۲۰۱۹ میں، ایک انتخابی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی نے برسرعام ایک بھڑکتا ہوا بیان داغا تھا کہ، “ہر دوسرے دن وہ (یعنی پاکستان) کہتے ہیں کہ ‘ہمارے پاس جوہری بٹن ہے، ہمارے پاس جوہری بٹن ہے۔’ ہمارے پاس پھر کیا ہے؟ کیا ہم نے اسے دیوالی کے لیے سنبھال کر رکھا ہوا ہے (ایک بڑا بھارتی تہوار جو پٹاخوں کے بےدریغ استعمال کے ساتھ منایا جاتا ہے)؟” ان کا بیان بھارت اور پاکستان کے درمیان اپنی جوہری رقابت کے حوالے سے مبالغہ آمیز بیان بازی کی محض ایک مثال ہے۔
صرف ایک برس پہلے، پاکستانی وزیر شازیہ مری نے ایک پریس کانفرنس کے موقع پر ایک گرما گرم بیان جاری کیا تھا کہ “بھارت کو نہیں بھولنا چاہیئے کہ پاکستان کے پاس ایک ایٹم بم ہے۔ جوہری حیثیت کا مطلب یہ نہیں کہ ہم چپ رہیں گے۔ اگر ضرورت پڑی تو ہم ہرگز پیچھے نہیں رہیں گے۔” گھنٹوں بعد ہی، مری اپنے موقف سے پیچھے ہٹ گئیں اور ٹوئیٹ کیا کہ “پاکستان ایک ذمہ دار جوہری ریاست ہے۔ بھارتی ذرائع ابلاغ میں کچھ عناصر خوف و ہراس کی کیفیت پیدا کرنا چاہ رہے ہیں۔” ان کا بیان بھارتی ردعمل کا سبب بنا اور وزیر برائے امورِ خارجہ وی مرلی دھرن نے دعویٰ کیا کہ “بھارت ان تمام خطرات سے نمٹنے کی اپنے اندر صلاحیت رکھتا ہے۔ بھارت وہ ریاست نہیں کہ جو کسی کی دھمکیوں سے پیچھے ہٹ جائے گا۔ کسی کو اس بارے میں کوئی شک و شبہ نہیں ہونا چاہیئے۔”
یہ غیر ذمہ دارانہ بیانات، ذمہ دار سیاست دانوں کی جانب سے سامنے آئے ہیں۔ مزید براں یہ روایتی بیان بازی نفسیاتی طور پر جوہری جنگ کی تخلیق میں اپنا حصہ ڈالتی ہے۔ جوہری ہتھیاروں کے استعمال سے وابستہ خطرات کو دیکھتے ہوئے، یہ بیانات اشارہ دیتے ہیں کہ یا تو نئی دہلی اور اسلام آباد کو مہلک جوہری تناؤ سے خود کو باز رکھنے کے لیے اپنی ذمہ داریوں سے باخبر کیے جانے کی ضرورت ہے یا پھر یہ کہ وہ جانتے بوجھتے پہلے سے موجود جوہری تزویراتی علم سے نظریں چرا رہے ہیں۔ بالفاظِ دیگر، ذمہ دار جوہری ریاستوں کو چاہیئے کہ وہ بم کو رسواکن حقیقت بنانے کو ترجیح دینے کے لیے حکمت عملی بنائیں۔ سب سے اہم امر یہ ہے کہ یہ بیان بازیاں جوہری ذمہ داریوں کے لیے درکار بنیادی عناصر کی اہمیت کو نقصان پہنچاتی ہیں۔
جوہری ذمہ داریاں ان غیر معمولی پابندیوں اور دلیلوں کا نام ہے کہ جن پر جوہری پوسچرنگ (جوہری ہتھیاروں کے حوالے سے نقطۂ نگاہ) اور پھیلاؤ کے حوالے سے خود کو قیود میں رکھنے کے لیے جوہری ہتھیاروں سے لیس ریاستیں عمل درآمد کرتی ہیں تاکہ جوہری بحران سے بچا جا سکے اور جوہری ہتھیاروں کی دوڑ کو کم سے کم رکھا جا سکے۔ جوہری ذمہ داریوں کا ڈھانچہ یہ مطالبہ کرتا ہے کہ ریاستیں ایسے رویوں کو ترجیح دیں جو ڈیٹرنس کے موثر پوسچرز اور ڈاکٹرائنز کو نافذ کریں، جوہری خطرات میں کمی لائیں اور ہتھیاروں سے نجات کے لیے شرائط تخلیق کر سکیں۔ اشتعال انگیزی سے وابستہ تباہ کن خطرات کو دیکھتے ہوئے، بھارت اور پاکستان دونوں ملکوں کی سیاسی قیادت کو جوہری غیر ذمہ داریوں پر مبنی اقدامات سے باز رہنا چاہیئے اور جوہری تحفظ اور سلامتی کی روایات کے لیے اپنے احترام کا مظاہرہ کرنا چاہیئے۔
جوہری ذمہ داریوں کا ڈھانچہ
جوہری ہتھیاروں کی ایجاد کے وقت سے ہی سائنسدان، سول سوسائٹی، پالیسی ساز، اور سیاسی رہنماؤں نے جوہری ذمہ داریوں کو بیان کرنے کے لیے کام کیا ہے۔ تاہم جوہری ٹیکنالوجیز کی پیچیدہ سیاسی نوعیت کے سبب یہ افراد جوہری ذمہ داریوں کے ضمن میں عناصر کی تعریف پر آفاقی اتفاق رائے پیدا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ اس کے باوجود بھی ذمہ داریوں کے حوالے سے جوہری سائنسدانوں اور انسانیت کے حوالے سے ریاستوں کے ابتدائی خیالات نے اس مقصد کی خاطر ایک جوہری کمیونٹی کی تشکیل کے لیے مضبوط بنیادیں فراہم کی ہیں۔ جنگ عظیم دوئم کے دوران، صدر ٹرومین کے سیکرٹری برائے جنگ ہینری اسٹمسن نے جوہری ذمہ داریوں کو تمام جوہری فیصلوں کے لیے مرکزی نکتہ قرار دیے جانے کی اپیل کی۔ پِگواش کانفرنسز کے بانیان نے بہت سے ماہرین اور تنظیموں کو اس نکتے کی جانب رغبت دلوائی ہے کہ جوہری ذمہ داریوں کے ادراک کے ذریعے ہی جوہری خطرات سے نمٹا جائے۔ ان ڈھانچوں کے مطابق جوہری ہتھیاروں سے لیس ریاستوں کو پھیلاؤ اور ہتھیاروں کی دوڑ کے حوالے سے خود پر قابو رکھنا چاہیئے، ہتھیاروں سے پاک ہونے کے لیے اپنے عزائم کا اظہار کیا جائے، جوہری سلامتی کی ایک فضا قائم کرنی چاہیئے اور جوہری ہتھیاروں کے استعمال کے حوالے سے نفرت پیدا کی جائے۔
حال ہی میں برٹش امریکن سیکیورٹی انفارمیشن کونسل (بیسک) اور انسٹی ٹیوٹ برائے تنازعہ، تعاون و سلامتی (آئی سی سی ایس) نے مشترکہ طور پر جوہری ذمہ داریوں کے حوالے سے ایک نقطۂ نظر تخلیق کیا ہے تاکہ جوہری مسائل کے بارے میں سوچنے، بات کرنے اور تحریر کے انداز کو تبدیل کیا جائے۔ جوہری ذمہ داریوں کی یہ ٹول کٹ، جوہری منطق کا رخ کسی جوہری کردار کے حقوق نیز جوہری ہتھیاروں کے بڑے ذخیروں کے حصول اور ان میں اضافے سے منتقل کرتے ہوئے اسے ان ہتھیاروں سے نمٹنے کے لیے ذمہ دار بننے، اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے لیے میکنزم کی تشکیل اور حاصل شدہ ہتھیاروں کے حوالے سے باہمی پابندیوں کے اظہار جیسی ذمہ داریوں کی جانب کرتی ہے۔ یہ کثیرالسطحی ڈھانچہ بھی ہے تاکہ جوہری امور پر متبادل تعلیم فراہم کی جا سکے۔
اس ڈھانچے کو اختیار کرنے کے ذریعے عالمی برادری میں کون ذمہ دار اور کون غیر ذمہ دار جوہری ریاست ہے، کے زہریلے المیئے سے آگے بڑھنے کے لیے جامع اصول فراہم کر سکے گی۔ مثال کے طور پر، یہ ڈھانچہ ایک مجموعی جوہری فرہنگ کی تعمیر میں مدد دیتا ہے اور الزام لگانے کی ثقافت کو روکتا ہے۔ علاقائی سطح پر، یہ مشق نئی دہلی اور اسلام آباد کو اپنے جوہری سلامتی اپریٹس اور بیانیے اور اس کے ساتھ ساتھ ان کے منفی نتائج کا مل جل کر تجزیہ کرنے میں مددگار ہے۔ اگر قومی رہنما اس ڈھانچے کو اختیار کرتے اور فروغ دیتے، تو شائد سیاسی رہنماء جوش میں آ کر جوہری بٹن جیسے بیانات سے باز رہتے۔
جنوبی ایشیا کی موجودہ جوہری ثقافت میں جوہری ذمہ داریوں کی کمی ہے
جب بھارت اور پاکستان میں سیاست دان ایک دوسرے کو جوہری بٹن کی یاد دلاتے ہیں اور جوہری ہتھیاروں کو دیوالی کے پٹاخوں کے متوازی ٹھہراتے ہیں، تو وہ جنوبی ایشیائی جوہری ثقافت کو تقویت پہنچاتے ہیں۔ اسی جوہری ثقافت نے جوہری ٹیکنالوجی کے حصول میں جنگجویانہ فخر شامل کرنے اور سیاسی خودمختاری کے لیے اسے طاقتور ترین ہونے کی ایک علامت بنانے میں سہولت کاری کی ہے۔ اس جوہری ثقافت میں، ایک دوسرے پر جوہری حملوں کے ممکنہ خطرات اور جارحیت کے حامل ایس این ڈبلیو کے ضمن میں مشترکہ ذمہ داریوں پر مذاکرات کا میدان محدود ہے۔ مثال کے طور پر اسلام آباد اور نئی دہلی جوہری اعتماد سازی کے اقدامات (این سی بی ایمز) کے لیے مضبوط ادارہ جاتی انتظامات تک نہیں کر پائے ہیں۔
بھارت اور پاکستان کو مشترکہ جوہری ڈاکٹرائن کی تشکیلات اور اس کے نفاذ کے لیے طریقۂ جات کی شناخت کے لیے تعاون کے ریکارڈ کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ مزید برآں،ان کے مبہم ڈاکٹرائنز، پوسچرز اور حادثات جوہری عدم استحکام کا باعث ہو سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر براہموس میزائل داغے جانے کے موقع پر، بھارتی سیاسی قیادت اپنے پاکستانی ہم منصبوں کے ساتھ رابطہ قائم کرنے میں ناکام رہی تھی۔ اسی طرح فروری ۲۰۱۹ کے بحران کے دوران، امریکہ کی بروقت مداخلت نئی دہلی اور اسلام آباد کے درمیان معاملے کے جوہری رنگ اختیار کرنے سے باز رکھنے میں اہم ثابت ہوئی تھی۔
مزید برآں نو فرسٹ یوز (این ایف یو) کی صورت میں موجود انتباہ، ساکھ اور تخفیفیت جیسے عوامل کا موقع کی مناسبت سے طے کیے جانے والے معنی، فل اسپیکٹرم ڈیٹرنس پر توجہ، اور ٹیکٹیکل جوہری ہتھیاروں کے نفاذ کے لیے جدوجہد جوہری ہتھیاروں کو شجرِ ممنوعہ قرار دینے کے بجائے اس کے استعمال کا امکان بڑھا دیتے ہیں۔ مزید یہ کہ، جنوبی ایشیا میں جوہری ہتھیاروں سے دستبرداری کے کسی بین السرحدی معاہدے کی غیر موجودگی، جوہری فشن کے مواد کے لیے قابل تصدیق اقدامات کی کمی نیز جوہری برتری کی جدوجہد، ذمہ دار جوہری ریاستوں کی عکاسی نہیں کرتے۔ ذمہ دار سیاسی قیادتوں کو جوہری خطرات میں کمی اور جوہری دھمکیاں دینے کے لامتناہی سلسلے کو روکنے کے لیے مذاکراتی عملی کا آغاز کرنا ہو گا۔ لیکن بدقسمتی سے انہوں نے بات چیت کے امکانات کو کم کر دیا ہے اور مشروط مذاکرات کو شروع کرنا مشکل ہے۔ یہ ایٹمی ماحول، جوہری بحران کے لیے محرک بنتا ہے اور پرخطر حقائق کے اوپر پردہ ڈالتا ہے۔ یوں یہ رجحانات اور شعلہ انگیز بیانات جوہری غیر ذمہ داری کا سبب بنتے ہیں۔
مستقبل کے لیے ذمہ داریاں اور اسباق
جوہری ذمہ داریوں کی ٹول کٹ جنوبی ایشیائی ایٹمی عوام اور ریاست کو اپنی جوہری ذمہ داریوں کو پہچاننے میں مدد دے سکتی ہے۔ یہ ادراک جوہری تناؤ کے بلندی کو چھوتے ماحول میں جوہری حدود قائم کرنے کا باعث اور متبادل پالیسی اقدامات کا تصور کرنے میں مدد دے گا۔ یہ ریاستی سلامتی اور اقتدار اعلیٰ کو یقینی بنانے کے لیے جوہری ہتھیاروں پر انحصار میں کمی لانے میں کارآمد ہو گا۔ تاہم “الزام تراشی کا پرانا رواج،“ اپنی حیثیت کے حوالے سے حساس ایٹمی عوام، جوہری اور سائبر ٹیکنالوجیز کا ابھرتا ہوا سنگم اور بیرونی کھلاڑیوں کا متحرک کردار بھارت اور پاکستان کے جوہری آزمائشوں کے لیے اضافی چیلنجز ہوں گے۔ جیسا کہ بے یقینی اور اشتعال انگیزی کے خطرات میں اضافہ ہو رہا ہے، ایسے میں بھارت اور پاکستان کو ہنگامی بنیادوں پر جوہری ذمہ داریوں کا ڈھانچہ اپنانے کی ضرورت ہے۔
اسی کے ساتھ ساتھ، اس کا نفاذ اور نفاذ کو برقرار رکھنا مشکل ہے۔ مثال کے طور پر، ذمہ داریوں کا نیٹ ورک پالیسی سازوں کے لیے ایسے وقت میں زیادہ پرکشش نہیں ہو سکتا کہ جب دونوں ممالک کے درمیان مذاکراتی عمل نچلی ترین سطح پر ہے۔ جوہری مکالمے کا رخ “حقوق، الزام، شک اور عدم اعتماد” سے موڑتے ہوئے “ذمہ داری، تعاون، احساس اور اعتماد” کی جانب کرنے کے لیے اس ماڈل کے نفاذ کی متعدد کوششوں کے جائزوں کو اکیڈمک حلقوں میں تقویت ملی ہے۔ تاہم جیسا کہ رابعہ اختر نے درست نشاندہی کی ہے، جنوبی ایشیائی سیاسی رہنماؤں کو اس ماڈل کے لیے قائل کرنا بدستور ایک کلیدی چیلنج ہے۔
جنوبی ایشیا میں جوہری ذمہ داریوں کے ڈھانچے کے لیے حمایت قائم کرنے کے لیے، خطے کی جوہری حرکیات کے لیے کام کرنے والی تنظیموں اور مفکرین کو ورکشاپس کے اہتمام، باہمی تعاون کے ذریعے کام اور حکام اشرافیہ کو متبادل پالیسی پر مشورے کے ذریعے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے جوہری ذمہ داریوں کے ڈھانچے پر قائل کرنا چاہیئے۔ مفکرین کا جامعات اور متعدد میڈیا پلیٹ فارمز پر بات چیت کرنا، سیاسی لیڈروں تک اپنی آواز پہنچانے کا ایک آسان راستہ ہو سکتا ہے۔
آنے والے طویل وقت میں، خودمختار بین الاقوامی تنظیموں اور ریاستوں کو جوہری ذمہ داریوں کے ڈھانچے کے تحت سابقہ پالیسی سازوں اور جنوبی ایشیائی جوہری سیاست کے ماہرین کے مابین منظم مکالمے کا اہتمام کرنا چاہیئے۔ نئی دہلی اور اسلام آباد پر جوہری ٹیکنالوجی میں پیش رفت اور بحران کے دوران دونوں پر لگنے والے غیر ذمہ داری کے دھبے کو دھونے کے لیے یہ ایک دوسرے کی جوہری سوچ اور فیصلہ سازی کو جاننے کے لیے تنقیدی زبانی تاریخ پر مبنی تحقیقی طریقہ کار اختیار کر سکتے ہیں۔
اس طرح جوہری ذمہ داریوں کا ڈھانچہ ذات کے گرد گھومتا اور جنگجویانہ جوہری بیانیے کو تبدیل کرتے ہوئے امن پسند ڈیٹرنس اور استحکام پر مبنی بیانیوں اور پالیسیوں میں تبدیل کر سکتا ہے۔ یہ سوچ اس حقیقت کے ادراک میں سہولت کاری کرتی ہے کہ ان کی قومی سلامتی کی ترجیحات جوہری خیر و شر کی جنگ کو روکنے میں ایک باہمی دلچسپی رکھتی ہیں۔
***
Click here to read this article in English.
Image 1: Punit Paranjpe/AFP via Getty Images
Image 2: STR/NurPhoto via Getty Images