afghan refugee camp

۱۱ ستمبر حملوں کے بعد جب امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا تو ہزاروں افغان اپنا ملک چھوڑ کر پاکستانی علاقے میں آگئے۔ ان کی آمد پہلے سے موجود ۲۰ لاکھ افغانیوں میں اضافے کا باعث بنی جو ۱۹۷۹ میں سوویت یونین کے حملے اورپھر۱۹۸۹ میں سوویت انخلاء کے بعد خانہ جنگی سے متاثر ہوکر پاکستان چلے آئے تھے۔ ۲۰۱۶ تک پاکستان مہاجرین کی میزبانی کرنے والا دنیا کا تیسرا بڑا ملک بن گیا۔

مہاجرین کے انتظام کے ساتھ ساتھ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کی بہت بھاری قیمت چکائی ہے۔ ۲۰۱۶ میں سٹیٹ بینک آف پاکستان نے تخمینہ لگایا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان نے تقریباً ۱۱۸ بلین ڈالر کا نقصان اٹھایا ہے۔ مزید برآں ۲۰۰۳ سے ۲۰۱۷ کے دوران ۲۱۹۹۸ شہری اورسکیورٹی فورسز کے ۶۸۶۳ جوان جاں بحق ہوئے۔ اسی عرصہ کے دوران تقریباً ۳۳۸۳۳ دہشت گرد یا مزاحمت کار بھی مارے گئے۔ افغان مہاجرین کے میزبانی کرنے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کلیدی کردار ادا کرنے کے علاوہ پاکستان پر افغانستان سے دہشت گردی کے براہ راست اثرات بھی مرتب ہوئے ہیں۔

اسی بدولت گزشتہ برس سے پاکستان نے داخلی سکیورٹی کے بڑھتے ہوئے خدشات کی وجہ سے افغان مہاجرین کی رضاکارانہ وطن واپسی کے عمل پر ایک بار پھر سے زور ڈالا ہے۔ یہ خدشات داراصل اس تاثر سے سامنے آئے کہ مہاجرین کے کیمپ دہشت گردوں اور منشیات  کےسمگلروں کے لئے محفوظ پناہ گاہیں ثابت ہو رہے ہیں اور اس بات میں وزن سابق وزیراعظم نواز شریف کے مشیر سرتاج عزیز نے گزشتہ برس ڈالا۔ ۲۰۱۶ میں پاکستانی وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے کہا “دہشت گرد پاکستان میں مہاجرین کے بھیس میں داخل ہو رہے تھے”۔ جبکہ حال ہی میں خواجہ آصف نے بیان دیا ہے کہ افغان مہاجرین کو وطن واپس بھیج دینا چاہیئے۔

یہ  پسِ منطر بتاتا ہے کہ پاکستان میں خدشات کی اصل وجہ غیر رجسٹرڈ مہاجرین ہیں اور اسی لئے اسلام آباد (پاکستان میں  بےگھر ہوئے مہاجرین کےلئے) کابل اور عالمی برادری سے  انکی وطن واپسی یقینی بنانے پر زور دیتا ہے۔ پاکستان سے افغان مصالحتی عمل اور انسدادِ دہشت گردی کی مدد مانگتے ہوئے افغانستان اور عالمی برادری کے مذاکرات کاروں کو پاکستان کے نیشنل سکیورٹی خدشات کو بھی مدِ نظر رکھنا چاہیئے۔

وطن واپسی کے مسائل؛

انسانی حقوق کی تنظیموں سے تعلق رکھنے والے بین الاقوامی نقادوں  نے پاکستان کی طرف سے افغان مہاجرین کی وطن واپسی کو “زبردستی واپسی کا نام دیا ہے۔ تاہم پچھلے کچھ عرصہ کے ثبوت یہ بتاتے ہیں کہ چند افغان مہاجرین   پاکستان میں ہشت گردی کی وارداتوں میں سہولت کار بنے اور مہاجر کیمپوں نے انکی محفوظ پناہ گاہوں کے طور پر کام کیا۔ ۲۰۱۴ میں پشاور میں آرمی پبلک سکول پر ہونے والے حملے میں (۷ دہشت گردوں میں سے) ۲ افغانیوں کے  نام بھی سامنے آئے جنہوں نے بدنامِ زمانہ حملہ کیا اور ۱۴۱ لوگوں کو شہید کر دیا تھا۔ ۲۰۱۷ کے اوائل میں لاہور اور پشاور میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات کے بعد وزیرِ داخلہ چوہدری نثار نے کہا کہ “افغان مہاجرین کو دہشت گرد حملوں میں سہولت کار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔“

اگرچہ چند دہشت گردوں کے عمل کو تمام افغان مہاجرین سے منسوب نہیں کیا جا سکتا تاہم اس طرح کے واقعات نے حکومت کو بنیاد فراہم کی ہے کہ وہ سرحدی سکیورٹی کو مظبوط کرے، مہاجرین کو دستاویزات جاری کرنے سے پہلے سخت جانچ پڑتال کرے، سِم کارڈ کا باقاعدہ اندراج ہو اور  تارکین وطن کے قوانین پر عمل درآمد  کر سکے۔ بلاشبہ پچھلے تین سالوں میں پاکستانی حکومت نے غیر قانونی موبائل سِموں اور شناختی کارڈز کے خلاف موثر اقدامات کئے ہیں۔

جہاں تک وطن واپسی کا تعلق ہے تو یہ سوال آڑے آتا ہے کہ حکومت پاکستان اس عمل میں کس حد تک آگے جا سکتی ہے یا پھر یہ عمل کس طرح مکمل کیا جا سکتا ہے۔ اگست ۲۰۱۷ تک پاکستان میں رجسٹرڈ افغان مہاجرین کی تعداد  تقریباًء ۱.۴ ملین  ہے۔ اسکے علاوہ تقریباً ۶ لاکھ افغان بغیر دستاویزات کے پاکستان میں مقام پذیر ہیں۔

پاکستان  کی مہاجرین کو وطن  واپس بھیجنے کی کوششوں کے عین درمیان میں چند ناخوشگوار واقعات کا بھی ذکر ہوا ہے۔ مزیدبرآں کچھ ایسے مہاجرین بھی ہیں جنہوں نے اپنی ساری زندگی ہی پاکستان میں بسر کی ہے۔ تاہم قومی سکیورٹی سے متعلقہ خدشات نے  پاکستانی حکام کو مشکل آپشن کے انتخاب  کی طرف دھکیلا ہے۔ چونکہ جب تحریکِ طالبان پاکستان اور تحریکِ نفاذِ شریعتِ محمدی جیسی دہشت گرد تنظیمیں مہاجرین  آباد کاروں  کے کیمپوں میں پنپنے لگیں تو ان کے تدارک کےلئے مناسب اقدامات ناگزیر ہیں۔

جامع حکمتِ عملی کا خاکہ؛

افغان مہاجرین سے متعلق ایک  ایسی جامع  پالیسی بنانے کی ضرورت ہے جو نہ صرف بنیادی انسانی حقوق بلکہ پاکستان کی قومی سلامتی کا بھی تحفظ کرے۔اس جامع پالیسی میں ایک ایسی  مہم چلانی چاہیئے جس میں  غیر رجسٹرڈ مہاجرین کی رجسٹریشن، قانون ماننے والے مہاجرین کےلئے نرم رویہ اور سرحدی انتظام   کو درست کرنے  جیسے اقدامات شامل ہوں ۔ اسی طرح پاکستانی حکومت کو  وطن واپسی پر قائل مہاجرین کےلئے مالی امداد جیسے اقدامات بھی کرنے ہوں گے۔

تاہم اس طرح کی نئی حکمتِ عملی اپنانے کےلئے عالمی برادری اور افغان حکومت کی حمائت درکار ہو گی۔ مہاجرین کی وطن واپسی کچھ اس انداز میں کی جانی چاہیئے کہ جس سے پاکستانی حکومت کے افغانستان کے ساتھ تعلقات خراب نہ ہوں۔ پاکستان کو تمام افغان مہاجرین کو دہشت گرد یا جرائم پیشہ افراد بھی نہیں سمجھنا چاہیئے۔ پاکستان نے اپنی مشکلات کا شکار معیشت اور سکیورٹی مسائل کے باوجودان مہاجرین کی ایک عشرے سے بھی زائد عرصہ تک میزبانی کی ہے  لیکن قومی سلامتی کے خدشات اس بات کے متقاضی ہیں کی اس مہاجر آبادی کی باعزت وطن واپسی یقینی بنائے جائے۔

***

Click here to read this article in English.

Image 1: Oxfam International via Flickr.

Image 2: Metin Aktas via Getty Images.

Share this:  

Related articles