Afghan-Pakistani_at_the_Friendship_Gate_in_Spin_Boldak

پاکستان کے۱.۷ ملین  غیر قانونی افغان پناہ گزینوں کو ملک بدر کرنے کے آغاز  کے ساتھ ہی پاک افغان تعلقات تاریخی طور پر نِچلی ترین سطح پر پہنچ گئے ہیں۔ تقریباََ چار دہائیاں قبل جب سوویت افواج نے افغانستان پر حملہ کیا تو چار ملین افغان پناہ گزین جائے امن کی تلاش میں پاکستان ہجرت کر گئے تھے۔ کابل اور اسلام آباد کے درمیان حالیہ بڑھتی ہوئی کشیدگی کے بعد پاکستان نے تمام غیر قانونی افغان مہاجرین کو، جن میں سے کئی پاکستان میں پیدا اور پلے بڑھے ہیں،  یکم نومبر تک ملک چھوڑنے کی مہلت دی ہے۔

افغان پناہ گزینوں کی وطن واپسی کے لیے ایسی عُجلت نے شکوک و شبہات کو جنم دیا ہے۔
عبوری افغان حکومت کے ترجمان سہیل شاہین نے افغان مہاجرین کی بے دخلی کو ‘طالبان کے خلاف دباؤ کا حربہ’ قرار دیا ہے۔  دیگر کا کہنا ہے کہ پاکستان افغان مہاجرین کی وطن واپسی پر زور دے رہا ہے تاکہ طالبان حکومت پر تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے دباؤ ڈالا جا سکے۔ دوسری جانب پاکستان کے نگراں وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا ہے کہ دو سال قبل طالبان کے دوبارہ  اقتدار میں آنے کے بعد سے  غیرقانونی افغان پناہ گزین پاکستان میں دہشت گردی کی سرگرمیوں میں اضافے میں کردار ادا کر رہے ہیں۔
کئی دہائیوں سے پاکستان  برتر سٹریٹیجک ڈیپتھ حاصل کرنے اور بھارت کی جانب سے فوجی حملے کی صورت میں افغانستان کو دوبارہ منظم ہونے کی جگہ کے طور پر محفوظ بنانے کی کوشش کرتا رہا ہے۔ اس پالیسی کے تحت پاکستان افغانستان کی داخلی سیاست میں مداخلت کرتا رہا ہے۰۰۰۰۰۰۰جس کے باعث  تعلقات مزید خراب ہو رہے ہیں۔


وطن واپسی پر زور دینا اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان نے ابھی تک افغانستان میں اپنی ماضی کی غلطیوں سے سبق نہیں سیکھا ۔ برصغیر کے نوآبادیاتی راج میں برطانیہ نے افغانستان کو روسی خطرے کے  سامنے حائلیت (بفر ) کے طور پر دیکھا۔
پاکستان نے اس نوآبادیاتی وراثت کو جاری رکھتے ہوئے افغانستان کو بھارت پر تزویراتی برتری حاصل کرنے کے لئے استعمال کرنے کی کوشش کی جسے “سٹریٹیجک ڈیپتھ پالیسی” کہا جاتا ہے، جس کے تحت پاکستان کی جانب سے افغانستان کو ‘فوجی اثاثہ’ کے طور پر مستعمل ہونا ہے۔ کئی دہائیوں سے پاکستان برتر سٹریٹیجک ڈیپتھ حاصل کرنے اور بھارت کی جانب سے فوجی حملے کی صورت میں افغانستان کو دوبارہ منظم ہونے کی جگہ کے طور پر محفوظ بنانے کی کوشش کرتا رہا ہے۔ اس پالیسی کے تحت پاکستان افغانستان کی داخلی سیاست میں مداخلت کرتا رہا ہے جو اِن گہرے خدشات کا موجب بنتا ہے کہ پاکستان کا مقصد محض اپنے ہمسایہ ملک کو موکل ریاست (کلائنٹ سٹیٹ) بنانا ہے، جس کے باعث تعلقات مزید خراب ہو رہے ہیں۔

پاکستان اور افغانستان کے درمیان اہم ثقافتی اور مذہبی بندھن ہیں۔ تاہم، دو طرفہ تعلقات غیر ضروری الزام تراشیوں کے باعث ماند پڑ گئے ہیں، جن سے کسی بھی فریق کو فائدہ نہیں پہنچتا۔ دوطرفہ تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے پاکستان کو افغان مہاجرین کی وطن واپسی کے حوالے سے اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرنی چاہیے جبکہ افغانستان کو پاکستان کے ٹی ٹی پی کے مسئلے کو سمجھنے اور ٹی ٹی پی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی مدد کرنے کی ضرورت ہے۔


افغانستان میں پاکستان کے غلط اقدامات کی ابتدا


 افغانستان پر ۱۹۷۹ میں سوویت حملہ پاکستان کے لئے افغانستان میں سٹریٹیجک ڈیپتھ کی پالیسی تیار کرنے کا ایک سٹریٹیجک موقع تھا۔امریکہ کی مدد سے پاکستان نے سرد جنگ کے دوران سوویت افواج کے خلاف لڑنے والے اسلامی گروہوں کو تربیت اور لاجسٹک سپورٹ (فوجی نقل و حمل سے متعلقہ امداد) فراہم کرنا شروع کی۔ سوویت افواج کے انخلا کے بعد، مجاہدین حکومت تشکیل دینے اور افغانستان میں امن لانے میں ناکام رہے۔ مجاہدین کے دھڑے طالبان بن گئے، ایک ایسا گروپ، جو خطے میں پاکستان کے مفادات کا تحفظ اور افغانستان میں بھارتی اثر و رسوخ کو ختم کرے، اور اس میں پاکستان نے سٹریٹیجک اثاثے کے طور پر بھاری سرمایہ کاری کی۔ اس کے جواب میں بھارت نے شمالی اتحاد کی حمایت کی جو ایک سفاک طالبان مخالف قوت ہے۔ صدر اشرف غنی کے دور میں بھارت نے افغانستان میں عوام سے عوام تک رابطہ کاری میں سرمایہ کاری کے ذریعے سافٹ پاور
 پر توجہ مرکوز رکھی۔ طالبان کی واپسی کے بعد اُنھوں نے بھی بھارت کے ساتھ دوستانہ تعلقات استوار کرنے میں دلچسپی ظاہر کی ہے۔


طالبان مجاہدین کے خلاف ایک مضبوط اپوزیشن کے طور پر ابھرے اور بالآخر ۱۹۹۶ میں  اُنھوں نے اپنی حکومت قائم کر لی۔ پاکستان اس وقت ان تین ممالک میں سے ایک تھا جس نے طالبان حکومت کو تسلیم کیا ۔ تاہم ان کی حکومت صرف ۲۰۰۱ تک قائم رہی، جب امریکہ نے اس کا تختہ الٹ دیا۔ اگرچہ پاکستان نے امریکہ کی قیادت میں دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں شمولیت اختیار کی، لیکن اس نے طالبان کی حمایت جاری رکھی اور اس طرح اس پر ڈبل گیم کھیلنے کا الزام عائد کیا گیا۔ اگست ۲۰۲۱ میں جب امریکی افواج کے انخلا کے بعد طالبان نے ملک کی باگ دوڑ سنبھالی تو پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ افغانستان نے غلامی کی زنجیریں توڑ دی ہیں۔ پاکستان میں خوشی کے شادیانے اس وقت تھم گئے جب طالبان نے ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کرنے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرنا شروع کر دیا۔

سٹریٹیجک ڈیپتھ یا سٹریٹیجک مسئلہ؟


طالبان میں پاکستان کی دہائیوں پر محیط سرمایہ کاری کے تلخ نتائج برآمد ہوئے ہیں ، جِس کے باعث  طالبان کی اعلیٰ صفوں میں ناراضگی  پیدا ہوئی ہے۔ جب سے طالبان نے افغانستان میں دوبارہ اقتدار حاصل کیا ہے، پاکستان میں دہشت گرد حملوں میں ۶۰ فیصد اضافہ ہوا ہے، جن میں ۲،۲۶۷ پاکستانی ہلاک ہوئے ہیں۔ پاکستان کے نگراں وزیر اعظم نے طالبان پر ٹی ٹی پی کی حمایت کا الزام عائد کیا ہے جبکہ طالبان نے ٹی ٹی پی کے بارے میں پاکستان کے بڑھتے ہوئے خدشات کو پاکستان کا داخلی مسئلہ قرار دیا ہے۔ پاکستان نے ٹی ٹی پی جنگجوؤں کے خلاف افغانستان کے اندر ٹارگٹڈ حملے کرنے کے امکان کا عندیہ دیا ہے اور پاکستانی فوج کے سربراہ نے کابل کو خبردارکرتے ہوئے متنبہ کیا ہے کہ اگر وہ ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کرنے میں ناکام رہا تو “مؤثر جواب” دیا جائے گا۔

افغان مہاجرین کے معاملے پر عبوری  افغان حکومت کے وزیر دفاع ملا محمد یعقوب نے پاکستان کو سنگین نتائج سے خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ “جیسا بوئے گا، ویسا کاٹے گا۔” طالبان کے ایک اعلیٰ عہدیدار کا یہ بیان تشویشناک ہے، جو ممکنہ طور پر سرحدی جھڑپوں اور دہشت گردی کی سرگرمیوں میں اضافے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ ٹی ٹی پی اور افغان طالبان کے درمیان مضبوط تعلقات رہے ہیں، رحیم اللّٰہ یوسفزئی نے  اس  کی وضاحت درست طور پر کی: “ٹی ٹی پی نے طالبان کو اقتدار میں واپس لانے کے لئے بہت سی قربانیاں دی ہیں۔ اب طالبان انہیں کیسے چھوڑ سکتے ہیں؟‘‘ یہ اخذ کرنا درست ہے کہ طالبان ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں کو پاکستان کے خلاف متحرک کر سکتے ہیں اور اسے افغان پناہ گزینوں کی واپسی کی سزا دے سکتے ہیں۔

 دونوں ممالک کے درمیان سرحدی تنازعہ ایک دیرینہ مسئلہ ہے جو بگڑتا جا رہا ہے۔گزشتہ دو برسوں کے دوران ڈیورنڈ لائن پر فوجی کشیدگی برقرار رہی ہے جس کی وجہ سے اکثر سرحدیں بند کی جاتی رہی  ہیں۔ طالبان نے باڑ کے بنیادی ڈھانچے کو تباہ کر کے اور ہٹا کر پاکستان کی جانب سے سرحد پر باڑ باندھنے کے خلاف شدید ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔  عبوری افغان حکومت کے ترجمان سہیل شاہین نے ڈیورنڈ لائن کو دونوں ممالک کے درمیان سرحد قرار دینے کی سرِعام تردید کرتے ہوئے اسے ‘محض ایک لائن‘ قرار دیا ہے۔  اقتدار میں آنے کے بعد سے، طالبان نے جان بوجھ کر سرحدی مسئلے پر توجہ مرکوز رکھی ہے تاکہ قوم پرست جذبات کو بھڑکایا جاسکے، خود کو پاکستان سے دور رکھا جاسکے، اور مذہبی اور قوم پرست دونوں خطوط پر عوامی قانونی حیثیت حاصل کی جاسکے۔ افغانستان میں سٹریٹیجک ڈیپتھ کو فروغ دینے کے اپنے مقصد کے حصول کے برعکس، ایسا لگتا ہے کہ پاکستان نے نادانستہ طور پر اپنی دہلیز پر ایک سٹریٹیجک بحران کو پروان چڑھا لیا ہے جو پاکستان کی پیچیدہ سیکیورٹی صورتحال کو پیچیدہ تر  بنا دیتا ہے۔


پاک افغان تعلقات کا نیا آغاز


یہ واضح ہے کہ پاکستان کو اپنے سابقہ تزویرانی اثاثے کی افغانستان میں  قیادت سے بہت کم فائدہ ہوا ہے۔ طالبان کو مدد فراہم کرنا ایک تزویرانی ناکامی ثابت ہوئی کیونکہ اس نے پاکستان کے اندر عسکریت پسندی میں اضافہ کیا ہے۔ مزید برآں، وہ افغانستان میں لوگوں کے دل و دماغ جیتنے میں بھی ناکام رہا ہے۔


بھارت کے ساتھ تزویراتی مسابقت کے حوالے سے پاکستان کا جنون اس کے وسیع تر قومی مفادات پر مسلسل  حاوی رہا ہے۔سٹریٹیجک ڈیپتھ کے حصول نے افغانوں میں پاکستان کے خلاف گہری ناراضگی  پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے جو طالبان حکومت کے دور میں مزید نمایاں ہوا ہے۔ حالیہ کرکٹ ورلڈ کپ اور ایشیا کپ میں  پاکستان مخالف جذبات واضح طور پر نظر آئے تھے جس میں پاکستان اور افغانستان کے شائقین کے درمیان جھگڑے طعن و تشنیع اور  ہاتھا پائی تک جا پہینچے۔


ایسے نازک وقت میں جب پاک افغان تعلقات اپنی نچلی ترین سطح پر ہیں، افغان پناہ گزینوں کی وطن واپسی کشیدگی میں مزید اضافہ کرے گی۔ پاکستان کاروبار میں آسانی کو بہتر بنا کر اور افغان مہاجرین کے بارے میں اپنی پالیسی کو نرم کرکے افغان عوام کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہتر بنا سکتا ہے۔ دونوں ممالک کو ایک ڈیجیٹل دستاویزی نظام اپنانا چاہئے جو کاروباری مقاصد کے لئے نقل و حرکت کو آسان بنائے۔ سرحد کے ساتھ تجارتی زون قائم کیے جا سکتے ہیں جو دونوں ممالک کے درمیان ڈیوٹی فری تجارت کی اجازت دیتے ہوں۔ پاکستان کو یو این ایچ سی آر اور کابل کے تعاون سے وطن واپسی کی ہم آہنگ پالیسی اپنانے کی بھی ضرورت ہے جو غیر امتیازی اور انسانیت پسند ہو۔ دریں اثنا، کابل کو بھی یہ سمجھنا ہوگا کہ ٹی ٹی پی پاکستان کی سلامتی کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے لئے ضروری ہے کہ وہ ایک دوسرے کے داخلی معاملات میں بالواسطہ مداخلت کرنے کے بجائے مثبت  تبادلۂ خیال اختیار کریں۔

***

Click here to read this article in English.

Image 1: Afghan and Pakistani at the Friendship Gate in Spin Boldak, Flickr

Image 2: Afghan refugees return from Pakistan in 2004, Wikimedia Commons

Share this:  

Related articles

کواڈ کو انڈو پیسیفک میں جوہری خطروں سے نمٹنا ہو گا Hindi & Urdu

کواڈ کو انڈو پیسیفک میں جوہری خطروں سے نمٹنا ہو گا

کواڈ کے نام سے معروف چار فریقی سیکیورٹی ڈائیلاگ کے…

بھارت اور امریکہ کی دفاعی شراکت داری  کے لئے رکاوٹیں اور مواقع  Hindi & Urdu

بھارت اور امریکہ کی دفاعی شراکت داری  کے لئے رکاوٹیں اور مواقع 


سرد جنگ کے دوران جغرافیائی سیاسی نقطہ نظر میں اختلافات…

پلوامہ – بالاکوٹ پانچ برس بعد جائزہ Hindi & Urdu

پلوامہ – بالاکوٹ پانچ برس بعد جائزہ

لمحۂ موجود میں پاکستان، بھارت کے تزویراتی بیانیے سے تقریباً…