یہ مضمون ہنری ایل اسٹیمسن سینٹر کی اشاعت ۳۸نارتھ کے ساتھ ایک سیریز کے ایک حصے کے طور پر مشترکہ طور پر شائع کیا گیا ۔
رواں سال کے اوائل میں جنوبی کوریا کے صدر یون سک یول نے کہا تھا کہ اگر شمالی کوریا کے ساتھ سلامتی کی صورتحال خراب ہوتی رہی تو ان کا ملک جوہری ہتھیار بنا سکتا ہے۔ شمالی کوریا کی جانب سے ہتھیاروں کے بڑھتے ہوئے تجربات کے درمیان ان کا یہ بیان پہلا موقع تھا جب صدارتی سطح پر اس آپشن پر گفتگو کی گئی اور یہ سیئول کے جوہری مستقبل کے بارے میں بڑھتے ہوئے غور و خوض کا سب سے زیادہ براہ راست حوالہ ہے۔ یون کے اس طرح کے بیان کی اس سے پہلے کوئی مثال موجود نہیں اور اس نے جنوبی کوریا کے آزاد جوہری قوتوں کے حق میں بھرپور عوامی جذبات کی ترجمانی کی۔ علاوہ ازیں، تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ جنوبی کوریا کے لوگوں کو یہ بھی یقین ہے کہ امریکہ اپنے جوہری وعدوں کو پورا کرے گا، جس نے جنوبی کوریا کے ساتھ اس کے اتحاد کو مزید تقویت پہنچائی ہے۔ مزید برآں، جنوبی کوریا کے عہدے داروں نے یون کے بیان سے یہ کہتے ہوئے دستبرداری اختیار کی کہ اگر ضرورت پڑی تو امریکی جوہری ہتھیار شمالی کوریا کے خلاف استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ یون کے ان خیالات کے اظہار کے چند ماہ بعد، جنوبی کوریا نے واشنگٹن اعلامیے پر دستخط کیے، جس میں جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے کے تحت امریکہ کی اضافی ڈیٹرنس پر مکمل اعتماد اور اپنے وعدوں پر عملدرآمد کرنے کا اعادہ کیا گیا۔ سیئول۔واشنگٹن تعلقات میں اس تجدید شُدہ حوصلہ افزائی اور خیر سگالی کا اندازہ یون کے اپنے ملک کے واشنگٹن کے ساتھ اتحاد کو جوہری بنیادوں پر مبنی قرار دینے سے لگایا جا سکتا ہے۔
واضح رہے کہ سیئول نے جوہری راستے پر چلنے کا کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے۔ تاہم، جنوبی کوریا میں بدلتی ہوئی نیوکلیئرائزیشن (جوہری اسلحے سے لیس ہونے) کی بحث اہم ہے اور اس کا تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر سیئول ایک جوہری ریاست بن جاتا ہے تو پیونگ یانگ اورسیئول، جزیرہ نما کوریا میں جوہری تعلق دار کے طور پر اُبھرکر سامنے آئیں گے۔ فریقین کے مابین تعلق، پاکستان اور بھارت جیسے جوہری حریفوں کے تعلقات کی طرح تلخ اور غیر مستحکم ہوسکتا ہے۔
چونکہ جنوبی کوریا جوہری ہتھیاروں کے ممکنہ حصول کی کڑی شمالی کوریا کی جانب سے درپیش سلامتی کے خطرات سے مِلا رہا ہے، اس لیے یہ دیکھنا پُر از معلومات ہے کہ گزشتہ ۲۵ برسوں کے دوران جنوبی ایشیا کے جوہری فریقین کی کارکردگی کیسی رہی۔ اس سے جنوبی کوریا کے لیے بیک وقت دو اسباق سامنے آتے ہیں۔ اوّل، جوہری ہتھیاروں کا جزیرہ نما پر کوئی انقلابی اثر رُونما نہیں ہوگا، کیونکہ دونوں کوریاؤں کے درمیان سلامتی کی کشمکش میں کمی نہیں بلکہ اضافہ ہونے کا امکان ہے۔ دوئم، گو کہ جوہری ہتھیاروں کا حصول شمالی کوریا کو طاقت کے زور پر دونوں کوریاؤں کو دوبارہ متحد کرنے سے روک سکتا ہے، لیکن وہ دونوں فریقین کی جانب سے جوہری تناظر میں کی گئی تخریبی کارروائیوں کو غیر قانونی قرار نہیں دے گا۔
کوئی جوہری انقلاب منظر پرنہیں
جنوبی کوریا کو پاک بھارت جوہری تعلق داری سے سب سے اہم سبق یہ حاصل کرنا چاہیے کہ جوہری ہتھیاررکھنے سے جزیرہ نما کوریا میں سلامتی کی کشمکش ختم نہیں ہوگی۔ سلامتی کی کشمکش، جس میں محفوظ تر جنوبی کوریا شمالی کوریا میں عدم تحفظ کے خدشات پیدا کرتا ہے، ایک اہم اور مستقل معاملہ رہے گا۔ دوسرے الفاظ میں، جوہری انقلاب کا نظریہ، جس کا ماننا ہے کہ حقیقی مشترکہ کمزوری جوہری دشمنی کو مسطّح رکھے گی، ممکن ہے کہ دونوں کوریاؤں کے لئے درست نہ ثابت ہو ۔
یقیناََ جنوبی ایشیائی جوہری تعادل اس نظریے میں موجود بنیادی خامیوں کی زبردست نشاندہی کرتاہے۔ سٹیمسن سینٹر کے زیرِ اہتمام ایک تقریب میں مقررین نے اس بات پر تبادلہ خیال کیا کہ کس طرح پاکستان اور بھارت دونوں نے جوہری ہتھیاروں کے ذریعے بہتر استحکام حاصل کرنے کی کوشش کی؛ تاہم ایسا ہو نہیں پایا۔ اپنے جوہری ڈیٹیرنٹس کو مکمل کرنے کے باوجود، ان کے تعلقات مستحکم نہیں ہیں۔ جنوبی ایشیا میں بحرانات اور تقریباََ بحرانی صورتحال نمایاں خصوصیات رہے ہیں۔ ۱۹۹۹ کی کارگل جنگ سے لے کر ۲۰۱۹ کے پلوامہ بالاکوٹ بحران تک، دونوں ممالک کے درمیان جوہری آمیزش شدہ بحرانات زیادہ خطرناک، پیچیدہ اور مشکل سے سنبھلنے والے ہو گئے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ دونوں مخالفین کے پاس جوہری ہتھیار ہونے کے باوجود، خصوصاََ بھارت میں، طاقت کے استعمال کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے۔ اس کا ثبوت پلوامہ بالاکوٹ بحران شروع ہونے کے طریقِ کار سے ملتا ہے جب بھارت نے پاکستان کی سرزمین پر فضائی حملے کیے۔
جنوبی ایشیا میں واضح نیو کلئیرائزیشن کے بعد جو کچھ بھی ہوا، اس کی وضاحت جوہری انقلاب کے نظریے کے تحت نہیں کی جا سکتی۔ بلکہ ۱۹۹۸ کے بعد سے محدود جنگوں کے لئے کونفلیکٹ سپیکٹرم (تنازعات کی درجہ بندی) کے کم تر درجے میں جگہ بڑھانے کی کوششیں کی گئی ہیں۔ بھارت کے انتہائی مشتہر شدہ کولڈ اسٹارٹ ڈاکٹرائن (سی ایس ڈی) کو، جس کا مقصد نہ صرف پاکستانی شہروں پر فوری اور ڈیپ سٹرائیکس (گہرائی میں جا کر حملے) کرنا ہے، بلکہ اس کی مسلح افواج کو نقصان پہنچانا بھی ہے، جوہری حد سے نیچے متعدد کائنیٹیک آپشنز کی تلاش کرنے کی کوشش کے طور پر دیکھا گیا۔ اگر جوہری انقلاب کا نظریہ جنوبی ایشیا میں مؤثر ہوتا تو جوہری حد سے نیچے کے درجوں کا فائدہ نہ اٹھایا جاسکتا۔
جنوبی کوریا میں ہونے والے بحث و مباحثے سے اس پختہ یقین کا اظہار ہوتا ہے کہ شمالی کوریا کی جوہری صلاحیتوں کے ہم پلّہ ہونے کے لیے جوہری ہتھیاروں کے حصول سے جزیرہ نما کوریا میں بحرانوں کے پھیلنے کوروکا جا سکتا ہے۔ تاہم بھارت اور پاکستان کی جوہری تعلق داری کے تجربے کو دیکھتے ہوئے، جوہری ہتھیار دراصل دونوں ممالک کو زیادہ جارحانہ اور سر پر منڈلاتے ہوئے جوہری خطرے کے تحت طاقت کے استعمال کی طرف زیادہ راغب کر سکتے ہیں۔
شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ ان کے لیے جوہری ہتھیاروں سے لیس جنوبی کوریا، ان کی حکومت کا جنوبی کوریا کے خلاف طاقت کا استعمال مزید مہنگا کر دے گا۔ اُمیدِ واثق ہے کہ کِم جنوبی کوریا کی نیوکلیئرائزیشن سے پیدا ہونے والی مشترکہ کمزوریوں کے اُبھرنے کے امکانات سے مضطرب ہوں گے۔ اس بات کی اہمیت کواُجاگر کرنا چاہیئے کہ اس قسم کی صورتحال کِم کے ایسے اِقدام کا سبب بن سکتی ہے جس سے خطرات اور کشیدگی میں اضافے کے امکانات بڑھ سکتے ہیں۔ جنوبی کوریا بھی اپنے تئیں اس حد تک باہمت اور محفوظ تصورکر سکتا ہے کہ وہ شمالی کوریا کی روایتی برتری سے بآسانی معاملہ کر سکے۔ مزید برآں، شمالی کوریا ممکنہ طور پر جنوبی کوریا کے جوہری اسلحے کو اپنے اسلحے کو مزید بڑھانےاور جدّت دینے کے عذرکے طور پر استعمال کرے گا، جس سے جزیرہ نما میں جوہری ہتھیاروں کی دوڑ میں اضافہ ہوگا۔
جوہری ہتھیار: اتحادِ مکرّر کے لئے ایک رکاوٹ؟
اگر جنوبی کوریا جوہری راہ اپناتا ہے تو طاقت کے زور پر دونوں کوریاؤں کو دوبارہ متحد کرنا ایک انتہائی خطرناک منصوبہ بن جائے گا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مشترکہ کمزوریاں در آئیں گی اور سیئول اور پیونگ یانگ دونوں کی راہ میں مزاحم ہوں گی۔ اس محرک کو بہتر طور پر سمجھنے کے لیے بھارت اور پاکستان کی مثال دیکھنا ضروری ہے۔ اگرچہ جنوبی ایشیا کے سکیورٹی مکس میں جوہری ہتھیاروں کے اضافے سے پاک بھارت تعلقات مستحکم نہیں ہوئے ہیں لیکن اس نے دونوں حریفوں کے درمیان بڑے پیمانے پر روایتی جنگوں کو روک دیا ہے۔ مزید برآں، جوہری ہتھیاروں کی موجودگی نے بھارت اور پاکستان دونوں کے بحرانات کے روّیوں میں تبدیلیوں کو متاثر کیا ہے۔
سنہ ۱۹۹۸ کے بعد سے، جب بھارت اور پاکستان دونوں نے اپنی جوہری حیثیت کااعلان کیا، دونوں ممالک نے جس طرح بحرانات کا جوابی ردِّعمل پیش کیا، وہ جوہری ہتھیاروں کی ان کے تصرف میں آنے سے قبل کی نسبت کافی محدود رہا ہے۔ مثلاََ ۱۹۶۵ کی پاک بھارت جنگ میں پاکستان کے کائنیٹک آپریشنز کی بھارتی جوابی کارروائیوں کے مقابلے میں کارگل میں پاکستان کے خلاف بھارت کی جوابی کارروائی محدود اور کم شدت کی تھی۔ اسی طرح ۲۰۱۹ میں بالاکوٹ پر بھارت کے فضائی حملے پر پاکستان کا ردعمل تحمل کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت پر مبنی تھا۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ پاکستان کی جوابی کارروائیاں کسی فوجی یا سویلین اہداف کے خلاف نہیں کی گئیں۔ مزید برآں، جوہری قوّت بننے کے بعد سے نہ تو علاقوں کی ملکیت بدلی اور نہ ہی دونوں ممالک کے درمیان بڑے پیمانے پر کارروائیاں دیکھی گئیں۔
اس سب سے یہ بات پوری طرح واضح ہو جاتی ہے کہ سر پر منڈلاتے جوہری خطرے کے تحت طاقت کا استعمال صرف اسی صورت میں کیا جا سکتا ہے جب علاقائی حیثیت پر نظر ثانی کرنے کی بات ہو۔ درحقیقت نہ تو بھارت اور نہ ہی پاکستان جوہری تبادلے کے خطرے کے بغیر کشمیر کے تکلیف دہ مسئلے کو فوجی طور پر حل کر سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ۲۰۱۹ میں بھارت کی جانب سے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے پر دونوں ممالک کے درمیان فوجی محاذ آرائی نہیں ہوئی۔
کشمیر میں اس ڈی فیکٹو سٹاٹس کوو (حقیقی حیثیت) کا تسلسل جوہری انقلاب کے نظریے کا وہ واحد حصہ ہے جس کا اطلاق جنوبی ایشیا پر ہوتا ہے۔ چنانچہ آگے چل کر یہ برقرار رہے گا یا نہیں، یہ ایک ایسا اہم سوال ہے جس کا فی الحال کوئی واضح جواب نہیں ہے۔ اگرچہ بھارت کی حکومت نے پاکستان سے علاقے واپس لینے کا عہد کیا ہے، تاہم ایسا کرنا خود کشی کی بابت ہوسکتا ہے، کیونکہ پاکستان کے پاس اسلحے میں مضبوط جوہری مزاحم موجود ہے۔ جزیرہ نما میں بھی ایسا ہی ہونے کا امکان ہے۔ جیسا کہ پہلے ذکر کیا جا چکا ہے، اگر سیئول اپنے دانت دکھانے پر آ گیا، تو پیونگ یانگ کی آزادیٔ عمل پر قدغن لگ سکتی ہے، جس سے پیونگ یانگ کے لیے جزیرہ نما کو زبردستی دوبارہ متحد کرنا مشکل ہو جائے گا۔ یہی بات ایک مضبوط تر، پراعتماد اور خود مختار جوہری جنوبی کوریا پر بھی لاگو ہوگی۔ ڈی ملٹریائزڈ زون (ڈی ایم زیڈ) اور لائن آف کنٹرول (ایل او سی)، جو بھارت اور پاکستان کے درمیان متنازعہ کشمیر کے علاقے کو تقسیم کرتی ہے، دونوں ہی زبردست چیلنجز پیش کرتے ہیں۔ ڈی ایم زیڈ کے خلاف جانا اتنا ہی مشکل ہوسکتا ہے جتنا کہ ایل او سی کے خلاف جانا۔
ماحاصل
جیسا کہ بھارت اور پاکستان کے ساتھ جنوبی ایشیا کے تجربات سے ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں حریفوں کی جانب سے جوہری ہتھیاروں کی مِلک لینے نے بھی ان کی سلامتی کی کشمکش کو کم نہیں کیا ہے۔ کچھ معاملات میں، جوہری ہتھیاروں نے دونوں فریقین کو کم درجے کے تنازعات میں ملوث ہونے کی ترغیب دی ہے، جبکہ دوسروں میں، انہوں نے طاقت کے استعمال میں کسی حد تک تحمل پیدا کیا ہے۔ موازنہ کیا جائے تو جنوبی ایشیا کی نیوکلیئرائزیشن نے دونوں اطراف سے علاقوں پر غاصبانہ قبضے کو روک دیا ہے، جس کا ثبوت یہ ہے کہ ۱۹۹۸ کے بعد کے تمام بحران علاقے کی حدبندی میں کسی بھی ترمیم کے بغیر ختم ہوئے۔
لہذا، اگر جنوبی کوریا جوہری ہتھیار تیار کرنے کا انتخاب کرتا ہے، تو یہ ممکنہ طور پر شمالی کوریا کے ساتھ بڑے پیمانے پر تنازعے کے خلاف ایک مزاحم کے طور پر کام کرسکتا ہے۔ تاہم یہ تسلیم کرنا ضروری ہے کہ جنوبی کوریا کی طرف سے جوہری ہتھیاروں کے حصول سے کم جونگ ان کی طرف سے پیدا کردہ پیچیدگی کم نہیں ہوگی۔ یہ بنیادی طور پر طاقت کے نازک توازن کو برقرار رکھتے ہوئے ، کمزوریوں سے اپنے حق میں فائدہ اٹھانے کی ان کی مسلسل کوششوں کی وجہ سے ہے۔ اس کے علاوہ، جوہری ہتھیاروں کے حصول کا نتیجہ واشنگٹن کی توسیع شدہ ڈیٹرنس کا خاتمہ اور سیئول کو پیونگ یانگ کے ساتھ اپنے طور پر نمٹنے کے لئے چھوڑ دیا جانا ہو سکتا ہے۔ اگرچہ دوطرفہ بحران سے نمٹنے کے طریقہ کار کو مضبوط تر بنانا اہم ہے، لیکن دونوں کوریاؤں کو کسی بھی قسم کے جوہری بحران کو اپنے طور پر ختم کرنے کے لئے بہت کوششوں کی ضرورت ہوگی۔ ممکن ہے کہ دونوں فریق خطرات کو تسلیم کرنے میں بڑھ جائیں۔ مثلاََ وہ بھارت اور پاکستان کی طرح، برینک مین شپ کے مواقع کھوج سکتے ہیں، جو غلط اندازوں کا سبب بھی بن سکتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ تنازعہ کشمیر کی طرح کوریا کے اتحادِ مکرر کا مسئلہ سیئول اور پیونگ یانگ کے رہنماؤں کے سر پر سوار رہے گا۔ اور جیسا کہ جنوبی ایشیا کے معاملے میں ہے، حل طلب تنازعات بحرانات کو جنم دیتے رہیں گے۔ اس سے سیئول کو واشنگٹن کے ساتھ اپنے اتحاد کی قربانی بھی دینی پڑ سکتی ہے، جس سےجنوبی کوریا کی سلامتی پر بالکل مختلف اثرات مرتب ہوں گے۔ جنوبی کوریا کاجوہری قوّت بننے کا یہ امکان ایک اور اہم علاقائی کھلاڑی جاپان کے لئے بھی تشویش کا باعث بن سکتا ہے۔ جوہری عدم پھیلاؤ کے حوالے سے جاپان کے پختہ عزم کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ بات خاص طور پر درست ہے۔ نتیجتاً، اس پیش رفت میں خطے کے اندر تناؤ میں اضافہ کرنے کی صلاحیت ہے، اگرچہ ممکنہ طور پر یہ صرف قلیل مدت کے لئے ہوگا۔ لہٰذا یہ دلیل دی جا سکتی ہے کہ اس بات کی کوئی ضمانت نہیں ہے کہ جوہری تعلق داری (نیوکلیئر ڈائی ایڈ) سے جزیرہ نما کوریا میں سلامتی کی صورت حال بہتر ہوگی اور اس سے وہاں استحکام برقرار رکھنے میں مدد ملنے کا امکان نہیں ہے۔
***
Click here to read this article in English.
Image 1: Republic of Korea Air Force personnel prepare a F-15 K Slam Eagle via Flickr.
Image 2: Korean Missiles via Flickr