Satsop Nuclear Power Plant
Elma, Washington

پاکستان پر منڈلاتا معاشی بحران توانائی کی کمی کی وجہ سے مزید شدت اختیار کررہا ہے۔ پاکستان  کے قومی گرڈ کی ناکافی صلاحیت اور دستیاب توانائی کے غیرذمہ دارانہ استعمال کے سبب پاکستان نے ۲۰۱۲ سے ۲۰۱۷ کے درمیان معاشی پیداوار میں سالانہ اوسطاً ۹.۳۸ ملین ڈالر کا نقصان اٹھایا ہے۔ فی الوقت پاکستان میں بجلی کی زیادہ تر پیداوار کا انحصار تیل اور قدرتی گیس پر ہے جس کی وجہ سے پاکستان کو توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لیئے بھاری پیمانے پر درآمدات کرنا پڑ رہی ہیں۔

ایسے وقت میں  جب کہ پاکستان رکازی ایندھن ( فوسل فیولز) پر انحصار میں کمی کیلئے کوشاں ہے، پن بجلی و دیگر دوبارہ قابل استعمال ذرائع توانائی کے ساتھ ساتھ جوہری توانائی پاکستان کو ایک صاف ستھری متبادل توانائی کا ذریعہ فراہم کرتی ہے۔ فی الوقت جوہری توانائی پاکستان کے کل انرجی مکس (بجلی کی پیداوار کیلئے استعمال ہونے والے  تمام توانائی کے ذرائع) کا محض ۶.۸۱ فیصد ہے، اور یہ قومی گرڈ کو ۱۳۱۸ میگا واٹ بجلی فراہم کرتی ہے۔ پاکستان چین کے  تعاون سے اپنے توانائی کے بحران کو حل کرنے کیلئے  کوشاں ہے جو کہ سولین مقاصد کیلئے جوہری توانائی کے شعبے میں پاکستان کا تاریخی شراکت دار رہا ہے۔

پاک چین تعاون: تاریخ اور محرکات

 پاکستان کا جوہری پروگرام ۱۹۵۴ میں شروع ہوا جو کہ بڑی حد تک امریکی صدر ڈوائٹ آئزن ہاور کی دسمبر ۱۹۵۳ کی تقریر “امن کیلئے ایٹم”  سے متاثرہ تھا، جس میں انہوں نے زراعت، ادویات اور توانائی کی پیداوار کے شعبے میں جوہری توانائی کے پرامن استعمال کو فروغ دینے پر زور دیا تھا۔ ۱۹۵۹ تک، پاکستان اٹامک انرجی کمیشن (پی اے ای سی) کینیڈین جنرل الیکٹرک کمپنی کے ہمراہ کراچی میں ۱۳۷ میگا واٹ کے حامل جوہری ری ایکٹر کی تعمیر کے معاہدے پر دستخط کرچکا تھا۔  کراچی نیوکلیئر پاور پلانٹ-1 (کینپ1 یا کے۔1) نے ۱۹۷۲ میں بین الاقوامی ایجنسی برائے جوہری توانائی آئی اے ای اے کے وضع کردہ حفاظتی اصولوں کے مطابق اپنی تجارتی سرگرمی کا آغاز کردیا تھا۔

تاہم ۱۹۷۴ میں جب بھارت نے کینیڈا کے فراہم کردہ سائیرس ری ایکٹر کے ذریعے پلوٹونیم کو استعمال کرتے ہوئے “پرامن جوہری دھماکہ” کیا تو کینیڈا نے محض ان ممالک کو جوہری ٹیکنالوجی فروخت کرنے کا اعلان کردیا جنہوں نے یا تو جوہری توانائی کے عدم پھیلاؤ کے معاہدے این پی ٹی پر دستخط کر رکھے تھے یا پھروہ آئی اے ای اے کے طے کردہ مکمل سیفگارڈز اصول جو آئی اے ای اے کو سویلین اور فوجی جوہری تنصیبات کے معائنے کا اختیار دیتے ہیں، کو قبول کرچکے تھے۔  ان شرائط کو قبول کرنے سے  بھارتی انکار کے بعد پاکستان نے بھی بھارتی نقش قدم پر چلنے کا فیصلہ کیا، جس پر کینیڈا نے ۱۹۷۶ میں نئی دہلی اور اسلام آباد کے ساتھ جوہری توانائی کے شعبے میں تعاون کے سلسلے کو منقطع کردیا۔

۱۹۷۰ کی دہائی کے اواخر میں چین نے پاکستان کے غیر فوجی جوہری توانائی کے منصوبے کیلئے باقاعدہ معاونت شروع کی۔ ۱۹۶۰ کی دہائی میں دونوں ممالک کے مابین تزویراتی میدان سے شروع ہونے والا تعاون اب غیر فوجی جوہری تعاون کی صورت میں تھا جس کے اصل محرک معیشت اور جغرافیائی تزویرات تھے۔ جہاں اسلام آباد ملک بھر میں بجلی کی کمی کو پورا کرنے کیلئے اپنے ادھورے جوہری توانائی منصوبے کیلئے معاونت کا متمنی تھا، وہیں بیجنگ، بھارت کے مقابلے میں طاقت کے توازن کیلئے  حکمت عملی کے طور پاکستان کو جنوبی ایشیا میں اپنے تزویراتی شراکت دار کے طور پرتیار کرنا چاہتا تھا ۔

غیر فوجی جوہری توانائی کے شعبے میں دونوں ممالک کے مابین تعاون کے آغاز سے ہی چین نے جوہری بجلی گھروں کی تعمیر میں معاونت کے ذریعے سے، پاکستان کی جوہری توانائی کی ٹیکنالوجی کو بہتر بنانے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے ۔ ستمبر ۱۹۸۶ میں چین اور پاکستان کے مابین غیر فوجی جوہری توانائی کی منتقلی میں مدد فراہم کرنے کے معاہدے پر دستخط ہوئے۔ معاہدے کے تحت، چین نے پاور ری ایکٹرز سمیت جوہری توانائی سے متعلقہ متعدد مصنوعات اور خدمات جیسا کہ یورنیم کی افزودگی کیلئے تحقیق و تکنیکی مدد وغیرہ کے ضمن میں سہولیات فراہم کرنے پر رضامندی ظاہر کی۔ اس معاہدے نے نہ صرف صنعتی اور تکنیکی میدان میں صلاحیتوں میں اضافے کے ذریعے سے پاکستانی معاشی پیداوارکے اضافے میں اہم کردار کیا بلکہ اس کے ذریعے سے پاکستان کی توانائی کی ضروریات اور اسکی دستیابی کے مابین فرق کو کم کرنے میں بھی کردار ادا کیا۔

۱۹۸۶ کے معاہدے کے بعد، ۱۹۹۱ میں چین نے مقامی طور پر تیار کردہ کنشان-1 جوہری توانائی گھر سے سپلائی فراہم کرنے پر رضامندی ظاہر کی۔ چشمہ جوہری توانائی گھر1 ( چشنپ1 یا سی۔1) کی تعمیر ۱۹۹۳ میں شروع ہوئی  اور ۳۰۰ میگا واٹ کی پیداواری صلاحیت کے حامل ری ایکٹر نے مئی ۲۰۰۰ میں باقاعدہ کام شروع کردیا۔ ۲۰۰۵ میں پاکستان نے اعلان کیا کہ وہ چشمہ کے مقام پر ایک اور ۳۰۰ میگا واٹ کی پیداواری صلاحیت کے حامل بجلی گھر سی۔2 کی تعمیر شروع کرے گا، جس سے ۲۰۱۱ میں پیداوار کا عمل شروع ہوا۔

توانائی کے میدان میں طلب اور رسد کے مابین فرق کو مزید کم کرنے کیلئے چائنہ نیشنل نیوکلیئر کارپوریشن  (سی این این سی) اور پی اے ای سی کے مابین چشمہ کے مقام پر مزید دو جوہری ری ایکٹرز لگانے پر اتفاق ہوا۔ دونوں نئے ری ایکٹرز سی۔3 اور سی۔4 کی کل پیداواری صلاحیت ۳۱۴ میگاواٹ ہے اور یہ بالترتیب ۲۰۱۶ اور ۲۰۱۷ سے فعال ہیں۔ بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ پاک چین جوہری تعاون میں مزید وسعت جس کے نتیجے میں سی۔3 اور سی۔4 کی تعمیر عمل میں آئی، دراصل ۲۰۰۸ میں امریکہ- بھارت غیر فوجی جوہری معاہدے کا ردعمل تھا۔ امریکہ بھارت جوہری معاہدے کے نتیجے میں نیوکلیئر سپلائرز گروپ ( این ایس جی) نے غیر فوجی جوہری ٹیکنالوجی کی  منتقلی کیلئے بھارت کو خصوصی طور پر رعایت دی تھی۔ اس پس منظر میں، پاکستان نے اس معاہدے پر تنقید کی تھی اور یہ موقف اپنایا تھا کہ یہ خصوصی رعایت متعصبانہ اور جنوبی ایشیا میں توازن کو بگاڑنے کا سبب ہے۔ پاکستان اس یقین کے ساتھ کہ وہ جوہری شعبے کے تحفظ و سلامتی کیلئے اعلیٰ ترین سطح کے ضابطوں اور قانونی ڈھانچوں کے نفاذ پر عمل پیرا اور ادارہ جاتی طریقہ کارپرکاربند ہے، اپنے غیر فوجی جوہری توانائی کے منصوبے میں عالمی تعاون کا خواہاں تھا۔ اسلام آباد کے مطابق، دونوں نئے ری ایکٹرز پاکستان کی توانائی کی ضروریات کوپورا کرنے کا ایک ذریعہ تھے۔

۲۰۱۳ میں چین-پاکستان نے کراچی میں دو نئے جوہری بجلی گھروں- کراچی نیوکلیئر پاور پلانٹ 2 ( کے۔2) اور کراچی نیوکلیئر پاور پلانٹ 3 ( کے۔3) جس میں سے ہر ایک ۱۰۱۴ میگا واٹ پیداوار کی صلاحیت کا حامل ہے، کی تعمیر کا اعلان کیا۔ دونوں یونٹس ( کے۔2 اور کے۔3) کی تعمیر کا کام جاری ہے، تاہم منصوبے کے مطابق دونوں یونٹس ۲۰۲۰ اور ۲۰۲۱ میں پیداوار شروع کردیں گے۔ فی الوقت فعال پانچ بجلی گھروں ( کے-1، سی-1، سی-2، سی-3 اور سی -4) کی صلاحیت ۱۳۱۸ میگاواٹ ہے۔ کے۔2 اورکے۔3 کے اضافے سے امید ہے کہ پاکستان ۲۰۲۲ تک جوہری توانائی کے ذریعے سے ۳۳۴۶ میگاواٹ بجلی پیداکررہا ہوگا۔

این ایس جی کی ہدایات برائے تجارت پر بحث

این ایس جی اڑتالیس ممالک کی حکومتوں پر مشتمل ہے جو جوہری اور اس سے متعلقہ برآمدات کی نگرانی کرتی ہیں تاکہ این پی ٹی کے وضع کردہ عدم پھیلاؤ کے اصول پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جاسکے۔ اس کیلئے گروپ کا مطالبہ ہوتا ہے کہ این ایس جی کے کسی بھی رکن کی جانب سے کسی ریاست کو جوہری ٹیکنالوجی کی فروخت کی صورت میں یقینی بنایا جائے کہ  وہ ریاست این پی ٹی کی فریق ہو اور وہ اپنی جوہری سرگرمیاں تمام تر حفاظتی ضابطوں کے تحت کرے۔ چین نے ۲۰۰۴ میں این ایس جی میں شمولیت اختیار کی تھی اور پاکستان این ایس جی کا ممبر بننے کا خواہشمند ہے۔

این ایس جی اس امر سے اتفاق کرتا ہے کہ چین کی جانب سے  این ایس جی کا حصہ بننے سے قبل پاکستان کو فراہم کئے گئے سی-1 اور سی-2 جوہری ری ایکٹرز کا معاملہ اس کی مرتب کردہ تجارتی ہدایات کے دائرہ کار میں نہیں آتا۔ تاہم، بعض بیانات کے مطابق این ایس جی کے کچھ رکن ممالک نے  اضافی ری ایکٹرز کی تعمیر کے سلسلے میں حکومت پاکستان سے چین کی معاونت پر تشویش ظاہر کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چین کی جانب سے اس اعلان پرکہ وہ پاکستان کو۲۰۱۰ میں دو اضافی ری ایکٹرز اور ۲۰۱۳ میں مزید دو ری ایکٹرز فراہم کرے گا، این ایس جی کے ارکان کو یہ اعتراض اٹھانے کا موقع ملا کہ چین  پاکستان کو ری ایکٹرز کی فروخت جاری رکھ کے این ایس جی کی تجارتی ہدایات کی خلاف ورزی کا مرتکب ہورہا ہے۔ این ایس جی کا اعتراض دو نکتوں پر مشتمل ہے۔ اول یہ کہ، مبینہ طور پر چین نے ۲۰۰۴ میں جب این ایس جی میں شمولیت اختیار کی تو اس نے پاکستان کو مزید ری ایکٹرز کی فروخت کے وعدے سے این ایس جی کو آگاہ نہیں کیا۔ اور دوئم یہ کہ این ایس جی کے اصولوں میں ۲۰۰۶ میں کی گئی ایک نئی وضاحت کے بعد سے رکن ریاستوں کیلئے لازم ہے کہ وہ استثنیٰ کی شق کے تحت مستقبل کے حوالے سے اپنے وعدوں کیلئے دستاویزی ثبوت فراہم کریں گی۔ اس تبدیلی کے بعد سے این ایس جی کے بعض شرکاء کا ماننا ہے کہ چین نے نئے ری ایکٹرز کی فروخت کیلئے حاصل استثنیٰ کے بارے میں دستاویزی ثبوت این ایس جی کو فراہم نہیں کئے۔

چین اور پاکستان کا مستقل موقف ہے کہ نئے جوہری ری ایکٹرز، چین کی این ایس جی سے وابستگی سے قبل ۱۹۸۶ میں دستخط ہونے والے جوہری معاہدے کا حصہ ہیں۔ دونوں ریاستیں یہ دلیل دیتی ہیں کہ چشمہ اور کراچی میں تازہ ترین ری ایکٹر یونٹس پرانے جوہری معاہدے کا نتیجہ اور آئی اے ای اے کے حفاظتی اصولوں کے تحت ہیں، لہذا یہ این ایس جی کے اصولوں اور ضابطوں کی خلاف ورزی نہیں۔ جہاں تک اضافی معاہدوں کا تعلق ہے تو چین نے ۲۰۱۱ میں کہا تھا کہ وہ ۲۰۰۴ میں آئی اے ای اے کو اضافی پروٹوکولز کے تحت  نئے ری ایکٹرز کی فراہمی کو حاصل استثنیٰ کے بارے میں دستاویزی ثبوت کی فراہمی کے موقع پر مستقبل میں پاکستان کے ساتھ جاری رہنے والے جوہری تعاون کے بارے میں بتا چکا ہے۔ اس قانونی اقدام کے ذریعے سے چین اور پاکستان یہ دلیل دیتے ہیں کہ نئے ری ایکٹرز عدم پھیلاؤ کی پابندی کی خلاف ورزی نہیں کیونکہ نئے ری ایکٹرز آئی اے ای اے کے مرتب کردہ حفاظتی اقدمات کے مطابق ہیں اور انکا واحد مقصد غیر فوجی استعمال ہے۔

تعاون کا مستقبل

بڑھتے ہوئے توانائی کے بحران اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی معاشی مشکلات سے  جان چھڑانے کی  مسلسل کوشش میں مصروف پاکستان کی خواہش ہے کہ وہ اپنی کل توانائی کی پیداوار میں جوہری توانائی اور دیگر دوبارہ قابل استعمال ذرائع کے کردار کو بڑھاسکے۔ پاکستان ۲۰۳۰ تک جوہری توانائی سے ۸۸۰۰ میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کیلئے پرعزم ہے جس کے بعد ملک کی کل توانائی کا بیس فیصد حصہ جوہری توانائی پر مشتمل ہوگا۔ اس کے حصول کیلئے چین اور پاکستان نومبر ۲۰۱۷ میں چشمہ پر پانچواں جوہری بجلی گھر (سی۔5) تعمیر کرنے پر رضامند ہوچکے ہیں۔ سی5 پر تعمیراتی کام کا آغاز اگرچہ ابھی نہیں ہوا ہے، تاہم امید ہے کہ تکمیل پر نیا ری ایکٹر نیشنل گرڈ میں ۱۰۰۰ میگاواٹ بجلی مہیا کرے گا۔ باوجود اس امر کے کہ جوہری توانائی پاکستان کو دستیاب کل توانائی کے چھوٹے سے حصے پر مبنی ہے، جوہری توانائی کی پیداوار میں اضافے اور اسے توانائی کے دیگر دوبارہ قابل استعمال ذرائع سے لا ملانے سے نہ صرف پاکستان اپنے توانائی کے بحران پر قابو پاسکتا ہے بلکہ ماحول پر بھی مثبت اثرات مرتب کرسکتا ہے۔  

***

Click here to read this article in English.

Image 1: Tony Webster via Flickr

Image 2: Pakistan Atomic Energy Commission

Share this:  

Related articles

Political Incentives Will Determine the Next India-Pakistan Missile Agreement Nuclear Issues

Political Incentives Will Determine the Next India-Pakistan Missile Agreement

March 9, 2024, marked two years since an Indian BrahMos…

Agni-V: The New MIRV Race in South Asia Nuclear Issues

Agni-V: The New MIRV Race in South Asia

On March 11, 2024, India’s Defense Research and Development Organization…

Once Again, Concerns Arise About China-Pakistan WMD Nexus Nuclear Issues

Once Again, Concerns Arise About China-Pakistan WMD Nexus

A few days ago, an Indian news agency, Press Trust…