27440695425_d072a9ac6a_o-1095×616-1
The Agni – III Missile passes through the Rajpath during the 59th Republic Day Parade – 2008, in New Delhi on January 26, 2008.

بھارت اور پاکستان کی جانب سے جدید ٹیکنالوجیز کی تکڑی کے اپنے ہتھیاروں میں انضمام نے جنوبی ایشیا کے تزویراتی منظرنامے کو تبدیل کر ڈالا ہے۔ متعدد آزادانہ نشانہ بنانے کے قابل ری اینٹری وہیکلز (ایم آئی آر وی) ٹیکنالوجی سے لیس اگنی–۵ میزائل جس کا حال ہی میں تجربہ کیا گیا، مصنوعی ذہانت (اے آئی) کے ذریعے خلا اور زمین کی مزید موثر نگرانی کے نظام اور مسلسل بڑھتی ہوئی باریکیوں سے لیس میزائل ڈیفینس کی صلاحیتیں، یہ تمام وہ عناصر ہیں جو برصغیر کے لیے نمایاں مضمرات رکھتے ہیں۔


ایم آئی آر وی ٹیکنالوجی کسی ریاست کو اس قابل کرتی ہے کہ وہ کثیر مقدار میں گولہ بارود کے حامل ایک بلیسٹک میزائل پے لوڈ کو استعمال کرتے ہوئے متعدد مقامات کو علیحدہ علیحدہ نشانہ بنا سکے، جو حملے کی موثریت میں اضافہ کرتے ہیں اور دشمن کے لیے میزائل کے دفاع کو پیچیدہ بنا دیتے ہیں۔ دریں اثناء اے آئی کی طاقت سے لیس نگرانی کے نظام دشمنوں کے بارے میں خلا اور زمین پر، دونوں جگہ ڈیٹا اکٹھا کرنے اور ان پر بروقت نگاہ رکھنے کی ایسی بے مثال قابلیت فراہم کرتے ہیں کہ جو حالات کے بارے میں کسی بھی ریاست کی آگاہی اور حفاظتی اقدام اٹھانے کی قابلیت میں نمایاں بہتری لے آتی ہے۔ ایک ایسا خطہ جو پہلے ہی عدم استحکام سے مامور ہے وہاں پر بھارت کی جانب سے ان ٹیکنالوجیز کے جدید میزائل ڈیفنس سسٹمز میں انضمام ، بھارت کے عسکری قد کاٹھ کو سہارا فراہم کرتے ہوئے جوہری تھریش ہولڈ میں کمی، بحران کے نظم کے رجحانات کو غیر متوازن اور ہتھیاروں کی دوڑ کو تحریک دیتے ہوئے، خطے میں ایک تزویراتی عدم توازن کا باعث بن سکتا ہے۔ تاہم، اعتماد سازی کے جامع اور نئے اقدامات اشتعال انگیزی کی روک تھام اور استحکام کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہیں۔

ایم آئی آر وی ٹیکنالوجیز بھارت کے جوہری پوسچر میں تبدیلی کی عکاس


مارچ ۱۱، ۲۰۲۴ کو ایک باضابطہ اعلان سے اس امر کی تصدیق ہوئی کہ بھارت نے پریسیشن گائیڈڈ میونیشن (پی جی ایم) کامیابی کے ساتھ تیار کر لیا ہے جو کہ ایم آئی آر وی ٹیکنالوجی کی ایک قسم ہے۔ بھارت اس ٹیکنالوجی کو اگنی پی سمیت اگنی سیریز کے کئی میزائلز میں نافذ کر سکتا ہے۔ اگنی پی، کنستر شدہ جوہری گولہ بارود جنہیں برق رفتاری سے میزائل کے ساتھ منسلک کیا جا سکتا ہے اور جو اس کی تیزی سے لانچ کی صلاحیتیوں میں اضافہ کرتے ہیں، اس سمیت اگنی- ۵ کی جدید ٹیکنالوجیز رکھتا ہے۔ یہ ٹیکنالوجیز بھارت کی جانب سے حملے میں پہل کے امکانات کی ضمن میں اہمیت رکھتے ہیں کیونکہ یہ بھارت کو عسکری اہداف سے ۳۳ فٹ (۱۰ میٹر) کی حد تک درست نشانہ باندھنے کے قابل کرے گا۔ یہ پیش رفتیں حملے میں پہل کی قابلیتوں میں اضافے کی ضمن میں بھارت کے جوہری نقطۂ نگاہ میں تبدیلی کا اشارہ دیتی ہیں، جو دراصل کسی تنازعے کی ممکنہ صورتحال میں جوہری حکمت عملی میں تزویراتی وزن ڈالنے کا عکاس ہے۔


ایم آئی آر وی کے حالیہ ٹیسٹ نے تصدیق کی ہے کہ بھارت کے اگنی – ۵ جو ایک ٹھوس فیول سے چلنے والا بین الابراعظمی بیلسٹک میزائل (آئی سی بی ایم) ہے اس نے سویلین سیٹلائیٹ ایس ایل وی- ۳ کے لیے تیار کی جانے والی تکنیکی قابلیتوں کو مستعار لیا ہے جو کہ میزائل کو زیادہ وزن کے حامل پے لوڈز لے جانے کے قابل کرتی ہیں۔ امریکی فنڈز سے چلنے والے نیشنل ایروناٹکس اینڈ اسپیس ایڈمنسٹریشن (ناسا) کے ہمراہ معاونت یافتہ پارٹنر شپ کے ذریعے، بھارت نے ٹھوس میزائل اور سنتھیٹک اپرچر ریڈار ٹیکنالوجی (سار) کو استعمال کرتے ہوئے اپنے آئی سی بی ایم پروپلژن سسٹمز کو بہتر بنایا ہے۔ 
یہ ٹیکنالوجی، سویلین خلائی تعاون کے ذریعے تیارشدہ دوہرے استعمال کی ٹیکنالوجیز کے دفاعی مقاصد کی خاطر تزویراتی استعمال کو ظاہر کرتی ہے۔ یہ قابلیت زیادہ ہمہ جہت اور قابل بھروسہ میزائل سسٹمز کو فعال کرنے کے ذریعے بھارت کی جوہری ڈٹرنس پوسچر کو بہتر بناتی ہے، جو ممکنہ طور پر ہتھیاروں کی دوڑ میں تیزی لاتے ہوئے تزویراتی عدم استحکام میں حصہ ڈالتا ہے۔

مصنوعی ذہانت کی تقویت یافتہ نگرانی اور میزائل ڈیفینس سسٹمز نے قابلیتوں کو بہتر کر دیا


خلائی ٹیکنالوجی میں بھارت کی سرمایہ کاری اور مصنوعی ذہانت کا انضمام، عکسری اور دفاعی قابلیتوں میں اضافے کی ضمن میں ایک بنیادی تبدیلی کا نشان ہے۔ یہ چال جس کی عکاسی جوش و خروش کے ساتھ میزائل لانچز اور حساس ترین مصنوعی ذہانت کی حامل ایپلی کیشنز سے ہوتی ہے، انٹیلی جنس، ٹھیک ٹھیک نشانہ باندھنے کی قابلیت اور میزائل ٹیکنالوجیز کو تیز تر بنانے کے لیے ہے۔


سیٹلائٹ ڈیٹا پر مصنوعی ذہانت کے ذریعے کام کرنے سے بھارت کو تزویراتی اثاثہ جات اور عسکری سرگرمیوں کے حوالے سے ایک واضح تر آپریشنل تصویر ملے گی، جو مقابلہ کرنے کی زیادہ موثر حکمت عملیوں میں سہولت کاری کرے گی اور متعدد سینسرز اور سیٹلائٹس سے ریئل ٹائم میں موصول ہونے والے ڈیٹا کے تجزیہ اور انہیں سمجھنے کےلیے جدید ایلوگرتھمز کے نفاذ کے ذریعے اس کے میزائل ڈیفنس ڈھانچے کو سہارا دے گی۔ مصنوعی ذہانت کی ڈیٹا پر تیزی سے عمل کاری کی قابلیتیں اہداف کی شناخت اور ان کا پیچھا کرنے کی بھارتی قابلیتوں کو بہتر بنائیں گی جس سے جارحانہ کارروائیوں کے دوران تیز تر اور زیادہ درست نشانے کی حامل فیصلہ سازی فعال ہو گی۔ سیٹلائٹس میں مصنوعی ذہانت کے اضافے سے اس رفتار میں بھی اضافہ ہو گا کہ جس سے بھارت ڈیٹا پر کارروائی کر سکتا ہے، جس سے ریئل ٹائم میں نگرانی اور معلومات کا اشتراک ممکن ہو گا۔


بھارت اس قابلیت کا ادراک کرنے کی ضمن میں پہلے ہی واضح اقدامات اٹھا چکا ہے۔ بھارت کے خلائی تحقیق کے ادارے اسرو نے دسمبر ۲۰۲۳ میں اعلان کیا تھا کہ وہ پانچ سال کے اندر ۵۰ سیٹلائٹس لانچ کرے گا تاکہ جیو انٹیلی جنس قابلیتوں میں اضافہ کیا جا سکے جو بھارت کے سیٹلائٹ بیڑے میں توسیع کی ضمن میں ایک نمایاں قدم کا پتہ دیتا ہے۔ اس پیش رفت کا مقصد وسیع تر نگرانی اور تزویراتی سلامتی کو مضبوطی بخشنا ہے، جو بالخصوص مصنوعی ذہانت کے انضمام شدہ زمینی مشاہدے (ای او) کے حامل سیٹلائٹس میں اعلیٰ تر جاسوسی قابلیتوں کے نفاذ پر توجہ دیتی ہے۔ بھارتی آرمی جیو اسٹیشنری سیٹلائٹ ( جی ایس اے ٹی)-۷ بی کے ذریعے اپنے ابلاغی انفرااسٹرکچر کو ۲۰۲۶ تک بہتر بنانے کا منصوبہ رکھتی ہے، جو اسے تمام وسائل کو یکجا کرتے ہوئے زیادہ موثر میدان جنگ سجانے کے قابل کرتا ہے۔


مصنوعی ذہانت سے افزودہ میزائل سسٹمز، میزائل کے سفر اور حملوں کے منصوبوں کو بہتر بنانے کی خاطر متعدد جارحانہ منظرناموں کی تصویری منظرکشی کر سکتے ہیں، جس سے یہ یقینی بنایا جاتا ہے کہ بھارتی ہتھیار بالکل درست طور پر استعمال کیے جاتے ہیں، جو غلط اہداف کو نشانہ بنانے کا خطرہ کم کر دیتا ہے۔ اسی کے ساتھ ساتھ مصنوعی ذہانت، ایسے میزائل کے دفاع کو بہتر بناتی ہے جو ہدف کو خودکار طور پر پہچاننے کے لیے مشین کے ذریعے سیکھنے کی اے ٹی آر ٹیکنالوجی استعمال کرتے ہیں، جس سے ہدف میں تعصب، اس کے تعاقب اور گائیڈنس سسٹمز میں بہتری آئے گی؛ ڈیفینس سسٹمز کی رفتار اور منظم فیصلہ سازی کے دائرہ اختیار کو بہتر بنایا جائے گا نیز ہائیپرسونک میزائل ڈیفینس کی لچک کو تقویت ملے گی۔ یہ دوہرا نقطہ نگاہ پہلے حملہ کرنے میں درستگی کی بھارتی صلاحیتوں کو نمایاں بہتر بنائے گا اور اسی کے ساتھ ہی ساتھ ہی پاکستان کی جوابی حملہ کرنے کی صلاحیتوں کو پیچیدہ کرے گا، اور یوں یہ علاقائی سلامتی حرکیات کو تبدیل کرتا ہے۔


دسمبر ۲۰۲۳ میں بھارتی ایئر فورس (آئی اے ایف) نے اپنی ایئراسپیس ٹیکنالوجی کی ترقی کو جلا بخشنے کے لیے ایک نئے ڈاکٹرائن “اسپیس وژن ۲۰۴۷” سے پردہ اٹھایا تھا، جو خلا سے تزویراتی نگرانی کی قابلیتوں کو بہتر بنانے کا وعدہ کرتا ہے۔ ڈاکٹرائن خلا سے موسم کے بارے میں جدید پیشنگوئی، خلائی ٹریفک کے انتظام، ٹھیک ٹھیک نشانے کا پتہ لگانے، ٹائمنگ سسٹمز اور جامع انٹیلیجنس، نگرانی اور ابلاغ کے نیٹ ورک تیار کرنے کے منصوبوں کے خدوخال بیان کرتا ہے۔ ڈیفنس اسپیس ایجنسی کا اسپیس کمانڈ کی شکل میں ارتقاء جو آنے والے برسوں میں ایک سو سے زائد عسکری سیٹلائٹس کی تعیناتی کا جوشیلا منصوبہ رکھتا ہے، ہتھیاروں کی مد میں جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کے بھارتی عزم پر روشنی ڈالتا ہے۔


تاہم ان جوشیلے منصوبوں کو پروجیکٹس کے التواء اور بجٹ میں توسیع جیسے معاملات درپیش ہیں، لہذا یہ سوال بدستور اپنی جگہ موجود ہے کہ بھارت ان نئی ٹیکنالوجیز کو کتنا جلدی اور کس حد تک اختیار کر سکتا ہے۔ فروری ۲۰۲۳ میں وزارت دفاع نے راجیہ سبھا کو مطلع کیا تھا کہ بھارت کی دفاعی تحقیق و ترقی کی تنظیم (ڈی آر ڈی او) کو اپنے ۵۵ میں سے ۲۳ منصوبوں کی تکمیل میں مشکلات کا سامنا ہے۔ دسمبر ۲۰۲۳ میں ہونے والے ایک تنقیدی جائزے نے منصوبہ جاتی مسائل پر روشنی ڈالی تھی کہ جو اخراجات میں اندازے سے زیادہ تجاوز اور ٹیکنالوجی کے فرسودہ ہونے کا سبب بن رہے ہیں۔ یہ کہ بھارت کو متعدد ممالک سے خریدے گئے نظاموں کو ضم کرنا پڑتا ہے جو باہم کام کرنے تقاضوں کے سبب اخراجات کو مزید بڑھاتے ہیں اور نتیجتاً انضمام، تربیت اور دیکھ بھال کی مد میں مزید اخراجات درکار ہوتے ہیں۔ یہ پیچیدگی نہ صرف مالی بوجھ بڑھاتی ہے، بلکہ فوج کے جدت اختیار کرنے کے منصوبوں کی عملی قابلیت پر بھی اثرانداز ہوتی ہے۔

بڑھتے ہوئے خطرات میں جدید ٹیکنالوجی کا کردار


بھارت کے ایم آئی آر وی صلاحیت سے لیس میزائل، مع جدید خلائی ٹیکنالوجی اور مصنوعی ذہانت کی سہولت سے آراستہ میزائل سسٹمز اس کی عسکری قابلیتوں کی ضمن میں ایک انقلابی چھلانگ کے عکاس ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس بارے میں غور و فکر اہمیت رکھتا ہے کہ درست نشانہ باندھنے کی بھارتی قابلیت میں بہتری کے لیے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال اور خلا اور نگرانی کے شعبے میں اس کی قابلیت پاکستان کے ہمراہ اس کی تزویراتی حرکیات کو تبدیل کرتے ہیں۔ اپنی حملہ کرنے کی قابلیتوں کو جدید ٹیکنالوجی کا سہارا دینے کے ذریعے بھارت درست نشانہ باندھنے اور دشمن کی عسکری تنصیبات اور اثاثہ جات کو پیشگی ناکارہ بنانے کی کوشش کر رہا ہے، اور یوں اپنی مقابلہ کرنے کی حکمت عملی کو توانا ، تزویراتی استحکام کو برقرار رکھ کر کسی ممکنہ اشتعال انگیزی کی صورتحال کا بندوبست کر رہا ہے۔

 


یہ پیش رفتیں ممکنہ طور پر پاکستان کے اندر تزویراتی توازن کے حوالے سے عدم تحفظ پیدا کریں گی۔ حملے اور دفاع کے میزان پر ٹیکنالوجی کے میدان میں بھارتی پیش رفتوں کے اثرات کا تجزیہ کرنے کی صورت میں پاکستان خود اپنی دفاعی قابلیتوں میں اضافہ کرنے کی خواہش کر سکتا ہے تاکہ موثر ڈٹرنس کو برقرار رکھا جا سکے۔ اس میں میزائل ٹیکنالوجی میں ترقی کو تیز رفتار بنانا، جوہری قابلیتوں میں توسیع یا پھر بھارتی پیش رفت کے ہم پلہ رہنے کے کے لیے دیگر تزویراتی دفاعی نظاموں میں اضافہ شامل ہو سکتا ہے۔


عسکری اور زمینی مشاہدے کے سیٹلائٹس کی تعیناتی کے ذریعے بھارت، پاکستان کے جوہری اور عسکری اثاثوں کے مقامات اور نقل و حرکت کے بارے میں بروقت ڈیٹا اکٹھا کرنے، انٹیلی جنسی، نگرانی اور دشمن کی حرکت و سکنات پر نگاہ رکھنے کی اپنی قابلیت (آئی ایس آر) میں بہتری لاتا ہے۔ نگرانی کی اضافی قابلیتیں ایک دوسرے کی نیت کے حوالے سے وضاحت دینے کے ذریعے بھارت اور پاکستان کے درمیان اشتعال انگیزی کا خطرہ کم کرتی ہیں۔ تاہم مسلسل عدم اعتماد اور تزویراتی بے یقینی، بالخصوص بھارت کی نو فرسٹ یوز پالیسی کے حوالے سے بے یقینی ان فوائد کو رد کر سکتی ہے کیونکہ پاکستان بھارت کی جانب سے سیٹلائٹ تعیناتیوں کو خطرہ سمجھ سکتا ہے۔


اگرچہ اضافی نگرانی کا مقصد حادثاتی اشتعال انگیزی کے خطرے میں کمی ہو سکتا ہے لیکن بھارت کی حقیقی یا سمجھی گئی تکنیکی برتری بھارت اور پاکستان کے درمیان کی حرکیات کو مزید غیرمستحکم بنا سکتی ہیں۔ مثال کے طور پر میزائلوں کے موجودہ نظاموں کی موجودگی میں، مصنوعی ذہانت باہمی طور پر کام کرنے والے ڈرونز کی ممکنہ بقا میں بہتری لا سکتی ہے اور یوں وہ دشمن کے دفاع کو ناکارہ بناتے ہوئے اسے ہتھیاروں سے محروم کرنے کے لیے راہیں ہموار کر سکتے ہیں۔ تکنیکی میدان میں یہ برتری بھارت کے عسکری امکانات میں معیاری تبدیلی لانے میں حصہ دار بنتی ہے جو پاکستان کو اس کے مقابلے کے قابل جدت حاصل کرنے کے لیے ترغیب دلا سکتا ہے۔ نظریاتی اعتبار سے دیکھا جائے تو تکنیکی میدان میں باہمی سطح پر مساوات غیریقینیوں کا خاتمہ کرتے ہوئے خطے میں استحکام لاتی ہے، اس کے برعکس عدم مساوات ہتھیاروں کی دوڑ کا موجب ہو سکتی ہے جس سے علاقائی تناؤ میں شدت آتی ہے۔


ہدف کا نشانہ باندھنے اور صورتحال کے بارے میں آگاہی میں بھارت کی بہتری، اسے اس جانب لے جا سکتی ہے کہ جہاں پر وہ بھرپور مقابلے کی حکمت عملیوں جیسا کہ دشمن کے جوہری ہتھیاروں پر پیشگی حملے کے بارے میں غور شروع کر دے۔ میزائلوں کا بہتر دفاع اور ٹھیک نشانہ باندھنے کی قابلیتوں کے سبب پاکستان کے یہ خدشات خواہ حقیقی ہوں یا فرض شدہ تاہم ان میں اضافہ ہو سکتا ہے کہ بھارت مقابلے کی غرض سے حملے کی تیاری کر رہا ہے۔


بھارت کی ایم آئی آر وی قابلیتوں کے بارے میں بحث کا بڑا حصہ ، بیک وقت زیادہ بڑی تعداد میں جوہری گولہ بارود پہنچانے کی تکنیکی قابلیت کے گرد گھومتا ہے جو کہ بھارت کی حملے میں پہل کی قابلیت کو بڑھاتا ہے۔ ایک اور پہلو جس کے بارے میں کم ہی مطالعہ کیا گیا ہے، وہ بھارت کا اپنی عسکری ٹیکنالوجی میں نشانے کی درستگی اور مطابقت کی جانب جھکاؤ ہے، کیونکہ حالت پیش رفتیں بھارت کی گولہ بارود کو زیادہ درست نشانے پر داغنے اور متنوع تزویراتی ضروریات کے تحق انہیں مطابقت دینے کی اس کی قابلیت کو بہتر بناتی ہیں۔ مثال کے طور پر میزائلوں میں مصنوعی ذہانت کا اضافہ اسے اس قابل کرتا ہے کہ وہ غیرمتوقع معلومات ملنے کی صورت میں اپنے سفر کو بروقت درست کر سکیں۔ ایس-۴۰۰ ایئر ڈیفنس سسٹم کے حصول اور مقامی سطح پر ایک میزائل ڈیفنس سسٹم کی ممکنہ تیاری کے ساتھ یہ پیش رفت پاکستان کے جوابی اختیارات کو ناکارہ کرتی ہیں اور اسے یہ ترغیب دلاتی ہیں کہ روایتی محاذ آرائیوں کے دوران تزویراتی توازن میں بگاڑ محسوس کرنے کی صورت میں اپنے جوہری تھریش ہولڈ میں کمی لے آئے۔


بھارت کی جانب سے مصنوعی ذہانت کا استعمال اور خودمختار عسکری نظام، اندازے کی غلطیوں اور حادثاتی اشتعال انگیزی کے اضافی خطرات متعارف کرواتے ہیں، جہاں کسی بحران کی صورت میں ڈیٹا پر تیز رفتاری سے کارروائی بغیر سوچے سمجھے کارروائیوں کا باعث بن سکتی ہے۔ وسیع تر منظرنامے میں دیکھا جائے تو یہ پیش رفتیں جنوبی ایشیا میں جدید ترین ٹیکنالوجی کے حامل ہتھیاروں کی دوڑ کو ہوا دینے کا امکان رکھتی ہیں، جو بھارت اور پاکستان کی جانب سے سفارتی حل کے دروازے بند کرتے ہوئے اور جوہری حملوں کے خطروں میں اضافہ کرتے ہوئے دونوں ملکوں میں بحران کے منظم انتطام اور اس کے حل کی قابلیت کے لیے خطرہ ہیں۔

ہتھاریوں کی روک تھام کے اقدامات کی ضرورت


ایم آئی آر وی سے لیس اگنی–۵ میزائلز، مصنوعی ذہانت سے آراستہ نگرانی اور میزائل ڈیفینس سسٹمز کی تیاری کے ساتھ ساتھ، بھارت کو اعتماد سازی کے نئے اقدامات (سی بی ایمز) پر بھی غور کرنا چاہیئے تاکہ علاقائی استحکام پر اس جدید ٹیکنالوجی کے مرتب ہونے والے اثرات کو بھی زیرغور لایا جا سکے۔ ردعمل دیتے سی بی ایمز کے بنیادی ستونوں میں بھرپور ابلاغ کے چینلز، ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز پر دو طرفہ گفتگو اور میزائل تجربے کے بارے میں اطلاعات میں اضافہ شامل ہیں۔ موثر سی بی ایمز، ابلاغ کے مضبوط نیٹورکس کے بھی متقاضی ہیں جیسا کہ سیاسی اور عسکری ہاٹ لائنز۔ خطرات کے انتظام کے لیے پاکستان اور بھارت کے درمیان باقاعدگی سے تزویراتی مذاکرات اور ٹریک ۱.۵ ڈپلومیسی جسے نئی عسکری ٹیکنالوجی کے بارے میں دو طرفہ ٹاسک فورسز کی معاونت حاصل ہو ، ضروری ہو گی۔ میزائل ٹیکنالوجی بالخصوصی ہائپرسونک میزائلوں کے ارتقاء کے ساتھ شفافیت اور اعتماد کی خاطر اس امر کی ضرورت پیدا ہو چکی ہے کہ تجربوں کی اطلاعات کے روایتی فریم ورکس کو تازہ ترین کیا جائے تاکہ نئی پیش رفتوں کو ان میں شامل کیا جا سکے۔ اس میں ہتھیار کی قابلیتوں اور اس کے سفر کے بارے میں ڈیٹا کا اشتراک شامل ہے تاکہ غلط فہمیوں اور اشتعال کا تدارک ہو سکے۔ تعمیل کو یقینی بنانے کے لیے تصدیق کے بھرپور میکنزمز اور تکنیکی جدتوں کو ان معاہدوں میں شامل کرنے کے لیے باقاعدگی سے مذاکرات بھی باہمی فہم کے فروغ کے لیے ضروری ہیں۔


پالیسی کا نفاذ، سفارتی روابط کے ایک سلسلے اور سی بی ایمز کے ذریعے سے ہونا چاہیئے جس کا آغاز بین الاقوامی ثالثی میں ہونے والے مذاکرات سے ہو جہاں پر بنیادی اصول طے کیے جائیں۔ اس کے بعد ہونے والی تکنیکی میٹنگز میں میزائل اور مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی کے ماہرین کی مدد سے اطلاعات کے پروٹوکولز اور تصدیق کے میکنزم کی تعریف بیان کی جائے۔ چونکہ بھارت اور پاکستان کے درمیان تعلقات طویل عرصے سے موجود کشمیر جیسے تنازعوں کی وجہ سے پیچیدہ ہیں، ایسے میں مرحلہ وار نفاذ پر مبنی نقطۂ نگاہ زیادہ موثر ہو سکتا ہے۔ یہ نقطہ نگاہ کم حساس ٹیکنالوجیز پر گفتگو سے آغاز کرتا ہے اور اعتماد قائم ہونے کے ساتھ ساتھ زیادہ حساس ٹیکنالوجی تک گفتگو کا دائرہ وسیع کرتا ہے جس میں ساتھ ہی ساتھ نئی تکنیکی اور سلامتی حرکیات کی بنیاد پر سامنے آنے والے مسائل سے نمٹنے کے لیے باقاعدگی سے جائزے اور معاہدوں کو تازہ ترین کرنا شامل ہے۔


مصنوعی ذہانت کی اخلاقی نمو اور خودمختار نظاموں کے حوالے سے حفاظتی تدابیر کی تخلیق اور اس کے ساتھ ہی ساتھ اس کے غلط استعمال کے خلاف انتباہ کی تیاری بھی بے حد ضروری ہو گی۔ اس میں بھارت اور پاکستان کی جانب سے ہیکنگ اور غیرمجاز استعمال کے خلاف حفاظتی تدابیر کا نفاذ شامل ہو سکتا ہے، جس کے ہمراہ دوہرے استعمال کی ٹیکنالوجی پر تعاون کے بارے میں اضافی بین الاقوامی انتباہ شامل ہو۔ دوہرے استعمال کی ٹیکنالوجی کے ذمہ دارانہ استعمال کی نگرانی اور وکالت کے لیے غیر ریاستی کردار جیسا کہ تعلیمی اداروں، غیر سرکاری تنظیموں اور ٹیکنالوجی کی کمپنیز کو ہمراہ شامل کرنا ان مقاصد کے لیے مفید رہے گا کیونکہ یہ ماہرانہ تجزیہ پیش کر سکتے ہیں اور ٹیکنالوجی کے مستحکم اور پرامن نفاذ کو یقینی بنانے میں مدد کر سکتے ہیں۔


ان رکاوٹوں پر قابو پانا، بنیادی طور پر پاکستان اور بھارت کی جانب سے استحکام کے فوائد اور اشتعال انگیزی کے بدترین نتائج کو تسلیم کرنے اور مذاکرات و فہم کے لیے بین الاقوامی معاونت پر انحصار کرتا ہے۔

***

Click here to read this article in English.

Image 1: Agni-III Missile via Flickr

Image 2: Surface to Air Missile via Wikimedia Commons.

Share this:  

Related articles

पर्वतों से समुद्री तटों तक: गलवान के पश्चात् भारत-चीन प्रतिस्पर्धा Hindi & Urdu
جنوبی ایشیا میں بائیڈن کے ورثہ کا جائزہ Hindi & Urdu

جنوبی ایشیا میں بائیڈن کے ورثہ کا جائزہ

ریاستہائے متحدہ امریکہ ، 20 ویں صدی کے وسط سے…

سی پیک کو بچانے کے لیے، پاکستان کی چین پالیسی میں اصلاح کی ضرورت ہے Hindi & Urdu

سی پیک کو بچانے کے لیے، پاکستان کی چین پالیسی میں اصلاح کی ضرورت ہے

پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف رواں ماہ کے اوائل میں صدر شی جن پنگ اور دیگر اعلیٰ چینی حکام سے ملاقاتوں کے بعد تقریباََ خالی ہاتھ وطن واپس پہنچ گئے ہیں۔ چین نے واضح انضباطِ اوقات ( ٹائم لائن) کے تحت پاکستان میں بڑے منصوبوں کے لئے سرمایہ کاری کا وعدہ نہیں کیا۔ اس […]