52387054371_7f9af8dbff_o-1095×616

اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے نے ۲۹ ستمبر کو دونوں ممالک کے مابین دو طرفہ تعلقات کے ۷۵ برس کی تکمیل پر ایک سفارتی عشائیے کا اہتمام کیا۔

پاکستان کے لیے امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم نے تقریب کے شرکاء جس میں  امریکی و پاکستانی سفارت کار اور وزیر اعظم شہباز شریف بطور مہمان خصوصی شامل تھے، ایک اہم تقریر کی جو پاک امریکہ تعلقات کے مستقبل کے لیے خاکہ پیش کرتی ہے۔ اپنی تقریر میں ڈونلڈ بلوم نے تعلقات کے دو پہلوؤں پر خصوصی توجہ دی: تعلقات کی مضبوط بنیاد اور شراکت داری کے نئے مواقع کی تخلیق۔ بلوم نے اس امر پر بھی روشنی ڈالی کہ ماضی میں امریکا کی افغانستان میں جنگ کے باعث متاثر ہونے والے پاک امریکا تعلقات کو بھارت اور چین کے تناظر میں  دیکھنے کے بجائے خودمختار بنیادوں پر استوار ہونا  چاہیے۔ 

 بلوم کی تقریر کا سب سے طاقتور پہلو ان کا اس امر پر اصرار تھا کہ پاک امریکہ تعلقات کو سلامتی کی بنیاد پر قائم شراکت داری سے بدلتے ہوئے معیشت کی بنیاد پر استوار وسیع شراکت داری بنایا جائے۔ پاکستان میں گزشتہ و موجودہ دونوں حکومتیں، امریکہ کے ہمراہ تجارت و سرمایہ کاری کی بنیاد پر  استوار تعلقات کی خواہش کا برسرعام اظہار کر چکی ہیں۔  پاکستان میں زیادہ متحرک کردار ادا کرنے کی خاطر امریکہ کا اپنی خارجہ پالیسی کو تیزی سے تبدیل کرنا اگرچہ اسلام آباد میں  شکوک و شبہات کا باعث ہے تاہم پاکستان اور امریکہ دونوں کو تعاون کی رفتار کو برقرار رکھنے اور اس کے نتائج کو ترجیح دینی چاہیے۔

ناراضگی سے بحالی کا سفر

امبیسیڈر بلوم کی تقریر سے صرف چند ہفتے قبل تک جغرافیائی سیاسیات بشمول افغانستان سے انخلاء جیسے امور پر اختلافات کے سبب اسلام آباد اور واشنگٹن کے مابین  تعلقات آلودہ تھے۔ پاکستان میں امریکہ مخالف جذبات نے بھی عدم اعتماد کو مزید بڑھاوا دیا۔ اس سال کے آغاز میں حکومتی سطح پر تعلقات جمود کا شکار ہو گئے تھے جس کی ایک وجہ پاکستان کے سابق وزیراعظم عمران خان اور امریکی صدر جوبائیڈن کے درمیان رابطہ نہ ہونا تھا۔

بہرحال پاکستان میں تباہ کن سیلابوں کی وجہ سے امریکہ نے انسانی امداد اور آفت سے نمٹنے کے لیے ۶۶ ملین ڈالر سے زائد فراہم کیے جس نے دوطرفہ تعلقات کی از سر نو مضبوطی کے اشارے کا کام کیا۔ امریکی شہریوں، غیر منافع بخش و نجی اداروں نے بھی سیلاب متاثرین کے لیے اضافی معاشی امداد بھیجی جس کا پاکستان میں بھرپور خیرمقدم کیا گیا۔

  وزیراعظم شہبازشریف کی قیادت میں نئی حکومت اب امریکہ کے حوالے سے پاکستان کی خارجہ پالیسی کو ترتیب دے رہی ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف اور چیف آف آرمی اسٹاف جنرل باجوہ  دونوں نے امریکہ کے ہمراہ تعلقات بہتر بنانے کا علی الاعلان عندیہ دیا ہے۔ دو طرفہ تعلقات کے ۷۵ برس کی تکمیل کی مناسبت سے  پاکستان کے وزیرخارجہ بلاول بھٹو نے امریکی وزیر خارجہ بلنکن سے ملاقات کے لیے اہم دورے کیے جس کے نتیجے میں پاکستان اور امریکہ کے مابین ۸۰ مختلف سرگرمیاں منعقد ہوئیں۔ اسی طرح اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے حالیہ ۷۷ویں اجلاس کے موقع پر امریکہ اور پاکستان کے نمائندوں کے مابین چھ ملاقاتیں ہوئیں جن میں افغانستان پر امریکہ کے خصوصی نمائندے تھامس ویسٹ اور پاکستان کے وزیرخارجہ بلاول بھٹو کے درمیان جبکہ امریکی خصوصی صدارتی سفیر برائے ماحولیات جان کیری اور پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف کے مابین ملاقاتیں شامل ہیں۔ ۵ اکتوبر کو پاکستان کے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ امریکہ کے دورے پر گئے جہاں انہوں نے امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن اور مشیر قومی سلامتی جیک سلیوان سے علاقائی سلامتی کی صورتحال پر بات چیت کے لیے ملاقاتیں کیں جس میں انہوں نے پاکستان کے واشنگٹن کے ہمراہ معاشی و دو طرفہ تعاون کے دوبارہ آغاز کی اہمیت  پر زور دیا۔

نئے تعلقات کا محرک: معیشت

تعلقات میں رکاوٹوں کے باوجود ڈونلڈ بلوم کا تبصرہ پاکستان کے حوالے سے امریکی نقطہ نظر میں اہم تبدیلی کا اشارہ دیتا ہے۔ ان کا وسیع تر معاشی بنیادوں پر دو طرفہ تعلقات کی ترتیب نو کا مطالبہ، پاکستانی رہنماؤں کے اس مطالبے سے مطابقت رکھتا ہے کہ امریکہ صرف دہشتگردی کے خلاف  تعاون کے بجائے تجارت اور سرمایہ کاری  میں تعاون کو آگے بڑھائے۔ واشنگٹن کا یہ اعتراف کہ دو طرفہ تعلقات میں زیادہ تر توجہ افغانستان میں امریکی سلامتی کے خدشات پر رہی ہے، یہ تجویز کرتا ہے اب وہ وقت آگیا ہے کہ جب پاک امریکہ تعلقات کو بدلتی ہوئی جغرافیائی سیاسیات کی حقیقتوں کے مطابق ڈھالا جائے۔ پس اب امریکہ کو پاکستان کے ہمراہ تجارت، سرمایہ کاری، آلودگی سے پاک توانائی، صحت، سلامتی اور تعلیم کے شعبے میں تعاون کی حمایت کرنی چاہیے۔

تعلقات کے بارے میں شکوک و شبہات کے باوجود پاکستان اور امریکہ کے درمیان معاشی تعلقات گزشتہ برس کے دوران بہتر ہوئے ہیں۔ ۲۰۲۱ کے دوران پاکستان میں امریکی سرمایہ کاری میں گزشتہ برس کے مقابلے میں ۵۰ فیصد اضافہ ہوا جس کے نتیجے میں  گزشتہ ایک دہائی کے دوران پاکستان میں امریکی سرمایہ کاری بلند ترین سطح پر پہنچ گئی۔ امریکی کمپنیاں بھی پاکستانی ہم منصبوں  کے ہمراہ کام سے فائدہ اٹھاتی ہیں۔ امریکی کمپنیاں اور ان سے ملحقہ مقامی ادارے پاکستان میں سب سے زیادہ ملازمین کے حامل اداروں میں شامل  ہیں جو براہ راست ۱۲۰،۰۰۰ سے زائد پاکستانیوں کو ملازمت فراہم کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ ۵۵۰،۰۰۰ سے زائد نفوس پر مشتمل رنگا رنگ اور کامیاب ترین پاکستانی امریکن کمیونٹی دونوں ممالک کے درمیان پل کا کام کرتی ہے۔ سرمایہ کاری کی بنیاد پر بڑھتے تعلقات اور کثیرالفریقی ملاقاتیں  امریکہ اور پاکستان کے درمیان دو طرفہ بات چیت میں اضافے کی حوصلہ افزائی کا امکان رکھتی ہیں۔

رفتار برقرار رکھنا

اکثریت کا خیال تھا کہ پاکستان میں حالیہ سیاسی ابتری اور واشنگٹن کی جانب سے حالیہ کچھ عرصے میں روابط میں تاریخی کمی کی وجہ سے واشنگٹن اور اسلام آباد کے درمیان تعلقات تلخی کا شکار رہیں گے۔ پاک امریکہ تعلقات میں آنے والے بہت سے اتارچڑھاؤ متعدد مثبت پیش رفتوں پر چھائے رہے جس کی وجہ سے دونوں ممالک کے درمیان دوریوں اور بدگمانیوں کے سلسلے وسیع ہوتے گئے۔

کچھ دیگر پیچیدگیاں جیسا کہ امریکہ اور چین کے مابین عظیم قوت کے مقابلے نے بھی ان تعلقات کو آلودہ کرنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ امریکی خارجہ پالیسی کے لہجے میں تبدیلی محض واشنگٹن یا اسلام آباد میں ہونے والے واقعات کا ردعمل نہیں بلکہ یہ تیزی سے بڑھتے پاک چین تعلقات کے بارے میں واشنگٹن کے حساب کتاب کی جانب بھی اشارہ ہے۔ اس کے علاوہ یوکرین میں جنگ پر بھارتی ردعمل نے واشنگٹن میں امریکہ بھارت شراکت داری کی پائیداری پر سوال کھڑے کیے ہیں جو کہ پاکستان کے ہمراہ دو طرفہ تعلقات پر بھی اثرانداز ہو سکتے ہیں۔ مزید براں، پاکستان کے لیے  ایف ۱۶ لڑاکا طیاروں کی دیکھ بھال کے ضمن میں ۴۵۰ کروڑ ڈالر مالیتی منصوبہ شروع کرنے کی پیشکش اگرچہ پالیسی میں کسی بڑی تبدیلی کا اشارہ نہیں ہے لیکن اس کے باوجود یہ بھارت کی جانب سے  تنقید کا سبب بنا۔

امریکہ کی نئی قومی سلامتی حکمت عملی، پاکستان کے ہمراہ روابط کے اپنے تاریخی محور سے ہٹتی ہوئی اور انڈوپیسفیک پر زیادہ توجہ دیتی دکھائی دیتی ہے، جس سے پاک امریکہ تعلقات کے مستقبل پر ایک سوالیہ نشان لگ چکا ہے۔ عظیم طاقتوں کے مقابلے کے  جامع امریکی فریم ورک سے دوطرفہ تعلقات کو علیحدہ رکھنا دونوں ہی ممالک کے لیے آسان نہ ہوگا۔ تاہم دو طرفہ تعاون کو وسعت دینے کے لیے مختلف شعبہ جات کی نشاندہی آنے والی طویل مدت کے لیے ایک حل ہو سکتی ہے۔ اس سب کے باوجود بھی پاکستان کو واضح طور پر نظرانداز کرنے کا عمل یہ ظاہر کرتا ہے کہ دو طرفہ تعلقات کو حیات نو بخشنے کا معاملہ  دونوں ممالک میں سیاسی تبدیلیوں سے متاثر ہونے کا اندیشہ رکھتا ہے۔

تعلقات کو مثبت سمت میں آگے بڑھانے پر پاکستان اور امریکہ دونوں جانب کے بیانات خوش آئند ہیں لیکن  مستقبل پر نظریں جمانے کے اس سفر کو برقرار رکھنے اور بیانات کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے دونوں جانب سے مسلسل کوششوں کی ضرورت ہے۔ بلوم کی تقریر کو پاک امریکہ تعلقات کو نئی توانائی فراہم کرنے کے لیے ایک سنگ میل کے طور پر دیکھا جانا چاہیے اور اس کے تحت ہمہ گیریت کی حامل معاشی پیداوار، ماحول دوست توانائی کی پالیسیوں اور جمہوریت کی بقا کے لیے کام کیا جائے۔ دو طرفہ تعلقات کے لیے ڈونلڈ بلوم اور وزیراعظم شہباز شریف کی تقریروں پر توجہ دینا، پہلے سے موجود فوائد کو مزید موثر بنانے اور تعاون کے لیے کلیدی شعبوں کی وضاحت انتہائی اہم ہے۔ اب وہ وقت آچکا ہے کہ جب پاکستان اور امریکہ اپنے اپنے ملکوں کو درپیش مسائل بشمول ماحولیاتی تبدیلی تعلیم اور ٹیکنالوجی پر تعاون کریں، ایسے میں پاکستان کو موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی معیشت کے لیے سرمایہ دار دوست پالیسیوں کا نفاذ کرنا چاہیے۔

***

Click here to read this article in English.

Image 1: U.S. Department of State via Flickr

Image 2: USAID via Flickr

 

Share this:  

Related articles