کئی دہائیوں کی شراکت داری (پارٹنر شپ) کے بعد سعودی عرب اور پاکستان نے باضابطہ طور پر ایک ‘تزویراتی باہمی دفاعی معاہدہ’ پر دستخط کیے ہیں۔ 17 ستمبر کو جاری کیے گئے مشترکہ بیان میں بشمول دیگر عوامل کے، ‘مشترک تزویراتی مفادات’ کو اس معاہدے کا محرک بیان کیا گیا، جس کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان ‘دفاعی تعاون کے پہلوؤں’ کو فروغ دینا اور ‘کسی بھی’ جارحیت کے خلاف ‘مشترکہ روک تھام کو مستحکم‘ کرنا ہے۔اہم بات یہ ہے کہ اس معاہدے میں اجتماعی دفاع کا تصور شامل ہے اور بیان کیا گیا ہے کہ ‘دونوں میں سے کسی ایک ملک کے خلاف کوئی بھی جارحیت دونوں (ممالک) کے خلاف جارحیت سمجھی جائے گی‘۔
ماضی میں (بھی) پاکستان کے باہمی دفاعی معاہدات رہے ہیں، جیسے کہ سرد جنگ کے دوران امریکہ کے ساتھ (معاہدات تھے)۔ تاہم 1970 کی دہائی میں ان کی تنسیخ کے بعد سے ملک کا کسی بھی (دوسرے) ملک کے ساتھ کوئی باضابطہ باہمی دفاعی معاہدہ نہیں رہا—حتیٰ کہ چین کے ساتھ بھی نہیں۔ یہ امر اس کے طویل المدتی حلیف کے ساتھ کیے گئے اس معاہدے کو واقعتاً تاریخی بنا دیتا ہے۔
تاہم مذکورہ بالا بیان کے علاوہ اس امر کی بابت بہت کم معلومات دستیاب ہیں کہ اس معاہدے میں حقیقتتاً کیا کچھ شامل ہے، جس کی بدولت ماہرین اور عوام دونوں کے درمیان قیاس آرائی اور تشویش کا در کھل گیا ہے۔یہ مضمون اس معاہدے کو ایک وسیع تر جغرافیائی، تاریخی اور نظریاتی سیاق و سباق کے تناظر میں رکھ کر یہ دلیل دینے کی سعی کرتاہے کہ گو کہ اجتماعی دفاع کی اصطلاح علامتی طور پر اہم ہے، اس کے عملی اثرات — بشمول پاکستان کی جانب سے ممکنہ جوہری عزم کے— اسلام آباد اور ریاض کی متعلقہ تزویراتی منصوبہ بندی اور ایسے معاہدات کی تاریخی کمزوری کی بدولت غالباً محدود رہیں گے۔
بھارتی عامِلیت (فیکٹر)
یہ امر واضح ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب کے مابین اپنے تحفظ کے لیے کسی بھی متصورہ اسرائیلی خطرے کو روکنے کے لیے تزویراتی مفاد مشترک ہے: قطر کے دارالحکومت پر حالیہ اسرائیلی حملوں نے ریاض کی تشویشات کو بڑھا دیا ہے اور اسے روک تھام کو مضبوط کرنے کے اقدامات اُٹھانے پر مجبور کر دیا ہے۔ پاکستان اپنے تئیں نئی دہلی اور یروشلم کے درمیان بڑھتی ہوئی دفاعی شراکت داری سے خوفزدہ ہے، جوکہ بھارت کی جانب سے مئی 2025 کے حالیہ چار روزہ تصادم میں اسرائیلی ساختہ ہتھیاروں کے توسیعی استعمال سے ظاہر ہے۔ تاہم حالیہ برسوں میں نئی دہلی کے ساتھ اس کے بڑھتے تعلقات کو دیکھتے ہوئے، ریاض کا یہ اعلان کہ وہ پاکستان کے تزویراتی مفادات میں ‘شریک’ ہے—جو دفاعی شعبے میں بنیادی طور پر بھارتی جارحیت کی روک تھام سے متعلق ہیں—پیچیدہ ہے۔اگر معاہدہ اپنے بیان کردہ مقصد یعنی اجتماعی دفاع کو پورا کرتا ہے— جس میں ایک سعودی عہدیدار کے بیان کے مطابق تمام ‘فوجی ذرائع’ کا استعمال شامل ہو– تو جنوبی ایشیا کا بحران ریاض کو بھی اس بکھیڑے میں اُلجھا سکتا ہے۔کئی بھارتی مبصرین معاہدےکی اجتماعی دفاع کی شق اور بھارت کی تزویراتی حساسیت سے ریاض کے واضح اعراض کے باعث پہلے ہی اس معاہدے سے پریشان ہیں۔
گو کہ اجتماعی دفاع کی اصطلاح علامتی طور پر اہم ہے، اس کے عملی اثرات — بشمول پاکستان کی جانب سے ممکنہ جوہری عزم کے— اسلام آباد اور ریاض کی متعلقہ تزویراتی منصوبہ بندی اور ایسے معاہدات کی تاریخی کمزوری کی بدولت غالباً محدود رہیں گے۔
تاہم اگر یہ معاہدہ پاکستان میں کسی کو یہ تصور کرنے پر قائل کرے کہ برصغیر کے کسی آئندہ بحران میں ایک مشترکہ سعودی-پاکستانی فورس بھارت کے خلاف کارروائی کرے گی، تو احتیاط لازم ہے۔ سعودی عرب کی جانب سے پاکستان کی حمایت میں بھارت کے خلاف فوج بھیجنے یا حملہ کرنے کے وعدے کے برعکس اس معاہدے کا اجتماعی دفاع کا حوالہ باہمی یکجہتی کی نشاندہی کرتامحض ایک سیاسی اشارہ ہو سکتا ہے یا حوصلہ شکنی کے مقاصد کے لیے غیر یقینی صورتحال پیدا کرنے کی کوشش ہو سکتا ہے۔اس موقع پر تاریخ سبق آموز ہے: امریکہ نے بھی جو اس وقت پاکستان کا معاہد دفاعی شراکت دار تھا، 1965 اور 1971 میں پاکستان کی بھارت کے ساتھ جنگوں کے دوران فوجی مداخلت نہیں کی کیونکہ ایسا کرنا اُس کی سرد جنگ کی تزویراتی منصوبہ بندی سے مطابقت نہیں رکھتا تھا؛ ماسکو کے ساتھ براہ راست تصادم سے بچنے (کے علاوہ) مداخلت کو روکنے والے دیگر عوامل میں سے—بھارت کے ساتھ ان سالوں میں قریبی شراکت داری (تھی)—جو پاکستان کے دفاع سے زیادہ ترجیح رکھتی تھی۔اسی طرح سعودی عرب بھارت کے ساتھ اپنے بڑھتے تعلقات کو اہمیت دیتا ہے اور پاکستان کے برعکس اسے وجودی خطرہ نہیں سمجھتا۔ اسی طرح پاکستان کے لیے بھی یہ ممکن نہیں کہ وہ سعودی عرب پر کسی حملے کی صورت میں اسرائیل پر نیو کلئیر آرمڈبیلسٹک میزائل داغے یا ایران پر حملہ کرے کیونکہ ایسا کرنے سے اس کی اپنی بقا خطرے میں پڑ سکتی ہے۔
تجرباتی ڈیٹا یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ خصوصاً دوسری جنگ عظیم کے بعد کے دور سے دفاعی معاہدوں کا نفاذ شاذ و نادر ہی ہوتا ہے۔ ایک تحقیقی مطالعہ کے مطابق 1945 کے بعد نبھائے گئے اتحادوں میں کمی ظاہر ہوئی اور ریاستوں کا جنگ میں اپنے اتحادیوں کا دفاع کرنے کی شرح 1816-1944 کے دوران 81 فیصد سے گر کر 1945-2016 میں صرف 7 فیصد رہ گئی۔ایک اور تحقیقی مطالعے میں یہ بات سامنے آئی کہ جارحانہ معاہدے—جیسا کہ دوسری جنگ عظیم کے دوران سوویت یونین، امریکہ اور برطانیہ کے درمیان اتحاد—کی پابندی کیے جانے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں( کُل معاملات کا73.81 فیصد) بمقابلہ دفاعی معاہدات کے (کُل معاملات کا 41.18 فیصد)—جیسا کہ سینٹو، سیاٹو اور 1954 کا دو طرفہ باہمی دفاعی امدادی معاہدات جیسے امریکہ اور پاکستان کے معاہدے (ہیں) ۔قابلِ ذکر امریہ ہے کہ اسی تحقیقی مطالعے میں یہ پایا گیا کہ 1945 کے بعد کے دور میں عمومی طور پر تمام اقسام کے اتحادوں میں سے محض قریباً 22 فیصد ہی پورے کیے گئے۔
گو کہ ماضی کو لازماً تمہید کا درجہ حاصل نہیں اور مستقبل کی کوئی غیر متوقع پیش رفت مبہم شقوں کو بھی مؤثر بنا سکتی ہے،تاہم رسمی معاہدات کی افادیت محدود ہے—اور کبھی بھی اتنی اثر پذیرنہیں ہو سکتی کہ کسی ریاست کو اپنے مفاد کے خلاف عمل کرنے پر مجبور کر سکے۔ سو،معاہدے کی شرائط عوامی سطح پر مبہم رہنے کے باعث بھارت کے پاس ہچکچاہٹ کا سبب کم ہی ہے۔ تاہم اس معاہدے کا نیٹو جیسا اندازِ بیان نئی دہلی کو یہ اشارہ دیتا ہے کہ ریاض (کسی) بحران کی صورت میں، اگر عسکری طور پر نہیں تو کم از کم سفارتی طور پر اور غالباً ماضی کے بحرانات مقابلے میں زیادہ واضح طور پر، اپنے معاہد اتحادی کے ساتھ کھڑا ہوگا۔ معاہدے پر دستخط کے بعد سعودی عہدیداروں کی جانب سے اس کے بر عکس کسی بھی بیان کی غیر موجودگی اس تصوّر کی حمایت ہے۔
ایٹمی ہتھیاروں کا ممکنہ مستقبل؟
ایک زیادہ اہم سوال جس کا ابھی تک کوئی سرکاری جواب نہیں ملا، یہ ہے کہ آیا اس معاہدے میں پاکستان کی کوئی جوہری یقین دہانی شامل ہے۔اُصولی طور پر یہ کافی غیر متوقع لگتا ہے؛ درحقیقت، سعودی ریاست کے تحت اخبار عرب نیوز پاکستان کے لیے ایک آپ-ایڈ (ادارتی صفحہ کے بالمقابل مضمون) میں اسلام آباد میں سعودی سفارتخانے کے میڈیا اتاشے نے اس معاہدے کے ‘اہم عناصر’ کی فہرست بنائی، جن میں سے کسی میں بھی پاکستان کے جوہری ہتھیاروں کے ذریعے روک تھام (ڈیٹیرنس) کا کوئی تصور شامل نہیں تھا۔
تاہم ریاض اور اسلام آباد جوہری ہتھیاروں کے معاہدے میں شمولیت کے معاملے پر خاموش رہنے کو ترجیح دے سکتے ہیں یا اسرائیل کو اُلجھانے کے لیے دانستہ مبہم بیان جاری کر سکتے ہیں۔کہ پاکستان اچھی طرح جانتا ہے کہ جوہری استعمال میں تزویراتی ابہام بھی روک تھام (ڈیٹیرنس) کو مضبوط کرسکتاہے—جو کہ معاہدے کے کلیدی مقاصد میں سے ایک ہے۔حالیہ دنوں میں پاکستان کے وزیر دفاع نے جوہری سوال پر ملے جُلے اشارے دیے ہیں، پہلے یہ دعویٰ کیا کہ پاکستان کے جوہری ہتھیار سعودی عرب کے لیے دستیاب ہیں اور بعد میں اس بیان کو واپس لے لیا۔
پاکستان کا جوہری ہتھیاروں کا پروگرام، بڑی حد تک اس کی حفاظت سے متعلقہ خدشات کے باعث دنیا میں سب سے زیادہ دقیق جانچ کے تحت پروگراموں میں سے ایک ہے۔ اہم امر یہ ہے کہ اسلام آباد نے دہائیوں سے اس بات پر زور دیا ہے کہ اس کا اسلحہ (آرسینل) محض بھارت کو باز رکھنے کے لیے موجود ہے۔لہٰذا سعودی عرب کو ایٹمی چھتری کی فراہمی پاکستان کے ایٹمی موقف میں ایک بنیادی تبدیلی کی نشاندہی کرے گی—ایک ایسا اقدام جو اس ملک کے لیے انتہائی بعید القیاس ہے جو فوجی اور دیگر شعبہ جات میں بیرونی امداد پر انحصار کرتا ہے۔ بائیڈن انتظامیہ نے 2021 سے 2025 کے درمیان مبینہ طور پر بیلسٹک میزائل کی تیاری کے سلسلے میں پاکستانی اداروں پر سات مواقع پر پابندیاں عائد کیں؛ مشرق وسطیٰ اعظمیٰ میں بظاہر اس کے بڑھتے ہوئے کردار میں ایٹمی جہت کی طرف جانے والی کسی بھی کارروائی کے نتیجے میں مزید سخت نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔
حقیقت پسندانہ طور پر پاکستان کے پاس دوسرے (ممالک) کے لیے مجموعی طور پر سیکیورٹی فراہم کرنے کی صلاحیت نہیں ہے—یہ ایک نیا کردار ہے جو معاہدے پر دستخط کے بعد ملک کے ساتھ بہت سے پاکستانی تجزیہ کاروں نے منسوب کیا ہے۔ اس کے اپنے گھر کو بس اب ہی اقتصادی ترتیب کی صورت حاصل ہو رہی ہے اور یہ اپنی مشرقی اور مغربی سرحدوں پر سکیورٹی کی مشکلات میں الجھا ہوا ہے۔
پیغام رسانی میں ابہام اور یہ حقیقت کہ یہ معاہدہ ایک اجتماعی دفاعی ذمہ داری شامل کرتا ہے، یقینی طور پر مغربی دارالحکومتوں میں ناخوشی پیدا کرے گا، جہاں بہت سے لوگ طویل عرصے سے پاکستان کے کردار کو سعودی مملکت کے لیے عملی طور پر ایک جوہری ڈھال کے طور پر دیکھتے رہے ہیں۔ آنے والے دنوں میں شاید پاکستان تفصیلات میں چھپی منفیت کو سامنے لانے پر مجبور ہو جائے۔

سعودی محرکات: واشنگٹن سے بڑھ کراشارے دینا
یہ معاہدہ سعودی عرب کو چین کے قریب تر لا سکتا ہے، جو پاکستان کا مرکزی دفاعی مددگار ہے۔ ریاض امریکہ کے ساتھ طویل عرصے سے ایک رسمی دفاعی معاہدہ چاہتا رہا ہے، لیکن بائیڈن انتظامیہ کے ساتھ طویل مذاکرات کے دوران مایوس ولی عہد محمد بن سلمان نے 2023 کے ایک انٹرویو میں خبردار کیا کہ ریاض اپنے ‘اسلحے کو امریکہ سے کسی اور جگہ منتقل‘ کر سکتا ہے- جسے عمومی طور پر چین کے معنی میں سمجھا گیا۔
سعودی عرب پہلے ہی بیجنگ کے ساتھ مضبوط تعلقات رکھتا ہے—یہ ریاض کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے— تاہم چین کے سب سے قریبی حلیف کا معاہد دفاعی شراکت دار بننا ایک مضبوط اشارہ ہے کہ سعودی عرب غیر رسمی امریکی سلامتی کی ضمانتوں پر اپنی بقا کو داؤ پر لگانے میں بے چینی محسوس کر رہا ہے۔ کیونکہ امریکی سینٹرل کمانڈ کا فارورڈ ہیڈ کوارٹرہونے کے باوجود قطر کادارالحکومت اسرائیلی بمباری سے نہیں بچ سکا—جس کے بارے میں مبینہ طور پر وائٹ ہاؤس کو پہلے سے ہی علم تھا۔
اسی لیے یہ امر بعید از قیاس نہیں کہ گلوبل آرڈر کے ارتقا کے ساتھ ساتھ چین ایشیا کا اہم ترین سلامتی کا ضامن بن کر ابھر سکتا ہے۔ اس امکان کے ساتھ ساتھ سعودی عرب کی اسرائیل کے عزائم سے متعلق تشویش اور واشنگٹن کی اسے محفوظ رکھنے کی صلاحیت پر اس کے کم ہوتے ہوئے اعتماد کے ساتھ، ریاض کو بیجنگ کے ساتھ تعلقات کو مزید گہرا کرنے پر مجبور کر سکتا ہے، جس کی عسکری صلاحیتیں روز بروز بہتر ہوتی جا رہی ہیں۔
سعودی عرب پہلے ہی بیجنگ کے ساتھ مضبوط تعلقات رکھتا ہے—یہ ریاض کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے—تاہم چین کے سب سے قریبی حلیف کا معاہد دفاعی شراکت دار بننا ایک مضبوط اشارہ ہے کہ سعودی عرب غیر رسمی امریکی سلامتی کی ضمانتوں پر اپنی بقا کو داؤ پر لگانے میں بے چینی محسوس کر رہا ہے۔
ایسی تبدیلی مملکت کے وژن 2030 کے لیے بھی نہایت موزوں ہے، جو مقامی دفاعی صنعتوں کو فروغ دینے اور نئی دفاعی شراکت داریاں قائم کرنے کا مطالبہ کرتی ہے۔ پاکستان کے ساتھ شراکت داری اس عمل کو تیز کر سکتی ہے اور ممکنہ چین-پاکستان-سعودی سہ طرفہ تعاون کے اشارے پہلے ہی نظر آ رہے ہیں۔
حاصلِ کلام
گو کہ ایک دوسرے کی جنگوں میں لازماً شامل ہونے کا عہد نہیں ہے تاہم سعودی-پاکستان باہمی دفاعی معاہدہ دونوں ریاستوں کے تاثر اور علاقے میں ان کے کردار کے حوالے سے تصورکو نئے سرے سے تشکیل دیتا ہے۔ایک ایسے وقت میں جب اسلام آباد اقتصادی امداد اور علاقائی مطابقت (ریلیونس) تلاش کر رہا ہے،یہ (معاہدہ)خلیج میں پاکستان کے مجموعی تاثر (پروفائل) کو بہتر بناتا ہے جبکہ سعودی عرب کو امریکی تحفظ کی غیر یقینی صورتحال کے خلاف انتظام کرنےاور چین کے ساتھ قریبی تعلقات بنانے کی اجازت دیتا ہے۔اگر قطر یا متحدہ عرب امارات (اس میں) شامل ہونے کا فیصلہ کرلیں تو یہ انتظام ایک وسیع تر خلیج-پاکستان حفاظتی نظام العمل (فریم ورک) میں تبدیل ہو سکتا ہے، جو پاکستان کے سفارتی اثر و رسوخ کو بڑھا دے گا خواہ اس کی عسکری ذمہ داریاں غیر واضح ہی رہیں۔واشنگٹن کے لیے یہ معاہدہ اس بات کی یاد دہانی ہے کہ اپنے اتحادیوں کی حفاظت میں غفلت انہیں متبادل سرپرستوں کی تلاش پر مجبور کر دیتی ہے—عظیم طاقتوں کی مسابقت کے دور میں یہ ایک ممکنہ تشویشناک امکان ہے جبکہ چین ہر اُس خلا کو پُر کرنے کے لیے بے تاب ہے جو امریکہ بین الاقوامی سطح پر چھوڑ دیتا ہے۔
الغرض جس (معاہدے پر) ریاض اور اسلام آباد نے دستخط کیے ہیں اسے بہترین طور پر اس طرح سمجھا جا سکتا ہے کہ یہ (دونوں فریقین) کے مشترکہ خدشات کے اعتراف اور ایک دوسرے کی حمایت کرنے کی خواہش کی عکاسی کرتا ہے جبکہ یہ روک تھام (ڈیٹیرنس) کو مضبوط کرنے کے لیے علاقائی کرداروں کی تزویراتی منصوبہ بندی میں ابہام پیدا کرتاہے۔ اس کی اصل اہمیت اس امر میں نہیں کہ آیا سعودی پائلٹ کبھی پاکستان کے لیے جنگی مشن پر اڑان بھریں گے یا بالعکس، بلکہ اس میں ہے کہ یہ علاقائی طاقتوں کی پریشانیاں کس طورظاہر کرتا ہےاور امریکہ جیسے روایتی سلامتی کے ضامن (سیکیورٹی گارنٹرز) پراعتماد میں کمی کے مابین ان کو حل کرنے کی ان کی کوششوں کی کس طورعکاسی کرتاہے۔اس معاہدے کے نتائج بالآخر اس بات پر انحصار کریں گے کہ نئی دہلی، یروشلم، واشنگٹن اور بیجنگ کس طرح کا ردعمل دینےکا انتخاب کرتے ہیں۔
Views expressed are the author’s own and do not necessarily reflect the positions of South Asian Voices, the Stimson Center, or our supporters.
This article is a translation. Click here to read the article in English.
***
Image 1: KSA MoFA via X
Image 2: Shehbaz Sharif via X