24149550459_3a797010b2_k-e1606269207632-1600×900

امریکہ میں ڈیموکریٹس بائیڈن کی فتح کا جشن منا رہے ہیں، جو ٹرمپ کی برطرفی اور امریکی سیاست میں ایک طویل، تکلیف دہ باب کے اختتام پر خوش ہیں۔ باقی دنیا کے لئے  قیادت میں تبدیلی کے اثرات مختلف ہیں۔

کئی دیگر ممالک، جو امریکی استثنیٰ سے تنگ آچکے ہیں، نے ٹرمپ کو اقتدار میں رہنے کو ترجیح دی ہو گی کیونکہ انکے مدنظر ٹرمپ کی خارجہ پالیسی چین کو نیا معاشی مرکز بننے میں مدد کرتی ہے۔ پاکستان میں کئی افراد ٹرمپ کو  بطور رہنما قابلِ احترام نہیں سمجھتے اور امریکہ میں اس کی عوامی حمایت پر حیرت زدہ تھے۔

پاکستان کے چار ہمسایہ ممالک چین ، ہندوستان ، افغانستان اور ایران کے ساتھ صدر منتخب جو بائیڈن کا رویہ ، مشترکہ طور پر امریکہ اور پاکستان تعلقات کی نوعیت کا تعین کرے گا۔

پاکستان کے لئے امریکہ اور بھارت کے تعلقات کے مضمرات

وائٹ ہاؤس میں ایک ہندوستانی نژاد کے نائب صدر منتخب ہونے سے امریکہ۔ بھارت تعلقات کو مزید تقویت ملنے کا امکان ہے۔ تاہم گذشتہ پانچ برس میں نہایت مختلف عوامل نے امریکہ اور ہندوستان کے تعلقات کو ایک اہم مقام تک پہنچایا۔ اسٹریٹجک میدان میں، چین کے بڑھتے ہوئے معاشی اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے کے لئے امریکہ نے بطورِ علاقائی حکمت عملی بھارت کے ساتھ شراکت داری اپنائی۔ امریکی انتخابات سے ایک دن قبل، امریکہ اور ہندوستان نے ایک اہم عسکری معاہدے پر دستخط کیے، جس سے تعلقات کو مزید تقویت ملی۔

اس طرح بھارت کی غیر منسلک خارجہ پالیسی بالکل تبدیل ہو چکی ہے، کیونکہ امریکہ کے ساتھ قریبی تعلقات ایک اتحادی ہونے کا اشارہ ہیں۔ بائیڈن کی صدارت میں امکان ہے کہ امریکہ کثیرالجہتی اداروں میں اپنے انسانی حقوق کے چیمپئن کے کردار کو عالمی سطح پر استعمال کرنے کی طرف لوٹ آئے گا۔ اس طرح وہ کشمیر میں بھارت کے مبینہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی بالواسطہ مخالفت کرسکتا ہے۔ اس سے امریکہ اور بھارت کے تعلقات کی مجموعی نوعیت تبدیل ہونے کا امکان نہیں ہے۔

چونکہ بھارت پاکستان کا سب سے قدیم حریف ہے، اس لئے امریکہ اور بھارت کے مابین قریبی تعلقات پاکستان، جو کہ بھارت کے بیانیے کا مقابلہ کرنے کے لئے تزویراتی مواصلات میں مصروف ہے، کے لئے اچھی پیشرفت نہیں ہے۔ بھارت امریکہ تعلقات پاکستان کی کوششوں کو مزید دشوار بنائیں گے، خاص کر آئی ایم ایف جیسی کثیرالجہتی تنظیموں کے ساتھ، جن کی مدد کی اسے اشد ضرورت ہے۔

پاکستان اور امریکہ چین تعلقات

اہم بات یہ ہے کہ بھارت اور پاکستان دونوں کی شمال میں چین کی سرحد ہے۔ چین اور امریکہ کے مابین نو سرد جنگ پچھلے کچھ سالوں سے عالمی سیاسی مرکز بن چکی ہے۔ پاکستان بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) کے تحت چین سے قرضوں اور امداد میں اربوں ڈالر وصول کر چکا ہے، جس کی وجہ سے بظاہر نمو، انفراسٹرکچر کی ترقی اور ملازمت کے مواقوں میں اضافہ ہوا ہے۔ دونوں ممالک اپنے اسٹریٹجک شراکت داری کے فریم ورک کے تحت اکثر ایک دوسرے کو “آئرن برادران” کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔

قدرتی طور پر، چین کے لئے ایک سخت امریکی پالیسی پاکستان پر اثر انداز ہوگی۔ پھیلاؤ تجارتی جنگ کے دنیا بھر میں پہلے ہی پھل پڑ رہے ہیں۔ چین اور امریکہ کے بیچ ابھرتی ہوئی تجارتی جنگ کے اثرات دنیا بھر میں مرتب ہو رہے ہیں۔ چین عالمی وبائی مرض کے ذریعے دنیا کی سب سے بڑی معیشت بن کر ابھرا ہے اور متوقع متوسط ​​ترقی رکھنے والا دنیا کا واحد ملک ہے۔ امریکہ اس پیشرفت کو روکنے کا خواہش مند ہوگا۔ امریکہ اور ہندوستان کی شراکت داری اس تناظر میں زیادہ معنی خیز ہے، کیونکہ ایک مضبوط، معاشی طور پر مضبوط اور مستحکم ہندوستان چینی تسلط کو متوازن کر سکے گا۔

امریکہ – افغانستان مذاکرات میں پاکستان کا کردار

بائیڈن چوتھے امریکی صدر ہوں گے جنہوں نے ۱۹ سالہ طویل ­– کچھ دلائل کے مطابق ۴۱ سالہ طویل – افغان بحران کا سامنا کیا ہے۔ جنگ کے آغاز سے ہی امریکی فوجیوں کی افغانستان سے واپسی سے ہٹانے کا چرچا کا امکان موجود رہا ہے۔ اگرچہ افواج کی موجودگی میں بتدریج کمی واقع ہوئی ہے، اور قومی سلامتی سے توجہ اسٹرٹیجک اثاثوں کے تحفظ کی طرف موڑ دی گئی ہے، تاحال ملک میں تقریبا ۴۵۰۰ امریکی فوجی باقی ہیں۔

فروری میں امریکی طالبان کے امن معاہدے نے فوجیوں مکمل وطن واپسی کی راہ ہموار کی، خاص طور پر انٹرا افغان مذاکرات (آئی اے این) کے ذریعے کسی ممکنہ معاہدے کی موجودگی میں۔ آئی اے این کے معاہدے کے بغیر امریکی فوجی دستے کے انخلاء کا نتیجہ افغانستان میں قیادت کا فقدان ہوگا۔ یہ عین ممکن ہے کہ اپنے دور صدارت کے آخری دنوں میں، ٹرمپ فوجیوں کو ہٹانے کے اپنے کلیدی مہم کے وعدے کو پورا کرنے کی کوشش کرے گا۔

بائڈن کا مختلف طرز عمل اختیار کرنے کا امکان نہیں ہے؛ وہ “ہمیشہ کی جنگوں” سے متعلق امنے خیالات کا پہلے اظہار کر چکے ہیں (جنگ سے جڑے انکے شکوک و شبہات اوبامہ انتظامیہ کے رکن ہونے کے دور سے ہی معروف ہیں)۔ توقع ہے کہ جنوری ۲۰۲۱ تک فوج کی موجودگی تقریباً آدھی ہوجائے گی۔

پاکستان نہیں چاہتا ہے کہ افغانستان افراتفری میں ڈوبے۔ ٹرمپ کی صدارت کے آخری دو سالوں میں پاکستان نے امریکہ کے ساتھ قریبی تعلقات کا لطف اٹھایا کیونکہ پاکستان نے طالبان کو امریکہ کے ساتھ مذاکرات کی میز پر لانے میں مدد فراہم کی تھی۔ پاکستان کو اوبامہ کے دور میں افغانستان کی صورتحال کو مستحکم کرنے کے لئے ایک اہم اداکار کہا گیا تھا، جو بائیڈن کے تحت جاری رہنے کا امکان ہے۔ کیونکہ پاکستان کو اپنی مشرقی سرحد کے ساتھ پہلے ہی ایک دشمن ہمسایہ کا سامنا کرتا ہے، پاکستان افغانستان میں مفاہمت دیکھنے کا خواہاں ہے۔ یہ وعدہ ۱۹ نومبر کو وزیر اعظم عمران خان نے کابل کے پہلے دورہ میں دہرایا۔

افغان امن عمل میں سب سے بڑا مسئلہ ہندوستان کا کردار ہے، جو اب سے قبل انتہائی معمولی تھا۔ تاہم ستمبر میں ہونے والے امن مذاکرات کی افتتاحی تقریب میں بھارتی وزیر خارجہ سبرامنیم جیشنکر موجود تھے، جو کہ بھارت کے بڑھتے اثر و رسوخ کا اشارہ ہے۔ پاکستان اس کو ناگوار سمجھتا ہے۔ پاکستان امریکہ تعلقات چین کی مساوات کے تحت پہلے ہی کافی پیچیدہ ہیں، لیکن اگر بائیڈن نے افغانستان میں بھارت کے ایک بڑا کردار ادا کرنے کی خواہش ظاہر کی تو یہ پاکستان میں خطرے کی گھنٹی بجا دے گا۔

اگر امریکہ کی افغانستان پر توجہ کم ہوتی ہے تو اس خطے میں اس کی واحد دلچسپی چین کا مقابلہ کرنا اور بھارت کو بلند کرنا ہوگی۔ یہ پاکستان کے لئے ناپسندیدہ نتیجہ ہوگا۔ پاکستان یہ چاہتا ہے کہ امریکی فوج کی موجودگی ذمہ داری کے ساتھ افغانستان میں برقرار رہے جب تک کہ یہ مذاکرات کامیاب نہیں ہوجاتے اور کابل اور طالبان کے مابین اقتدار میں شراکت کا فارمولا نافذ نہیں ہوتا۔

پاکستان اور امریکی ایران تناؤ

پاکستان کا مغربی پڑوسی ایران بھی امریکہ کے لئے پیچیدگیاں پیش کرتا ہے۔ ایران کے بارے میں امریکی موقف یکسنگی نہیں ہے، جیسا کہ ہم نے اوباما اور ٹرمپ کی قیادت میں دیکھا ہے۔ بائیڈن ممکنہ طور پر ایران کے بارے میں اوبامہ کی پالیسی میں واپس آنا چاہیں گے، لیکن ٹرمپ اپنی صدارت کے آخری دنوں میں معاملات کو پیچیدہ بنا سکتے ہیں۔ ۱۶ نومبر کو ٹرمپ نے اپنے مبینہ جوہری پروگرام کی روک تھام کے لئے ایران پر اسٹریٹجک حملوں کے امکانات پر غور کرنے کو کہا جو یہ بائیڈن کے تحت مفاہمت کو خطرے میں ڈال دے گا۔

پاکستان اور ایران کی ایک پیچیدہ لیکن دوستانہ تاریخ ہے۔ حالیہ برسوں میں ہونے والی انحراف بنیادی طور پر سیکیورٹی خدشات میں پائے گئے ہیں۔ امریکہ اور پاکستان کے ایک اور ہمسایہ ملک کے مابین مسلح تصادم پاکستان کے مفادات کے منافی ہے۔ پاکستان اس طرح کے نتائج سے بچنے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہے گا۔

حاصل کلام

پاکستان کو صبر سے انتظار کرنا ہوگا اور یہ دیکھنا ہوگا کہ بائیڈن نے پاکستان کے ہمسایہ ممالک کے لئے کیا ارادے ہیں، کیونکہ نئی انتظامیہ کا موقف پاکستان کے بارے میں زیادہ مختلف نہیں ہوگا۔ اس سے قبل، پاکستانی اسٹریٹجک سوچ میں امریکہ ایک “اہم اسٹریٹجک پارٹنر” اور “دہشت گردی کے کفیل” ہونے کے بیچ جھولتا رہا ہے،  جو صورت حال، انتظامیہ، افادیت، سال اور جغرافیائی سیاسی تحفظات پر منحصر ہے۔

پاکستان کو دہائیوں سے جاری سرگرمیوں کو ختم کرنے، خطے میں سلامتی کو یقینی بنانے، معاشی نمو پر توجہ دینے اور امریکہ چین تجارتی جنگ پر براہ راست تبصرہ کرنے سے گریز کرنے کے لئے افغانستان میں نمایاں طور پر مثبت کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ علاقائی معاشی رابطے کی طرف بڑھنے کے لئے ہندوستان کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کی بھی کوشش کی جانی چاہئے۔

مختصر مدت میں، پاکستان کے لئے  زیادہ تبدیلی آنے کا امکان نہیں ہے، لیکن افغانستان میں امن (یا اس کی کمی) اور امریکہ اور بھارت تعلقات میں ڈرامائی بہتری طویل مدتی میں اس کی راہ عمل کا فیصلہ کرے گی۔

***

Click here to read this article in English.

Image 1: U.S. Department of State via Flickr (cropped)

Image 2: Ali Khameini via Wikimedia Commons

Share this:  

Related articles

پلوامہ – بالاکوٹ پانچ برس بعد جائزہ Hindi & Urdu

پلوامہ – بالاکوٹ پانچ برس بعد جائزہ

لمحۂ موجود میں پاکستان، بھارت کے تزویراتی بیانیے سے تقریباً…

جوابی کار روائی: کیا پاکستان فوجی حملوں کے رد عمل پر غور کر رہا ہے؟ Hindi & Urdu

جوابی کار روائی: کیا پاکستان فوجی حملوں کے رد عمل پر غور کر رہا ہے؟

ایران اور پاکستان کے درمیان حالیہ جیسے کو تیسا حملے …

پاکستان کا بعد از انتخابات ماحول: ماہرین کا ردعمل Hindi & Urdu

پاکستان کا بعد از انتخابات ماحول: ماہرین کا ردعمل

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سے تعلق رکھنے والے…