48503633737_328cf340ae_o-1095×616-1

بھارت، ۲۲ مئی تا ۲۴ مئی کے درمیان کشمیر میں جی۔۲۰ ممالک کے ایک اجلاس کی کشمیر میں میزبانی کرنے کو ہے، جو کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان ایک متنازعہ علاقہ ہے۔ بھارت کے جی۔۲۰ کی صدارت سنبھالنے کے بعد سے، یہ اس کی میزبانی میں منعقد ہونے والی متعدد سرگرمیوں میں سے ایک ہے۔ یہ سیشن اگرچہ تیسرے سیاحتی ورکنگ گروپ کے تحت منعقد ہو رہا ہے تاہم دیگر جغرافیائی سیاسیات سے جڑے عناصر بھی نئی دہلی کے اس متنازعہ فیصلے کا سبب ہو سکتے ہیں۔

اولاً اس متنازعہ خطے کو جی۔۲۰ اجلاس کا مقام قرار دے کر بھارت دنیا کے سامنے یہ تشہیر کر سکتا ہے کہ تاریخی اعتبار سے اس غیر مستحکم خطے میں سب کچھ ٹھیک ہے۔ کشمیر بھارت اور پاکستان کے درمیان ایک متنازعہ خطہ ہے جہاں دونوں ریاستیں ایک دوسرے کے ساتھ دست و گریباں ہیں اور گزشتہ ۷۰ برسوں کے دوران اس معاملے پر تین جنگیں لڑ چکی ہیں۔ اگست ۲۰۱۹ میں کشمیر کے مسئلے نے ایک نیا رخ اختیار کر لیا جب بھارت نے اپنے آئین کے آرٹیکل ۳۷۰ کو یکطرفہ طور پر ختم کر دیا اور بھارتی زیرِ انتظام کشمیر کو اپنے یونین علاقوں میں ضم کر لیا۔ اس کے بعد سے عالمی برادری کی جانب سے انسانی حقوق کی پامالی پر بھارت کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔

دوئم یہ کہ سری نگر میں اجلاس کے انتظام سے بھارت خطے پر اپنے اقتدار اعلیٰ کے دعووں کو تقویت دیتا ہے اور اس کی علیحدہ حیثیت کے خاتمے کے بعد اٹھائے جانے والے اقدامات کو قانونی جواز فراہم کرتا ہے۔ ۱۹ ریاستوں اور یورپی یونین پر مشتمل ایک معاشی بلاک کو یہاں لانا لامتناہی اہمیت کا حامل ہے۔ یہ گروپ عالمی جی ڈی پی کے ۸۰ فیصد، عالمی آبادی کے ۶۰ فیصد، عالمی تجارت کے ۷۵ فیصد اور دنیا کی چوٹی کے ۱۹ ریاستوں پر مشتمل ہے۔ کشمیر میں جی۔۲۰ کی میزبانی کرنا، دنیا کی بڑی معیشتوں کی جانب سے بھارت کو اس کے اقدامات کے لیے کسی درجے تک تائید فراہم کرتا ہے اور معاشی ترقی کے امکانات پیدا کرتا ہے جو کہ ۲۰۱۹ میں آرٹیکل ۳۷۰ کے خاتمے کے بھارتی فیصلے کے پس پشت ایک جواز رہا ہے۔

جی-۲۰ اجلاس سری نگر میں: جغرافیائی سیاسیات کا ایک پہلو

کشمیر میں اس ہفتے ہونے والے جی۔۲۰ سیشن سے قبل پوری وادی میں سڑکوں کو پینٹ کیا گیا ہے، بجلی کے کھمبوں کو ترنگے کے رنگوں سے آراستہ کیا گیا ہے اور زیادہ تر علاقوں سے خاردار تاروں کو ہٹا دیا گیا ہے۔ حکومت کی جانب سے پرسکون ماحول کی تشہیر اس چال کے پیچھے موجود وسیع تر حکمت عملی کو مزید نمایاں کرتی ہے۔ مودی حکومت کو کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر، جن میں بشمول ماورائے عدالت قتل، اغوا اور حراستوں کا لامتناہی سلسلہ، اظہار رائے اور جلسے جلوسوں پر پابندی نیز ڈیموگرافک تبدیلیوں سمیت متعدد خلاف ورزیاں شامل ہیں، شدید دباؤ کا سامنا ہے۔ بھارتی فورسز کی جانب سے انسانی حقوق کی شدید پامالی پر انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں اور ایجنسیوں کی جانب سے گہری تشویش ظاہر کی جا چکی ہے۔ کشمیر میں جی۔۲۰ اجلاس کی میزبانی کے ذریعے نئی دہلی دنیا کے سامنے یہ تشہیر کرنے کے لیے بیتاب ہو رہا ہے کہ کشمیر میں سب کچھ ٹھیک ہے اور آئینی آرٹیکل کی منسوخی کے بعد کی مدت میں اٹھائے گئے اقدامات کشمیر میں استحکام، امن اور ترقی کو تقویت دینے کے لیے کیے گئے تھے۔ دنیا کے سامنے یہ مظاہرہ کرنے سے کہ خطے میں امن اور استحکام بحال ہو چکا ہے اور یہ کہ کشمیر اب مزید غیر مستحکم خطہ نہیں رہا، نئی دہلی اپنے اقدامات کو قانونی حیثیت دینا چاہتا ہے۔ درحقیقت نئی دہلی یہ دکھانے کا ارادہ رکھتا ہے کہ اگست ۲۰۱۹ میں متعارف کروائے گئے اقدامات، کشمیر میں دیگر ریاستوں کے متوازی ترقی کے لیے ناگزیر تھے۔

سب معمول پر ہونے کا دکھاوا

بھارت اگرچہ جی۔۲۰ اجلاس کے ذریعے کشمیر میں سیاحت کے امکانات سے پردہ اٹھانے کا ارادہ رکھتا ہے لیکن کہانی اتنی سادہ نہیں۔ دنیا کے سامنے اس تشہیر کے ذریعے کہ کشمیر میں امن و سکون ہے، نئی دہلی خطے میں معاشی ترقی کے اپنے وعدوں کی تکمیل کے لیے ان ممالک کی سرمایہ کاریوں کے لیے بھی اس کی بطور پرکشش مقام نمائش کرتا ہے۔ ماہرین یہ دلیل دیتے ہیں کہ بھارت عالمی برادری کے سامنے اس بڑھتے ہوئے تاثر کا فائدہ اٹھانا چاہتا ہے کہ خطے میں حالات معمول پر آچکے ہیں، تاکہ وہ خطے پر اپنے دعووں کو مزید قانونی شکل دے سکے۔ گو کہ اقلیتوں کے امور پر اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی فرنینڈ ڈی ورنیس یہ الزام دیتے ہیں کہ بھارت ایک ایسے خطے میں حالات کے معمول پر لانے کا خواہاں ہے جہاں بنیادی جمہوری حقوق سے انکار کیا گیا ہے اور اپنے جابرانہ اقدامات پر عالمی تصدیق کی مہر ثبت ہونے کا دکھاوا کر رہا رہے، عالمی برادری کشمیر کے حوالے سے بھارتی موقف کی قانونی حیثیت پر بڑی حد تک خاموش رہی ہے۔ جی۔۲۰ ریاستیں اگرچہ غیر دانستہ طور پر ہی سہی لیکن طے شدہ میٹنگ میں شرکت کے ذریعے بھارتی اقدامات کی منظوری دے رہی ہیں۔

کشمیر پر پاکستان کا موقف

پاکستان نے متنازعہ خطے میں جی۔۲۰ اجلاس منعقد کرنے کے بھارتی اقدام کی مذمت کی ہے اور اسے ایک “غیر ذمہ دارانہ” قدم قرار دیا ہے۔ پاکستانی وزارت خارجہ نے انسانی حقوق کے عالمی کنونشنز اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کو نظر انداز کرتے ہوئے کشمیریوں کو ان کے حقوق سے محروم کرنے کے اقدامات مسلسل جاری رکھنے پر بھارت کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ پاکستان کے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری پاکستان کے زیرانتظام کشمیر میں ایک سرکاری دورے پر موجود ہیں جہاں انہوں نے آزاد کشمیر کی قانون ساز اسمبلی سے خطاب کیا۔ انہوں نے اگست ۲۰۱۹ سے بھارت کے یکطرفہ اقدامات پر روشنی ڈالی اور عالمی برداری سے مطالبہ کیا کہ وہ بھارت کی جانب سے انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں پر اپنی خاموشی توڑ ڈالے۔ تاہم عالمی برادری نے پاکستان کے خدشات پر کوئی توجہ نہیں دی ہے۔ چین، ترکی، مصر، سعودی عرب اور عمان کے علاوہ جی۔۲۰ ریاستوں نے اس اجلاس میں شرکت کا فیصلہ کیا ہے۔

بین الاقوامی کرداروں کے ردعمل کشمیر کے حوالے سے پاکستان کی خارجہ پالیسی میں تنزلی کی نئی حد قائم ہونے کا اشارہ دیتے ہیں۔ پاکستان کشمیر میں بھارت کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی مذمت کے لیے عالمی حمایت حاصل کرنے میں ناکام ہو چکا ہے۔ جی۔۲۰ ممالک کی جانب سے اس بیانیے کی قبولیت سے کہ اگست ۲۰۱۹ کے بعد سے کشمیر میں حالات معمول پر آچکے ہیں، بھارت کی معاشی اور جغرافیائی سیاسی اہمیت ان خدشات کے مقابلے میں زیادہ وزنی دکھائی دیتی ہے۔ کشمیر میں جی۔۲۰ اجلاس کا انعقاد یہ اشارہ دیتا ہے کہ عالمی برادری میں یہ تاثر پروان چڑھ رہا ہے کہ بھارت نے خطے کی ترقی اور خوشحالی کے لیے کشمیر کو ضم کیا ہے نہ کہ اپنے مذموم مقاصد کے لیے۔

اگرچہ اس امر سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ بین الاقوامی تعلقات میں قومی مفادات سب سے زیادہ اہمیت رکھتے ہیں، تاہم عالمی برداری اور خاص کر مغرب کو کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی پر خاموش نہیں رہنا چاہیئے۔ بھارت کے ساتھ شراکت داری اگرچہ معاشی اور جغرافیائی سیاسی مفادات فراہم کرتی ہے، تاہم بھارتی زیر انتظام کشمیر میں حالات معمول پر ہونے کا دکھاوا طویل عرصے سے موجود رنجشوں پر پردہ ڈالتے ہیں جو تنازعے کا خطرہ پیدا کرتا ہے۔ عالمی برداری کو چاہیئے کہ وہ اقدار سے نظریں چرانے کے بجائے، ان کے ساتھ مضبوطی کے ساتھ کھڑی ہو۔

***

This article was originally published on May 23, 2023.

Click here to read this article in English.

Image 1: National Demonstration for Kashmir via Flickr

Image 2: Policy in Kashmir via Wikimedia Commons

Posted in:  
Share this:  

Related articles

کواڈ کو انڈو پیسیفک میں جوہری خطروں سے نمٹنا ہو گا Hindi & Urdu

کواڈ کو انڈو پیسیفک میں جوہری خطروں سے نمٹنا ہو گا

کواڈ کے نام سے معروف چار فریقی سیکیورٹی ڈائیلاگ کے…

بھارت اور امریکہ کی دفاعی شراکت داری  کے لئے رکاوٹیں اور مواقع  Hindi & Urdu

بھارت اور امریکہ کی دفاعی شراکت داری  کے لئے رکاوٹیں اور مواقع 


سرد جنگ کے دوران جغرافیائی سیاسی نقطہ نظر میں اختلافات…

پلوامہ – بالاکوٹ پانچ برس بعد جائزہ Hindi & Urdu

پلوامہ – بالاکوٹ پانچ برس بعد جائزہ

لمحۂ موجود میں پاکستان، بھارت کے تزویراتی بیانیے سے تقریباً…