Pakistan elections

۳۱ اکتوبر کو انسدادِ دہشت گردی سے متعلق  ادارے نیکٹا نے اعلان کیا کہ انتہا پسندی کو قابو کرنے کےلئے بنایا گیا  قومی بیانیہ منظوری کےلئے حکومت کو جمع کرا دیا گیا ہے۔نیکٹا نے یہ  قومی بیانیہ پُر تشدد نظریات کی روک تھام اور انتہا پسند و بنیاد پرستوں کی طرف سے اپنے نظریات کی ترویج کےلئے لوگوں کو بھرتی کرنے سے روکنے کےلئے بنایا ہے۔ جب سے پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں متحرک ہوا ہے، ملک نے دہشت گردوں کی طرف سے خطرات دیکھے ہیں جن کی وجہ سے بے پناہ جانی و مالی نقصان ہوا ہے۔ گزشتہ کچھ سالوں میں دہشت گردوں کے خلاف ملک بھر میں کامیاب آپریشن کئے گئے ہیں ۔ نیکٹا ایکٹ (۲۰۱۳) میں ادارے کو اختیار تفویض کیا گیا کہ وہ ملک میں ایک  قومی بیانیہ کی تشکیل کرے تاکہ انتہا پسندی کا خاتمہ ممکن ہو سکے۔اس عمل کےلئے نیکٹا نے ایک ورکنگ گروپ بنایا جو معیشت دانوں،  محققین، سیاست دانوں، سِول سوسائٹی اور مذہبی دانشوروں  پر مشتمل تھا اور جنکا کام ایک ایسا بیانیہ بنانا تھا جو انتہا پسندی کے خلاف مزاحمت کر سکے۔

قومی بیانیے کی  فوری ضرورت کے امر کو آسان نہیں لیا جا سکتا۔ تاہم نیکٹا کی طرف سے تیار کردہ  ڈرافٹ میں جو کچھ بھی لکھا گیا ہے اسے ابھی تک  عام نہیں کیا گیا ہے۔ بجائے اس کے کہ اس  دستاویز کو نیکٹا میں ہی  جامد کر دیا جائے، ادارے کو اس دستاویز کو ایک  متحرک دستاویز کے طور پر استعمال کرنا چاہیئے جس میں سماجی و سیاسی صورتحال میں تبدیلی کے ساتھ ساتھ  جدت و تبدیل لائی جا سکے۔ یہ اہم ہے کہ اس دستاویز  میں قومی بیانیے میں  پاکستانی معاشرتی اقدار کے ساتھ ساتھ شخصی آذادی اورغیر ریاستی عناصر کی جانب سے شدت پسندی کو ترک  کرنے  کو اجاگر کیا گیا ہے۔

سماجی اقدار انسدادِ دہشت گردی کا آلہِ کار؛

اقدار سے مراد ایک معاشرے کے مجموعی جذبات، کردار، رویے اور خواہشات ہیں۔ ہم نے امریکی معاشرے کو دیکھا ہے جس میں  نپی تُلی اقدار کے باعث  لوگ  بنیاد پرستی  اور انتہا پسندی سے دور ہی رہے۔ پیٹر برجن نے اپنی آخری کتاب ”یونائیٹڈ سٹیٹس آف جہاد“ میں  امریکہ میں  دہشت گردی کے خطرے اور داخلی خطرات کا جائزہ لیا ۔ انہوں نے یہ اخذ کیا کہ ۲۰۰۱ سے ابتک ۳۰۰ افراد جن پرجہادی دہشت گردی کی فردِ جرم عائد کی گئی  ان میں سے تقریباً ۸۰ فیصد امریکی تھے۔ اگرچہ امریکہ کےلئے یہ ایک بڑی تعداد ہے تاہم دوسری مغربی جمہوریتوں کے مقابلے میں یہ ایک قلیل تعداد ہے۔ مثال کے طور پر فرانس میں  ۱۰۰۰ سے زائد افراد نے داعش یا اس جیسے دوسرے گروہوں کے لئے یا تو لڑا ہے، لڑ رہے ہیں یا پھر لڑنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ برجن کا کہنا ہے کہ امریکی نظریے نے امریکی شہریوں اور بنیاد پرستی کے بیچ نظریاتی  خلیج کا کام کیا ہے۔ بلاشبہ شام اور عراق میں لڑنے والے امریکیوں کی تعداد کم ہے اور “اسکی وجہ  نہ صرف جغرافیہ بلکہ نظریہ بھی ہے”۔

اگر امریکیوں کےلئے امریکی اقدار ہی وہ وجہ ہے جس کے بدولت وہ دہشت گردی کے طرف مائل نہیں ہوئے تو اس امر میں  پاکستان کےلئے بھی سبق پنہاں ہے۔ امریکہ کی طرح پاکستان میں بھی انتہا پسندوں کی اکثر تعداد پڑھے لکھے اور مراعات یافتہ طبقے سے آتی ہے۔ نتیجتاً پاکستان میں دہشت گردی کے خطرے کو کم کرنے کےلئے غربت میں کمی سے ذیادہ  تعلیمی معیار کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ اس خطرے سے نمٹنے کےلئے سکیورٹی فورسز کے حالیہ اقدامات، جن کے باعث اگرچہ دہشت گردی کے واقعات میں خاطر خواہ کمی آئی ہے، کو مزید وسعت دینے کی ضرورت ہے۔ قومی بیانیہ محض شمال مغربی جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کی آذادیوں اور برابر حقوق  دینے کا نام نہیں ہونا چاہیئے بلکہ ایسے اقدامات کو معاشرے کے تمام عناصر کا احاطہ کرنا چاہیئے۔ اس لئے قومی بیانیے میں ایک  نقطہ ہونا چاہیئے جس میں تمام پاکستانیوں کو جمہوری عمل اور  روایات کی پاسداری کرتے ہوئے خوشیوں کے حصول کی اجازت ہو۔اسی طرح اس بیانیہ میں انفرادی و غیر ریاستی عناصر کی طرف سے تشدد کرنے اور اس کو دوبارہ شروع کرنے  کی پُر زور ممانعت  ہونی چاہیئے۔ اور اسی بارے میں چیف آف آرمی سٹاف قمر جاوید باجوہ نے پاکستان کے ۵۲ ویں یومِ دفاع پر درست طور پر اعادہ کیا کہ تشدد پر  کنٹرول مکمل طور پر ریاست کا اختیار ہے۔

قومی بیانیے کو مرکزی دھارے میں لانا؛

قومی بیانیے کے خدوخال کو اکثر دُور اندیش رہنما  بنا پاتے ہیں (جیسا کہ انقلابِ فرانس کے دوران آذادی، برابری اور  اخوت  کے بیانیے کا جنم ہوا تھا) تاہم اس کی تشکیل میں تاریخی حقائق اور معاشرے کی مجموعی خواہشات کا بھی عمل دخل ہو تا ہے۔ پاکستان کے غیر معمولی حالات کو دیکھتے ہوئے نیکٹا کو مختلف سٹیک ہولڈرز کے ساتھ تعاون کو جاری رکھنا چاہیئے تاکہ قومی بیانیہ قائم رکھا جا سکے۔ اس حکمتِ عملی سے بات چیت اور آذادانہ اظہارِ خیال  کا عمل شروع ہو گا  اور معاشرے میں برداشت کا عنصر بھی ترقی کرے گا۔ مزید برآں اس عمل سے نوجوانوں میں شدت پسند نظریے کو اچھی طرح سمجھنے اور جھٹلانے میں مدد مل سکے گی۔

تاہم اگر نیکٹا خالصتاً اس قومی بیانیے کو ترویج دے کر تبدیلی لانا چاہتا ہے تو اسے چاہیئے کہ تمام سیاسی جماعتوں، سول سوسائٹی اور میڈیا کو مجبور کرے کہ وہ اس بیانیے میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں۔ اگرچہ نیکٹا  کے پہلے ڈرافٹ کی تشکیل میں سیاسی نمائندگی موجود تھی تاہم یہ دیکھنا ابھی باقی ہے کہ نیکٹا سوسائٹی (معاشرے) کو اس بیانیے میں کس حد تک شامل کرتا ہے۔ اس مقصد کےلئےورکنگ گروپ کو یہ سمجھنا چاہیئے کہ سیاسی جماعتیں، تعلیمی ادارے، میڈیا اور سول سوسائٹی لوگوں کی نسبت اداروں (مثال کے طور پر نیکٹا) سے ذیادہ رابطے میں ہوتے ہیں۔ نتیجتاً معاشرے کے ان عناصر کو قومی بیانیے کو لوگوں میں  پھیلانا ہو گا

خلاصہ؛

معاشرے سے بنیاد پرستی کو جڑ سے ختم کرنا جان جوکھوں والا کام ہے تاہم قومی بیانیہ کا تشکیل پانا دراصل انتہا پسندی کے خاتمے کی طرف ایک مثبت قدم ہے۔ یہ کام صرف نیکٹا کے متحرک اور دیرپا کوششوں سے ہی ممکن ہے چونکہ اس عمل سے پاکستانی معاشرے میں تشدد کے اوپر ریاست کا مکمل اختیار ہو سکے گا۔ پاکستانی معاشرے میں اگر ان جمہوری اصولوں کو اپنایا جا تا ہے اور پھر متعلقہ سٹیک ہولڈرز کی طرف سے پھیلایا جاتا ہے، تب جا کر ہی نیکٹا کی کوششوں کا مثبت نتیجہ نکل سکتا ہے۔

***

.Click here to read this article in English

Image 1: bm1632 via Flickr (cropped)

Image 2: Via E Pakistan Blogs

Share this:  

Related articles