EQvQuezXkAYVIGk-1024×616

جن میں پاکستان کے وزیراعظم عمران خان اور ترکی کے صدر رجب طیب اردگان کی قیادت میں مسلسل بہتری آئی ہے۔ صدر اردگان نے اپنے دو روزہ دورہ اسلام آباد کے دوران ۱۴ فروری ۲۰۲۱ کو پاکستان کی پارلیمان سے خطاب کیا تھا – اس طرح وہ پاکستان کی پارلیمنٹ سے چوتھی بار خطاب کرنے والے پہلے غیرملکی سربراہ مملکت بن گئے؛ اپنے خطاب میں صدر اردگان نے اس پائیدار دو طرفہ تعلقات کی تاریخ پر زور دیا۔

خان کی خارجہ پالیسی خاص کر سلامتی اور دفاعی تعاون میں ترکی نے نمایاں کردار ادا کرنا شروع کردیا ہے۔ لیکن ترکی فقط  دفاعی شراکت دار کے کردار سے آگے بڑھ سکتا ہے اور اسے بڑھنا بھی چاہیے۔ خان کی حکومت نے تیزی سے بڑھتے ہوئے ان دوطرفہ تعلقات میں پوشیدہ معاشی صلاحیتوں کو پوری طرح نہیں کھولا ہے۔ باہمی فائدہ مند اس شعبے سے بھرپور مستفید ہونے کے لیے پاکستان کو اپنے دفاعی اہداف کے ساتھ ساتھ معاشی اہداف کو ترجیح دینے کی ضرورت ہوگی۔ یہ عمل اگرچہ دشوار ہوسکتا ہے تاہم پاکستان کو مشکلات سے دوچار معیشت کا مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک ایسی خارجہ پالیسی جو معاشی اہداف کو ترجیح دے، وہ نہ صرف ضروری ہے بلکہ پاکستان کی دیرپا کامیابی کے لیے انتہائی اہم بھی ہے۔

دو طرفہ دفاعی تعلقات

دونوں ممالک کی مشترکہ مسلم شناخت کا پاکستان ترکی دفاعی تعاون سے گہرا تعلق ہے۔ دونوں ریاستیں سیکولر قائدین محمد علی جناح اور مصطفیٰ کمال اتاترک کے ہاتھوں قائم ہوئی تھیں جنہوں نے اسلام، آئینی حقوق اور گورننس کے اختلاط پر گہرا غوروفکر کیا ۔ برطانوی سامراج اور استبداد کے خلاف دونوں کی باہمی لڑائی کی تاریخ ۱۹۱۹ سے شروع ہوتی ہے جب برصغیر کے مسلمانوں نے جنگ عظیم اول سے قبل کی سلطنت عثمانیہ کی سرحدوں کی بحالی کے لیے تحریک خلافت کا آغاز کیا۔

۱۱ ستمبر۲۰۱۱ کے حملوں کے بعد دہشتگردی کیخلاف عالمی جنگ کے آغاز سے پاکستان اور ترکی کے درمیان  تعاون تین امور کے گرد گھومتا ہے: دہشتگردی کا مقابلہ، افغانستان میں  امریکہ کی جنگ اور دیرپا دفاعی تعاون۔  پاکستان اور ترکی دونوں مقامی اور بین الاقوامی دونوں طرح کی دہشتگردی سے بخوبی واقف ہیں کیونکہ دونوں ملک علیحدگی پسند تحریکوں سے مسلسل نبردآزما ہیں؛ پاکستان میں بلوچوں کی اور ترکی میں کردوں کی تحریک۔ پاکستان اور ترکی نے افغانستان کے ہمراہ  مشترکہ فوجی مشقوں اوردہشتگردوں کی سرگرمیوں کے بارے میں انٹیلی جنس معلومات کے تبادلے پرکام کرنے کے لیے پاکستان افغانستان ترکی سہہ فریقی اجلاسوں میں بھی شرکت کی ہے۔

پاکستانی اور ترک دفاعی و حکومتی اراکین کے مابین پاکستان میں لڑاکا طیارے اور میزائل کی تیاری کے سلسلے میں بھی اعلیٰ سطحی مذاکرات منعقد ہوئے ہیں تاہم ابھی اس پر اتفاق نہیں ہوا ہے۔ ۲۰۱۸ میں پاکستان نے ترک دفاعی کمپنی کے ہمراہ کراچی شپ یارڈ کی تاریخ کے سب سے بڑے جنگی جہاز کی تیاری کے لیے بھی معاونت کی تھی۔ سب سے بڑھ کے دسمبر ۲۰۲۰ میں پاکستان کے سیکرٹری دفاع اور ترک فوج کے جنرل کے مابین ترکی پاکستان اعلیٰ سطحی مذاکراتی سیشن کے بعد یہ اطلاعات سامنے آئیں کہ ترکی جوہری ہتھیاروں کے حصول و تیاری کے لیے پاکستان کی مدد لینا چاہتا ہے۔ اسلحے کی تیاری کے علاوہ دونوں ممالک ٹیکنالوجی کے شعبے میں بھی تعاون کرتے رہے ہیں- ٹرکش ایرواسپیس انڈسٹریز نے پاکستان کی نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں تحقیق و ترقی کے لیے ایک شعبہ قائم کیا ہے جو سائبرسیکیورٹی، ڈرونز کی نگرانی اور راڈار ٹیکنالوجی پر کام کرے گا۔

پاکستان اور ترکی نے دنیا بھر کے مسلمانوں کے حقوق کی جنگ لڑنے کا بھی مسلسل دعویٰ کیا ہے اور اسی طرح حتیٰ کہ ایک دوسرے کے علاقائی تنازعوں میں بھی حمایت کی ہے۔ مثال کے طور پر پاکستان دنیا کا وہ واحد ملک ہے جو آرمینیا کو آزاد ریاست کے طور پر تسلیم نہیں کرتا ہے۔ پاکستان، ترک اتحادی آزربائیجان کی جانب سے ناگورنو- کربخ کے متنازعہ علاقے پر دعوے کی بھی حمایت کرتا ہے۔ درحقیقت جنوری ۲۰۲۱ میں پاکستان، ترکی اور آزربائیجان کے وزرائے خارجہ نے مذاکرات کیے اور بالترتیب کشمیر، قبرص اور ناگورنو- کربخ پر اپنے دعووں کی حمایت میں ایک مشترکہ بیان جاری کیا تھا۔ وزیراعظم خان نے بھی کردوں کے حوالے سے پاکستانی موقف کو برقرار رکھا ہے اور شام میں کرد فوجوں کے خلاف ترکی جارحیت کی حمایت کی ہے۔ جواب میں ترکی کھلم کھلا کشمیر کی اتنی حمایت کرتا ہے کہ وہ بھارت کو برہم کرتی ہے کیونکہ وہ کشمیر کو اندرونی معاملہ قرار دیتا ہے اور اردگان کی حمایت کو ”کھلے عام مداخلت“ قرار دیتا ہے۔ ستمبر۲۰۲۰ میں صدراردگان کے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے خطاب کی وزیراعظم خان نے تعریف کی؛ انہوں نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی جانب سے بھارتی زیرانتظام کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے  کے ایک سال بعد  کشمیر کو ”ایک سلگتا ہوا تنازعہ“ قرار دیا تھا۔ دونوں ممالک نے فلسطین کے تنازعے کی بھی بھرپورحمایت کی ہے اور اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی فورمز پر بارہا اعلان کیا ہے کہ وہ کسی ایسے سیاسی تصفیے کی حمایت نہیں کرتے جو فلسطینی عوام کی حمایت نہ کرتا ہو۔

معاشی تعلقات کی ترجیح

علاقائی تنازعوں پر دفاعی تعاون اورسفارتی حمایت اگرچہ پاکستان کی علاقائی سلامتی صورتحال کو بہتر بناتے ہیں، تاہم یہ پاکستان کے اصل المیے کو دور کرنے یعنی کہ سکڑتی ہوئی معیشت میں مدد نہیں کرتے ہیں۔ پاکستان کی معاشی دشواریاں وزیراعظم خان کی داخلی و خارجہ پالیسیوں پر چھائی رہی ہیں؛ وہ پریشانیاں جو کووڈ ۱۹ کی وبا سے مزید دوچند ہوچکی ہیں۔ خان کی معاشی پالیسیوں اور منصوبوں کے ناقدین کی کوئی کمی نہیں ہے اور اصلاحات کے لیے مطالبات کی صدا مسلسل بلند تر ہورہی ہے۔ پاکستان کی معشیت کو بہتر بنانے کی وزیراعظم خان کی جدوجہد کا ایک حصہ پڑوسی اور علاقائی شراکت داروں پر توجہ دینا رہا ہےاور حال ہی میں ترکی نے اس منصوبے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔

جنوری ۲۰۲۱ میں خان نے ترک وزیرخارجہ میولوت چاوش اوغلو سے ملاقات کے بارے میں ایک بیان جاری کیا جس میں دونوں ممالک کی جانب سے تجارتی تعلقات کے لیے عزم کا اعادہ کیا گیا تھا اور پاکستان میں ترک کمپنیوں کی جانب سے سرمایہ کاری میں ۱ بلین ڈالر سے زیادہ کے اضافے پر روشنی ڈالی گئی تھی۔ فروری ۲۰۲۱ میں صدر اردگان کے پاکستان کے دورے کے دوران دونوں ممالک نے تزویراتی معاشی فریم ورک کے معاہدے پر دستخط کیے جس کے تحت سائنس اور ٹیکنالوجی، دفاع، سیاحت، تعلیم اور صحت کے شعبوں میں تعاون کیا جائے گا۔ پاکستان ترکی فری ٹریڈ ایگریمنٹ (ایف ٹی اے) پر ابھی کام  جاری ہے، ساتھ ہی ساتھ پاکستان ایران ترکی کارگو ٹرین سروس کی بحالی پر بھی بات چیت ہورہی ہے تاکہ ان پڑوسیوں کے درمیان مصنوعات کی ترسیل کو آسان بنایا جاسکے ۔ تاہم اس حوالے سے خدشات ابھی موجود ہیں کہ یہ تینوں ممالک اس منصوبے کے اخراجات کیسے برداشت کریں گے۔ سیاحوں اور کاروباری افراد کی نقل و حرکت میں سہولت کے لیے دونوں ممالک گزشتہ برس ایک سٹیزن شپ معاہدے پر بھی دستخط کر چکے ہیں اور پاکستان نے اس برس ای ویزہ کی سہولت کا آغاز کیا ہے۔

حالیہ معاشی پیش رفتوں کے باوجود بھی دوطرفہ مساوات کے اس بنیادی پہلو کو مزید ترجیح بنانے کے لیے پاکستان کو اضافی اقدامات کرنا ہوں گے۔ ترکی کے ہمراہ فی الوقت جاری منصوبوں جیسا کہ ٹرانس افغان ریلوے منصوبہ، کاسا -۱۰۰۰، اور ترکمانستان-افغانستان-پاکستان-بھارت (تاپی) گیس پائپ لائن منصوبے کی کامیابی سے تکمیل پاکستان کی مغربی ایشیا اور یورپ کے ہمراہ روابط میں نمایاں بہتری لاسکتے ہیں۔ترکی کے وزیرخارجہ نے حال ہی میں بیان دیا تھا کہ ۸۰۰ ملین ڈالر مالیتی دوطرفہ تجارت ناکافی ہے اور اسے اس کی اصل حیثیت کے مطابق بڑھانے کی ضرورت ہے۔ خان کی حکومت کو چاہیئے کہ وہ ترک کمپنیوں کو سی پیک کے منصوبوں میں شامل کرے، خاص کر وہ جو توانائی اور انفراسٹرکچر کے شعبے میں ہیں۔ صحافی جمال خشوگی کے قتل کے بعد ترکی سعودی عرب تعلقات میں آنے والے زوال کے پیش نظر،  سعودی عرب سے تعلقات میں بگاڑ آسکتا ہے  تاہم  سعودی عرب سی پیک میں خود اپنی سرمایہ کاری کو دیکھتے ہوئے پاکستان کے ہمراہ کسی اختلاف کو دعوت دینے سے گریز کرے گا۔ علاوہ ازیں، دونوں ممالک کو ایف ٹی اے پر رضامند ہوجانا چاہیئے جو باہمی فائدے کے حامل انفراسٹرکچر اور غیرملکی سرمایہ کاری کے لیے محرک ثابت ہوگا۔ چونکہ دونوں ممالک بیتاب ہیں کہ ان کی عوام کے درمیان تعلق پیدا ہوسکے، اس کے لیے انہیں بھی چاہیئے کہ زیادہ سے زیادہ عوام سے عوام کے تبادلے کے موقع پیدا کریں جیسا کہ اسٹوڈنٹ ایکسچینج پروگرام، سرکاری و نجی شعبے کی شراکت داری پر اجلاس اور کاروباری سرگرمیوں کے آغاز کے لیے ورکشاپس وغیرہ۔

مستقبل پر نظریں

تجارت، معاشی شراکت داری، ترقیاتی منصوبوں اور سیاحت کا احاطہ کرتے معاشی تعاون کو ترجیح دینے کے لیے ضروری نہیں کہ پاکستان اپنے سلامتی اہداف کو ترک کردے یا ترکی کے ہمراہ اپنے دفاعی تعلقات کو کمزور کرڈالے۔ اس کے برعکس اس ادراک کی ضرورت ہے کہ ملک کی خارجہ پالیسی ایجنڈے پر از سرنوغور کے لیے معاشی ضروریات بھی اسی قدر اہم ہیں جس قدر کہ دفاعی ضروریات لازم ہیں، خاص کر ترکی جیسے علاقائی اتحادیوں کے ہمراہ روابط کے قیام کے وقت۔ وزیراعظم خان پہلے ہی داخلی معاشی اصلاحات کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے ۲۵ رکنی معاشی مشاورتی کونسل (ای اے سی) کی تشکیل نو کرچکے ہیں۔ وزیرمعیشت کے بجائے وزیراعظم خان  ای اے سی کی سربراہی کریں گے۔

پاکستان کے معاشی اہداف کو دفاعی اہداف تک بڑھانا فہم کے برعکس اور حتیٰ کہ بعض کو غیرذمہ دارانہ بھی محسوس ہوسکتا ہے۔ باوجود اس کے کہ پاکستان ایک خطرناک پڑوسی کے ساتھ رہتا ہے جو مسلسل دفاعی تعاون کا متقاضی ہے،  پاکستان کی کمزور پڑتی معیشت کو ترجیح بنائے جانے کی ضرورت ہے۔ بالفاظ دیگر پاکستان کی معاشی دشواریاں فقط ایک داخلی مسئلہ نہیں رہا ہے بلکہ ایک خارجہ پالیسی چیلنج کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ اس امر کو دیکھتے ہوئے کہ ترکی ایک ایسا قریبی اتحادی ہے کہ جس کے صدر اردگان چار مرتبہ پارلیمنٹ سے خطاب کرچکے ہیں، دو طرفہ تعلقات میں ایک معاشی جہت کی تلاش قابل فہم ہے۔ البتہ یہ دیکھنا ابھی باقی ہے کہ آیا خان حکومت بین الاقوامی تعلقات کو قومی سلامتی کے راویے سے دیکھنے کے بجائے اسکی ترتیب نو کرپاتی ہے۔



***

Click here to read this article in English.

Image 1: Pakistan PMO via Twitter

Share this:  

Related articles

کواڈ کو انڈو پیسیفک میں جوہری خطروں سے نمٹنا ہو گا Hindi & Urdu

کواڈ کو انڈو پیسیفک میں جوہری خطروں سے نمٹنا ہو گا

کواڈ کے نام سے معروف چار فریقی سیکیورٹی ڈائیلاگ کے…

بھارت اور امریکہ کی دفاعی شراکت داری  کے لئے رکاوٹیں اور مواقع  Hindi & Urdu

بھارت اور امریکہ کی دفاعی شراکت داری  کے لئے رکاوٹیں اور مواقع 


سرد جنگ کے دوران جغرافیائی سیاسی نقطہ نظر میں اختلافات…

پلوامہ – بالاکوٹ پانچ برس بعد جائزہ Hindi & Urdu

پلوامہ – بالاکوٹ پانچ برس بعد جائزہ

لمحۂ موجود میں پاکستان، بھارت کے تزویراتی بیانیے سے تقریباً…