52748814684_3c67c36ca8_k-1095×616-1

اس وقت بین الاقوامی تعلقات عملِ تغیر سے گزر رہے ہیں کیونکہ  ٹیکنالوجی اور خارجہ پالیسی  کا ایک دوسرے سے اتصال بکثرت  ہو رہا ہے۔ وسیع  پیمانے پر پھیلتی ہوئی تکنیکی قوتوں نے بنیادی سماجی تبدیلیاں لائیں، حکومتوں کو جدت طرازی پر مجبور کیا اور حکومتوں اور شہریوں کے باہمی تعامل کے لئے نئے طرزِنظر کی ترغیب دی۔ اس رجحان کو بیان کرنے کے لیے ہر روز کیچ فریزز (زبانِ زدِ عام ہونے والے جُملے) سامنے آ رہے ہیں، جیسے ‘ٹیک ڈپلومیسی یا ٹیک پلومیسی’، ‘سائبر ڈپلومیسی‘، اور ‘ڈیجیٹل ڈپلومیسی‘ وغیرہ۔ گزشتہ برسوں کے دوران ہندوستان نے ٹیکنالوجی کو اپنی سفارتی رسائی کے بنیادی اصول کے طور پر اپنایا ہے اور اس کے باعث ایک عظیم طاقت کے طور پر اُبھرا ہے۔ ایک مضبوط ڈیجیٹل پبلک انفراسٹرکچر اور ملک بھر میں وسیع پیمانے پر ڈیجیٹل سہولیات تک رسائی کے ساتھ، یہ ایک عالمی سنگِ میل قائم کر رہا ہے۔ اگرچہ ہندوستان ٹیکنالوجی کے تعاون  کے ذریعے بے شمار فوائد پیش کرتا ہے، لیکن اندرونِ ملک سیاسی عوامل، ہندوستان کی ترقی کو ٹیکنالوجی کے ذریعے آگے بڑھانے کی حد کو محدود ترکر سکتے ہیں۔

ہندوستان کی ٹیک ڈپلومیسی

ہندوستانی حکومت بڑی جان فشانی سے ٹیکنالوجی کو مختلف سفارتی معاہدوں  میں، بالخصوص مستحکم تکنیکی قوّتوں کے ساتھ، ضم کر رہی ہے۔ مثلاََ، مئی ۲۰۲۲ میں ٹوکیو میں کواڈ  میٹینگ کی اضافی مصروفیت کے موقع پر، امریکی صدر جو بائیڈن اور ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی نے مل کر کریٹیکل اینڈ ایمرجنگ  ٹیکنالوجی (آئی سی ای ٹی) پر امریکہ-ہندوستان کے تقدم  کا اعلان کیا۔ آئی سی ای ٹی مرکز کے اہم نکات میں اے آئی (آرٹیفشل انٹیلیجنس) جیسے شعبوں میں تعاون، سیمی کنڈکٹر ایکو سسٹم کی ترویج میں  تعاون، ۵ جی اور ۶ جی کی ترقی پر تعاون کو آگے بڑھانا اور ہندوستان میں اوپن آر اے این (اوپن ریڈیو ایکسیس نیٹ ورک) ٹیکنالوجی کو مستعمل کرنا شامل ہے۔

جون ۲۰۲۳ میں امریکہ کے اپنے سرکاری دورے کے دوران وزیر اعظم مودی نے اعلان کیا تھا کہ “… ہمارا مقصد اس دہائی کو ٹیکیڈ – ٹیک ڈیکیڈ  (ٹیکنالوجی کی دہائی) بنانا ہے۔‘‘  قابل ذکر ہے کہ وزیر اعظم کے دورے سے پہلے امریکہ میں ہندوستان کے سفیر ترنجیت سنگھ ساندھو نے واشنگٹن میں سالانہ انڈیا آئیڈیاز سمٹ سے خطاب کرتے ہوئے واضح طور پر کہا تھا کہ  “…جو قوّت اس تعلق  اور عالمی فلاح و بہبود کو مضبوط تر  بنانے والی  ہے، وہ درحقیقت ٹیکنالوجی ہے۔ یہ تعلقات کے ضمن میں حقیقی صلاحیتیں کھولنے  کی شاہ  چابی (ماسٹر کی) ہے۔۔۔۔ٹیک، میرے نزدیک ، اعتماد سے قوّت پاتا ہے۔ یہ اتنا ہی تزویرانی ہے، جتنا کہ  تاجرانہ۔

مزید برآں، حال ہی میں  بنگلورو میں انڈین پریزیڈنسی کی سربراہی میں منعقدہ جی ۲۰ ڈیجیٹل اکنامک منسٹیریل میٹنگ کے دوران دیرپا ترقیاتی اہداف کے تعجیل کار ( ایکسلیریٹر ) کے طور پر ڈیجیٹل پبلک انفراسٹرکچر (ڈی پی آئی) کو تشکیل دینے کے لئے قابل میکانزم تیار کرنے پر  تقدمی اتفاق رائے حاصل کیا گیا۔  میٹنگ کے دوران پہلی بار ڈی پی آئی کی واضح حد بندی کو ممالک نے اجتماعی طور پر تسلیم کیا۔ اس پیش رفت کے ساتھ ساتھ، ‘ون فیوچر الائنس’ (او ایف اے) کے قیام کے لئے ہندوستانی صدر کی تجویز  کا  (یو این ڈی پی اور اس کے تکنیکی شراکت داروں  کی حمایت سے) جی ۲۰ ڈیجیٹل وزراء نے مثبت طور پر خیر مقدم کیا۔ مجوزہ اتحاد کا مقصد حکومت سے لے کر نجی شعبے، تعلیمی اداروں، تحقیقی اداروں، ڈونر ایجنسیوں اور سول سوسائٹی کی تنظیموں سمیت تمام متعلقہ اسٹیک ہولڈرز کو اکٹھا کرنا ہے تاکہ ڈی پی آئی ایکو سسٹم  کو فروغ دینے کے لیے عالمی کوششوں میں ہم آہنگی پیدا کی جا سکے۔

 ای یو (یورپی یونین )انڈیا ٹریڈ اینڈ ٹیکنالوجی کونسل (ٹی ٹی سی) کی تشکیل بھی ہندوستان کی سود مند ٹیک ڈپلومیسی کے نقطہ نظر سے قابل ذکر ہے۔ اپریل ۲۰۲۲ میں یورپی کمیشن کے صدر اور بھارتی وزیر اعظم نے مشترکہ طور پر نئی دہلی میں اپنی ملاقات میں ٹی ٹی سی کے آغاز  پر اتفاق کیا تھا۔ انہوں نے بالآخر واضح کیا کہ کونسل کافی حد تک “اسٹریٹیجک کوآرڈینیشن میکانزم” کے طور پر کام کرے گی، جس میں دونوں شراکت دار تجارت، ٹیکنالوجی، اعتماد اور سلامتی سے متعلقہ مشکلات سے خوش اسلوبی سے نمٹیں گے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ پہلا موقع تھا جب ہندوستان نے اپنے کسی بیرونی شراکت دار کے ساتھ مل کر اس طرح کی کونسل قائم کرنے کے لئے  پیش رفت کی۔ کونسل کی تشکیل کے بعد یورپی یونین اور ہندوستان نے مئی ۲۰۲۳ میں برسلز میں اپنی پہلی ٹی ٹی سی منسٹیریل میٹنگ کی۔ اس ابتدائی ملاقات کے اہم نتائج  یہ تھے کہ دونوں شراکت داروں نے “کوانٹم  اینڈ ہائی پرفارمنس کمپیوٹنگ ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ پروجیکٹس”اور “قابل اعتماد  آرٹیفشل انٹیلیجنس” پر تعاون حاصل کرنے پر اتفاق کیا، اور اتفاق کیا کہ وہ اسٹریٹیجک سیمی کنڈکٹر کے ارد گرد اپنی پالیسیوں کو مربوط کریں گے۔

ان اہم پیشرفتوں کی روشنی میں، یہ واضح ہے کہ ٹیک ڈپلومیسی ہندوستان کے لئے ایک محرک قوت بن گئی ہے جس کے ذریعے وہ تکنیکی جدت طرازی اور جغرافیائی اقتصادی ترقی کے درمیان تعلق  کی استعداد کو پانے کی کوشش کرتا ہے۔ ملک کے اندر عالمی ٹیکنالوجی کاروباروں کی قابل ذکر موجودگی اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے میں بڑے  پیمانے پر براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کے بہاؤ کے ساتھ، ہندوستان ٹیکنالوجی کے شعبے میں عالمی اقتصادی تعاون کو مضبوط بنانے پر بہت زیادہ توجہ مرکوز کر رہا ہے۔  یہ گلوبل ساؤتھ (عالمی طرقی پزیر ممالک) اور سمال آئلنڈ ڈیویلوپنگ سٹیٹس (ایس آئی ڈی ایس) کے غیر منسلک علاقوں میں جدید ٹیکنالوجی کے فوائد کو پھیلانے کی طرف بھی ناقابل یقین حد تک مائل ہے۔

اس کے علاوہ، اپنی تکنیکی-اسٹریٹیجک پالیسی ہدایات کو ڈھالنے کے لئے ہندوستان کی وزارت خارجہ نے ۲۰۲۰ میں وزارت کے اندر تکنیکی طور پر کچھ خصوصی ڈویژن بنائے، جیسا کہ سائبر ڈپلومیسی ڈویژن، ای گورننس اور انفارمیشن ٹیکنالوجی ڈویژن، اور نیو ایمرجنگ اینڈ اسٹریٹیجک ٹیکنالوجیز ڈویژن (این ای ایس ٹی ڈویژن)۔ سب سے اہم تر  یہ کہ این ای ایس ٹی ڈویژن نے، جو ٹیکنالوجی گورننس کے قواعد، معیارات اور تعمیر سے متعلق ہے، ہندوستان کو گلوبل پارٹنرشپ  آن آرٹیفشل انٹیلیجنس (جی پی اے آئی) اور انٹرنیشنل ریسرچ سینٹر آن آرٹیفشل انٹیلی جنس (آئی آر سی اے آئی) کے بانی رکن کے طور پر شامل ہونے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔طویل عرصے تک خدمات انجام دینے والے

نئی ڈیجیٹل قانون سازی اور آنے والے خدشات

اگرچہ ہندوستان یقینی طور پر ٹیکنالوجی کے اس لمحے سے فائدہ اٹھا رہا ہے ، لیکن اس کے باوجود وہ اس بات سے آگاہ ہے کہ رابطے کو ٹیکنالوجی میں لوگوں کے اعتماد اور یقین کے ساتھ ہم آہنگ ہونا چاہئے، جو اکثر غیر روایتی ڈیزائن ، تیز رفتاری اور آسان رسائی (فنگر ٹِپ ایکسس) کی وجہ سے پریشان کن اور خطرناک ہوسکتا ہے۔ اس سلسلے میں  بنیادی طور پر توجہ مناسب حفاظتی اقدامات کو بہتر بنانے اور ریگولیٹری میکانزم کو شامل کرنے پر مرکوز ہے۔

حال ہی میں ہندوستان ڈیجیٹل پرسنل ڈیٹا پروٹیکشن ایکٹ (ڈی پی ڈی پی ایکٹ) لے کر آیا ہے، جس کا مقصد افراد کے ذاتی ڈیٹا کو قانونی طور پر محفوظ کرنا ہے اور اگر ضرورت ہو تو ڈیٹا پرنسپل (جس شخص سے ذاتی ڈیٹا تعلق رکھتا ہے) کی رضامندی کی بنیاد پر قانونی مقاصد کے لئے اس طرح کے ذاتی ڈیٹا پر کارروائی کرنا ہے۔ تاہم سرکاری اورنجی مفادات کی خاطر ذاتی معلومات کو زیادہ شفاف بنانے کی بنیاد پر اس قانون کو سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اس پر انفارمیشن ٹیکنالوجی ایکٹ اور رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ کی اہم دفعات میں مبہم ترمیم کرنے اور  تحکمانہ  طور پر ایگزیکٹو  کے تحت ایک غیر شفاف ڈیٹا پروٹیکشن بورڈ تشکیل دینے پر بھی تنقید کی گئی۔

اس کے ساتھ ہی مرکزی کابینہ نے نئے ٹیلی کام بل ۲۰۲۳ کو ہری جھنڈی دِکھائی، جس کا مقصد اُبھرتے ہوئے چیلنجز  اور سازگار مواقع کے  پیش نظر ٹیلی کمیونیکیشنز سیکٹر کے “قانونی اور ریگولیٹری فریم ورک” کی تشکیل نو کرنا ہے، اور ٹیلی کمیونیکیشن خدمات کے دائرہ کار کو بڑھاکر “او ٹی ٹی، براڈ بینڈ، انٹرنیٹ پر مبنی اور سیٹلائٹ پر مبنی مواصلاتی خدمات”  کو شامل کرنا ہے۔  ایک بار پھر، مؤثر نگرانی کے میکانزم، او ٹی ٹی مواصلاتی خدمات کی واضح تعریف، اور لائسنسنگ کے دائرہ کار اور طریقہ کار میں وضاحت کی کمی پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ لہٰذا حکومت کے لیے ضروری ہے کہ وہ حقیقی عوامی دلائل اور خدشات پر سنجیدگی  سے دھیان دیتے ہوئے ان رکاوٹوں کو دور کرے۔ ایک ایسی انفارمیشن سوسائٹی میں جہاں گمراہ کُن معلومات اور ڈیپ فیکس ( ڈیجیٹل دھاندلی)  کا پھیلاؤ عام ہوتا جا رہا ہے، اساسی قوانین کے تقدس اور اخلاقیات کو برقرار رکھنا اہم تر ہے۔ 

مستقبلات

اگرچہ ہندوستان اپنی ‘ٹیک پلومیسی’  کی حکمت عملیوں کی بدولت ترقی پا رہا ہے، لیکن اسے دیرپا فوائد حاصل کرنے  کے لئے ایک جامع عملی فریم ورک تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ ملکی سطح پر اہم اور اُبھرتی ہوئی ٹیکنالوجیوں کے بڑے  پیمانے پر اطلاق سے پہلے، ان کے اطلاق سے متعلق  ایک باقاعدہ جانچ کی ضرورت ہے۔ مثال کے طور پر ہندوستان کو معاشرے میں آرٹیفشل انٹیلیجنس سسٹم کے ذمہ دارانہ اور منصفانہ استعمال کے بارے میں زیادہ صحیح تر بحث و مبادلے  کی ضرورت ہے۔

عالمی محاذ پر ہندوستان بلا شبہ مساوی، مشمولہ، لچکدار، محفوظ اور دیرپا ٹیکنالوجی پر مبنی ترقی کے خیال کی قیادت کرنے میں نمایاں کردار ادا کر رہا ہے۔ تاہم  ڈیجیٹل جغرافیائی سیاست کے بدلتے ہوئے منظر نامے کے تناظر میں آسٹریلیا، ڈنمارک، فرانس اور سوئٹزرلینڈ جیسے متعدد ممالک نے “جامع ڈیجیٹل خارجہ پالیسی کی حکمت عملی” کو اپنایا ہے۔ ڈنمارک نے ۲۰۱۷ میں تاریخ رقم کی جب اس نے ایک طویل عرصے سے خدمات انجام دینے والے سفارت کار کیسپر کلینج کو دنیا کا پہلا ٹیک سفیر مقرر کیا۔ جون ۲۰۲۲ میں امریکی محکمہ دفاع نے چیف ڈیجیٹل اینڈ آرٹیفشل انٹیلی جنس آفس (سی ڈی اے او) قائم کیا۔ مئی ۲۰۲۲ میں آئرلینڈ نے ڈاکٹر  پیٹریشیا سکینلون کو حکومت کی قومی اے آئی حکمت عملی کو مضبوط بنانے کے لئے اپنے پہلے اے آئی سفیر کے طور پر مقرر کیا۔ ہندوستان کو اس کی پیروی کرنی چاہیئے اور ٹیکنالوجی کو اپنے سفارتی  امتیازی نشان کے طور پر پُہنچانے کے لئے غور کرنا چاہیئے۔ ایک ایسے وقت میں جب ٹیکنالوجی کے جارحانہ رجحانات میں اضافہ ہو رہا ہے اور ہمسایہ ملک چین ڈیجیٹل سِلک روڈ منصوبے کو خارجہ پالیسی کی ایک عظیم ترجیح بنا کر ایک نئی ڈیجیٹل معیشت کو فروغ دے رہا ہے، ہندوستان کو اپنے طرزِنظر میں زیادہ محتاط لیکن متحرک ہونے کی ضرورت ہے۔

***

Click here to read this article in English.

Image 1: PM Modi at G20 summit 2023 via Flickr

Image 2: India-US Roundtable on iCET via Flickr

 

Share this:  

Related articles

पर्वतों से समुद्री तटों तक: गलवान के पश्चात् भारत-चीन प्रतिस्पर्धा Hindi & Urdu
جنوبی ایشیا میں بائیڈن کے ورثہ کا جائزہ Hindi & Urdu

جنوبی ایشیا میں بائیڈن کے ورثہ کا جائزہ

ریاستہائے متحدہ امریکہ ، 20 ویں صدی کے وسط سے…

سی پیک کو بچانے کے لیے، پاکستان کی چین پالیسی میں اصلاح کی ضرورت ہے Hindi & Urdu

سی پیک کو بچانے کے لیے، پاکستان کی چین پالیسی میں اصلاح کی ضرورت ہے

پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف رواں ماہ کے اوائل میں صدر شی جن پنگ اور دیگر اعلیٰ چینی حکام سے ملاقاتوں کے بعد تقریباََ خالی ہاتھ وطن واپس پہنچ گئے ہیں۔ چین نے واضح انضباطِ اوقات ( ٹائم لائن) کے تحت پاکستان میں بڑے منصوبوں کے لئے سرمایہ کاری کا وعدہ نہیں کیا۔ اس […]