہ کاری کر رہا ہے ، تاہم وہ غیر ملکی سپلائرز سے بھی خرید رہا ہے۔ ۲ مارچ  ۲۰۲۳ تک، نئی دہلی نے روس کے ساتھ پانچ ایس -۴۰۰ سسٹمز فراہم کرنے کے معاہدے پر دستخط کیے، جن میں سے تین  پہلے ہی فراہم کیے جاچکے ہیں۔


واضح رہے کہ ایس ۴۰۰ سسٹمز  کی پہلی تنصیب پاکستان کی سرحد کے قریب پنجاب میں کی گئی تھی جبکہ تیسرا سسٹم پاکستان کی سرحد کے قریب ہی راجستھان میں نصب کیا جائے گا۔ دونوں مقامات کا انتخاب اسٹریٹیجک طور پر کیا گیا تاکہ پاکستان کے  پنجاب اور سندھ میں اہم فضائی اڈوں سے فضائی حملوں کو، ان کے داغے جانے کے ساتھ ہی، بے اثر کیا جا سکے۔ اگرچہ بھارتی فوج نے ان تنصیبات کو پاکستان اور چین دونوں کا مقابلہ کرنے کے طور پر مشتہر کیا ہے (“دو محاذوں کے خطرے” کے سامنے ایک حفاظتی باڑھ)، لیکن پاکستانی تجزیہ کار اس دعوے پر متشکّک ہیں۔ لداخ کے بجائے جہاں سے چین اور پاکستان دونوں کا مقابلہ ممکن ہے، پاکستانی سرحد کے اتنے قریب تین میں سے دو میزائل لانچرز اور ریڈار سسٹمز کی تنصیب، وہ بھی جبکہ دونوں ممالک کے درمیان نسبتاََ پُر امن  حالات ہیں، اسلام آباد کو یہ تاثر دیتا ہے کہ دو محاذوں پر خطرے کا دعویٰ محض آنکھوں میں دھول جھونکنا ہے اور درحقیقت پاکستان  ہی (ان کا) بنیادی ہدف ہے۔

پاکستان کا ردِّعمل


بھارت کی بی ایم ڈی کی بڑھتی ہوئی صلاحیتوں اور پاکستان کی سرحد کے قریب ان کی تنصیب نے اسلام آباد کے لیے خطرے کے تاثر کو بڑھا دیا ہے اور  اسے اپنی دفاعی قوّت کی ساکھ کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کرنے پر مجبور کیا ہے۔ ۲۰۲۳ میں پاکستان نے غوری ایم آر بی ایم کا کامیاب تربیتی تجربہ کیا اور چھ سال کے وقفے کے بعد اپنے ایم آئی آر وی صلاحیت کے حامل میزائل ابابیل کا دوسرا تجربہ کیا۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق یہ تجربہ مختلف سب سسٹمز کے متعدد ڈیزائنز، تکنیکی پیرامیٹرز اور کارکردگی کے جائزے کے لیے کیا گیا۔


 بھارت کی جوہری قوت کی حالیہ  جدید کاریوں اور بھارت کی کاؤنٹر ویلیو (مدّمقابل کی اہم سول تنصیبات پر حملہ) سے ہٹ کر کاؤنٹر فورس (مدّمقابل کی فوجی تنصیبات پر حملہ) کی حکمت عملی تک جا پہنچنے پر ان کے  اثرات کے پیش نظر، پاکستان  کریڈیبل مینیمم ڈیٹرنس کے قاعدے کے تحت فُل سپیکٹرم ڈیٹرنس کی پالیسی پر سختی سے کاربند رہتے ہوئے اپنی جوہری قوت کی معتبری اور بقا کو یقینی بنانے کے لیے کم لاگت کے آپشنز تلاش کر رہا ہے۔  ابابیل کی ایم آئی آر وی ٹیکنالوجی پاکستان کو بھارتی بی ایم ڈی سسٹم میں داخل ہونےمیں مدد دے سکتی ہے اور ایک ہمہ گیر فرسٹ اسٹرائیک صلاحیت کی لاگت میں اضافہ کر سکتی ہے۔ اس طرح یہ میزائل سسٹمز بھارت کی حالیہ میزائل ٹیکنالوجی کی پیش رفت کے ردعمل کے طور پر  پاکستان کے نیوکلیئر ڈیٹرنس کے معیار کو بہتر بنانے کے لئے تیار کیے جا رہے ہیں۔


بھارتی تجزیہ کاروں نے نو فرسٹ یوز پالیسی کے کمزور ہونے کا اعتراف کیا ہے لیکن ان کا کہنا ہے کہ نئی دہلی کا فرسٹ یوز (جوہری حملے میں پہل)  کی طرف رخ کرنا منصفانہ ہے کیونکہ پاکستان بھی اسی پالیسی  پر کاربند ہے۔ تاہم پاکستان کی “فرسٹ یوز ان لاسٹ ریزورٹ” (جوہری حملے میں پہل بطور آخری حربہ) کی پالیسی ہے، جس کا مطلب ہے کہ اسلام آباد جوہری ہتھیاروں کو صرف اسی صورت میں استعمال کرنے کا ارادہ رکھتا ہے جب ہندوستانی روایتی فوج پاکستان کی روایتی افواج پر غالب آنے والی ہو۔

مستقبلات


بھارت کاجارحانہ نظریات کی جانب صریح جھکاؤ، فرسٹ یوز حکمت عملیوں پر غور و خوض اور بھارتی رہنماؤں کے غیر ذمہ دارانہ بیانات خطے میں عدم استحکام کو تحریک دینے کے امکانات رکھتے ہیں۔  مخالفین کے میزائلوں کو روکنے کے لیے بی ایم ڈی سسٹمز کے ساتھ ساتھ ہندوستانی ڈلیوری سسٹمز کی نشانہ باندھنے کی صلاحیتوں میں ترقی  نے نئی دہلی کے لیے صفحۂ قرطاس پر موجود  نو فرسٹ یوز پالیسی ( جوہری حملے میں پہل نہ کرنے کی پالیسی) کے باوجود “ہمہ گیر فرسٹ اسٹرائیک”  کے آغاز کی ترغیب دی ہے۔ اس طرح کے اقدامات مستقبل کے بحرانوں میں پاکستان کے لئے “استعمال کرو یا کھو دو”  کےمخمصے کو جنم دیتے ہیں: ہتھیاروں کےاستعمال میں پہل کریں، کیونکہ اگر ایسا نہیں کیاتو دشمن انہیں تباہ کر دے گا۔ پاکستان کے تجربات، اگرچہ کچھ تجزیہ کار ان تجربات کو شورش کے طور پر دیکھتے ہیں، تاہم یہ  بھارتی میزائل تجربات کا ایک نپا تُلا ردِعمل ہے کیونکہ یہ پاکستان کی کریڈیبل مینیمم ڈیٹرنس کی پالیسی کے مطابق ہیں اور ان کا مقصد خطے کے تزویراتی استحکام کو برقرار رکھنا ہے۔ بھارت کی میزائل ٹیکنالوجی کی حالیہ   پیش رفت پاکستان کو اپنے دفاع کی ساکھ کو یقینی بنانے اور تعلقات میں بحالیٔ استحکام کے اقدامات کرنے پر مجبور کرتی ہے۔

***

Click here to read this article in English.


Image 1: BrahMos cruise missile via Wikimedia Commons

Image 2: Pakistani soldiers guard nuclear-capable missiles via Rizwan Tabassum

Share this:  

Related articles

पर्वतों से समुद्री तटों तक: गलवान के पश्चात् भारत-चीन प्रतिस्पर्धा Hindi & Urdu
جنوبی ایشیا میں بائیڈن کے ورثہ کا جائزہ Hindi & Urdu

جنوبی ایشیا میں بائیڈن کے ورثہ کا جائزہ

ریاستہائے متحدہ امریکہ ، 20 ویں صدی کے وسط سے…

سی پیک کو بچانے کے لیے، پاکستان کی چین پالیسی میں اصلاح کی ضرورت ہے Hindi & Urdu

سی پیک کو بچانے کے لیے، پاکستان کی چین پالیسی میں اصلاح کی ضرورت ہے

پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف رواں ماہ کے اوائل میں صدر شی جن پنگ اور دیگر اعلیٰ چینی حکام سے ملاقاتوں کے بعد تقریباََ خالی ہاتھ وطن واپس پہنچ گئے ہیں۔ چین نے واضح انضباطِ اوقات ( ٹائم لائن) کے تحت پاکستان میں بڑے منصوبوں کے لئے سرمایہ کاری کا وعدہ نہیں کیا۔ اس […]