Flags_of_Afghanistan

طالبان کو بے دخل کرنے والی افغانستان بون کانفرنس کے انعقاد کے دو دہائی بعد افغان باشندوں کے مستقبل کا فیصلہ ایک بار پھر ایک غیرملکی اجلاس پر منحصر ہے، اس بار یہ اجلاس استنبول، ترکی میں ہونے کا امکان ہے۔ ایک طرف جہاں عام افغان شہریوں کا نہ تو امن بات چیت کے مندرجات طے کرنے میں کوئی کردار ہے اور نہ ہی مذاکراتی عمل میں ان کی ترجمانی ہورہی ہے، وہیں افغانستان کے سیاسی مستقبل کے بارے میں کسی معاہدے پر پہنچنے کے لیے  افغان حکام اور طالبان کو اقوام متحدہ کے زیرنگرانی ایک ساتھ آنے کی دعوت دی گئی ہے۔ صدر جوبائیڈن کے ۱۱ ستمبر تک امریکی فوجی نکالنے کے حالیہ فیصلہ نے اس ضمن میں مزید بے یقینی کو جنم دیا ہے کہ آیا طالبان آنے والے اجلاس میں شرکت کریں گے۔ خواہ استنبول ہو یا کہیں اور، ایسے فریقوں کے مابین ایک معاہدے پر پہنچنا کسی چیلنج سے کم نہ ہوگا جو خالصتاً اپنی حکومت چاہتے ہیں۔ ۲۰۰۱ میں اقتدار سے نکالے گئے طالبان زیادہ طاقت، افرادی قوت، لڑائی کی صلاحیت، علاقے اور بین الافغان مذاکراتی میز پر واضح بالادست حیثیت کے ساتھ  ابھر کے سامنے آئے ہیں۔ فی الوقت جب افغانستان نئی خانہ جنگی کے دہانے پر ہے، فریقین نے لفظ ”امن“ کا غلط استعمال کیا ہے اور اسے خالی خولی ایک نعرہ بنا دیا ہے۔ عالمی برداری کوتشدد کے صحیح معنوں میں خاتمے اور سب کی شمولیت کی حامل ایک ذمہ دار حکومت  کی خاطر فریقین پر زیادہ سے زیادہ دباؤ ڈالنا ہوگا۔

کامیاب اجلاسوں سے اعلامیوں سے عاری اجتماعات تک

افغانستان تقریباً دو دہائیوں تک مالی امداد کیلئے کامیاب بین الاقوامی اجلاسوں اور ترقیاتی مد میں اربوں کی امداد سے فیض اٹھاتا رہا ہے۔ اس کے باوجود، افغان مشن کے حوالے سے عالمی موقف بتدریج تبدیل ہوا ہے۔ جنگ کے دو دہائیوں تک کھچ جانے سے افغان بچیوں کے لیے اسکولوں کی تعمیر، جمہوریت کی ترویج، قوم کی تعمیر اور دہشت گردی کیخلاف جنگ کے بارے میں ابتدائی بیانیے نے اپنی آب و تاب کھو دی۔ افغان حکومت بذات خود بدعنوانی کیخلاف لڑائی میں ناکام رہی ہے جبکہ افغانستان کا ہر صدارتی انتخاب دھوکہ دہی کی دلدل میں دھنسا ہوا پایا گیا نیز کابل کی اشرافیہ قوم پرستی اور سیاسی ایجنڈوں کے ذریعے افغانوں کو مزید تقسیم کرتی رہی ۔ جب امریکی عسکری قیادت اس نتیجے تک پہنچی کہ  افغانستان میں جنگ جیتنے کا کوئی فوجی راستہ موجود نہیں، داخلی سطح پر عوام کے دباؤ نے یہ مطالبہ شروع کردیا کہ طویل ترین امریکی جنگ کا خاتمہ کیا جائے۔ ان عناصر – مع افغان حکام کی واشنگٹن کے بااعتماد ساتھی کے طور پر کردار ادا کرنے میں نااہلی – نے امریکہ طالبان یکطرفہ معاہدے کو جنم دیا جس نے امریکہ کیلئے اس کے فوجی واپس نکالنے کیلئے راہ ہموار کی۔ ایک طرف جہاں امریکہ واپسی کے عمل کو شروع کررہا ہے، ایک اور ”امن“ اجلاس انعقاد کے عمل میں ہے۔

امن قافلہ،“ دوہا سے ماسکو اور پھر استنبول

آنے والی استنبول کانفرنس، امریکہ طالبان معاہدے کے بعد سے تیسرے بین الافغان مذاکرات ہوں گے۔ قیدیوں کے تبادلے پر عدم اتفاق کی وجہ سے طویل عرصے تک التواء کے بعد پہلا اجلاس ستمبر ۲۰۲۰ میں دوہا میں منعقد ہوا تھا۔ دونوں فریق اگرچہ مذاکرات کیلئے بنیادی اصولوں پر ابتداً رضامند ہوگئے، لیکن افغان حکومتی وفد اور طالبان سیاسی تصفیے کے لیے کسی اتفاق رائے تک پہنچنے میں ناکام رہے۔

طالبان نے افغان حکومت کی سیزفائر منصوبے کو رد کیا جبکہ افغان حکومت نے مذاکرات میں تاخیر کو نومبر میں امریکی انتخابات تک ملتوی  کرنے کے لیے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔ صدر اشرف غنی امید کر رہے تھے کہ  واشنگٹن میں اقتدار کی تبدیلی کے ساتھ ہی صدر ٹرمپ کے پیش رو امریکہ طالبان معاہدے کو ختم کردیں گے۔ مگر بائیڈن حکومت کے زیر تحت واشنگٹن نے بڑی حد تک سابقہ لائحہ عمل کو برقرار رکھا اور افغان حکومت پر زور دیا  کہ وہ طالبان کے لیے مذاکرات کا دروازہ کھلا رکھیں۔

امریکی وزیرخارجہ اینٹونی بلنکن نے ایک غیرمعمولی خط میں صدر اشرف غنی کو سخت الفاظ میں خبردار کیا  کہ ریاست کے پاس مستقبل کیلئے واحد راستہ طالبان کے ہمراہ شراکت اقتدار پر مبنی حکومت ہوگا۔  اس خط نے مارچ ۲۰۲۰ میں ماسکو میں منعقد ہونے والے دوسرے بین الافغان مذاکرات کو جنم دیا۔ تکڑی پر مشتمل یہ تقریب ایک اور اعلیٰ سطحی ملاقات تھی لیکن خواتین کے حقوق کے معاملے پر سمجھوتے پر ختم ہوئی۔ اب ایسا دکھائی دیتا ہے کہ واشنگٹن اپنا ضبط کھو چکا ہے اور وہ چاہے گا کہ استنبول اجلاس  افغان حکومت اور طالبان کے درمیان سیاسی تصفیے پر منتج ہو۔

کون کیا چاہتا ہے؟

عمومی اعتبار سے، بین الاقوامی امن اجلاس طویل دورانیے کے کثیرالفریقی تنازعات کو سلجھانے کے لیے مناسب مقام نہیں ہوتے ہیں۔ کسی بھی معاہدے پر دستخط سے قبل  تنازعے کے فریقوں کو براہ راست بات چیت پر تیار کرنے میں بالعموم برسوں پر مشتمل پس پردہ بات چیت کارفرما ہوتی ہے۔ افغانستان کے معاملے میں، امن عمل اس بنا پر بھی پیچیدہ ہوجاتا ہے کہ افغانستان کی حکمران جماعتوں میں اندرونی طور پر بھی ربط نہیں پایا جاتا ہے۔ افغان رہنما اندرونی طور پر تقسیم ہیں اور مستقبل کے لائحہ عمل پر اتفاق نہیں کرتے ہیں۔ صدر غنی برائے نام ”جمہوریہ“ کو برقرار رکھنے کو ترجیح دیتے ہیں جو درحقیقت ایک بدعنوان مرکزی نظام ہے جو  انکے اقتدار کو مزید مستحکم بناتا ہے۔ ان کے سابقہ انتخابی حریف ڈاکٹرعبداللہ عبداللہ اور ان کا شمالی اتحاد عدم مرکزیت کے نظام کو ترجیح دیتے ہیں۔  حزب اختلاف کی جماعتیں جن میں سابق صدر حامد کرزئی شمار ہوتے ہیں، ماضی کے متعدد عہدیداروں کی حمایت یافتہ ایک عبوری حکومت کیلئے رائے ہموار کررہے ہیں۔ دریں اثنا طالبان برائے نام ”بین الافغان مذاکراتی میز“ پربیٹھنے کے بارے میں سوچ بچار کے ساتھ ساتھ طالبان حکومت کے دوبارہ قیام کے مخالفین کے خلاف بشمول صحافیوں اور سول سوسائٹی اراکین، پر تشدد حربے جاری رکھے ہوئے ہیں۔

استنبول میں آئندہ دنوں کی جانے والی ملاقات کے بارے میں ایک اور پیچیدہ عنصر، اورجو کہ درحقیقت تمام افغانستان اجلاسوں کے بارے میں ہے، وہ یہ ہے کہ بشمول میزبان تمام جماعتیں حریفانہ محرکات اور محدود دلچسپیاں رکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر صدر اشرف غنی اپنے تین مراحل پر مشتمل امن منصوبے کے ذریعے پہلے ہی یہ اشارہ دے چکے ہیں کہ وہ طالبان کے ہمراہ شراکت اقتدار یا انتخابات کے بغیر عہدے سے علیحدگی کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے ہیں۔ بہرحال غنی بڑی حد تک واشنگٹن کی معاشی امداد کی وجہ سے اقتدار میں ہیں اور ان کے پاس ایک ایسے اجلاس میں شرکت کے سوا کوئی چارہ نہیں جو ان کے اختیارات کو کم کرسکتا ہے۔

طالبان جو بلاشرکت غیرے حکمرانی چاہتے ہیں اور امریکہ و نیٹو افواج کے افغانستان سے باہر نکلنے پر کابل حکومت کو بذریعہ عسکریت شکست دینے کی امید کرتے ہیں، استنبول اجلاس کو پہلے ہی مسترد کرچکے ہیں اور واشنگٹن پر دوہا معاہدہ توڑنے کا الزام عائد کرچکے ہیں۔ طالبان جہاں واشنگٹن کی زیرقیادت شراکت اقتدار کے منصوبے پر اجلاس میں اپنی شرکت کو ملتوی کرنے کے لیے کوشاں ہیں وہیں وہ مستقبل میں عالمی سطح پر تسلیم کیے جانے یا معاشی امداد کی خاطر اقوام متحدہ اور امریکی بیک چینلز تک رسائی بھی کررہے ہیں۔

امریکہ بھی افغانستان میں اپنے مستقبل کے کردار کے حوالے سے تذبذب کا شکار ہے۔ ستمبر میں انخلاء کے اعلان کے باوجود یہ واضح نہیں ہے کہ آیا صدر بائیڈن بعدازاں افغانستان میں دہشتگردی سے نمٹنے کے لیے مشن تعینات کریں گے جس کا انہوں نے ۲۰۲۰ کی اپنی صدارتی مہم کے دوران وعدہ کیا تھا۔ یہ بھی واضح نہیں ہے کہ اگر طالبان نے استنبول کانفرنس کو نظرانداز کیا یا باقی ماندہ امریکی فوجیوں کیخلاف تشدد کے نئے سلسلے کو شروع کیا تو امریکہ کیا کرے گا۔

واشنگٹن میں پالیسی ساز حلقے مستقبل میں افغانستان میں امریکی کردار اور اسکے ممکنہ طور پر طالبان کی  حکومت میں چلے جانے پر واضح طور پر تقسیم کا شکار ہیں۔ امریکی وفد کو ان تمام عوامل بشمول افغانستان سے انخلاء کے نتائج کے بارے میں تازہ ترین انٹیلی جنس خدشات کو مدنظر رکھنا چاہیے۔

اجلاس کے میزبان یا منتظمین میں سے بھی کوئی ایک بھی غیرجانبدار منصف نہیں ہے۔ منتظمین جہاں ”افغانستان کی زیرقیادت-افغانستان کا اپنا“ امن عمل کا نعرہ استعمال کررہے ہیں، وہیں وہ خود ہی ہیں جو یہ طے کررہے ہیں کہ کس کو مدعو کیا جائے اور کن موضوعات پر گفت وشنید کی جائے۔ ماسکو نے قبل ازیں ذاتی مفادات کی بنا پر اجلاس کی میزبانی کی تھی، وہ افغانستان میں امریکی اثرورسوخ میں کمی اور اپنے عمل دخل کو بڑھانا چاہتا ہے۔ علاوہ ازیں استنبول علیحدہ سے امریکہ سے اپنے تعلقات بحال کرنا چاہتا ہے جو ٹرمپ کے دور صدارت میں ابتری کا شکار ہوگئے تھے۔ یہ رجحان تمام علاقائی قوتوں میں پایا جاتا ہے، جو خود سے متعلقہ جغرافیائی سیاسی مفادات کی بنیاد پر افغانستان کے سیاسی مستقبل پر منقسم ہیں۔

کیا ممکن ہے، اور کیا کیے جانے کی ضرورت ہے؟

اجلاس ایک ایسے تنازعے کا نامناسب حل ہیں جسے دس بڑے عالمی تنازعوں میں سرفہرست گنا جاتا ہے، جس کی جڑیں داخلی معاشرتی اخلاقیاتی اختلافات میں پیوست ہیں اور جو علاقائی بڑی طاقتوں کی حرکیات سے متاثر ہے۔ تاہم ذیل میں مندرجہ عوامل فریقین کو درست سمت میں دھکیل سکتے ہیں۔ سب سے پہلے تو امریکہ کو افغانستان چھوڑنے سے قبل طالبان اور افغان حکومت کو مذاکرات کی میزپرواپس لانا چاہیے۔ دوئم، امن محض ذاتی مفادات کے ایجنڈے کی پردہ پوشی کیلئے فقط لفاظی نہیں بلکہ مشترکہ حتمی ہدف ہونا چاہیے۔ سوئم، افغان حکومت اور طالبان میں مفاہمت پر توجہ کے ذریعے امریکہ کو اپنی ناکام عسکری حکمت عملی کی جگہ متحرک سفارت کاری اپنانا چاہیے۔ چہارم، افغان اکثریت کی آواز، خاص کر خواتین اور اقلیت جو نہ تو افغان بدعنوان حکومت کا حصہ ہیں اور نہ طالبان کی مذہبی آمریت پر مبنی نظریات پر یقین رکھتے ہیں، انہیں بعد از استنبول پالیسی کی تیاری کے مراحل میں لازمی شامل کیا جانا چاہیے۔ پنجم، امریکہ کو دیگر بین الاقوامی کرداروں کے ہمراہ اپنی معاشی و سیاسی قوت استعمال میں لانی چاہیے تاکہ افغان حکومت اور طالبان کو ایک نئی عبوری شراکت اقتدار والی حکومت کے لیے مذاکرات پر مجبور کیا جا سکے۔

سب سے آخر میں یہ کہ آنے والا اجلاس ایک بار پھر سیز فائر پر معاہدہ طے پانے سے قبل ختم نہیں ہونا چاہیے۔ ایسے وقت میں کہ جب امن سے زیادہ اپنی طاقت میں دلچسپی رکھنے والی کابل کی بدعنوان اشرافیہ، سابق جنگجو اور طالبان کے اراکین دکھاوے کے لیے اجلاس میں شریک ہورہے ہیں، ایسے میں نصف صدی تک خونی تنازعے کا سامنا کرنے والے عام افغان مزید تکالیف کے متحمل نہیں ہوسکتے ۔ دنیا ۱۹۹۱ کی خانہ جنگی میں ایک بار افغانستان کو کھوچکی ہے، اب ۲۰۲۱ میں اسے اس کو دوبارہ نہیں کھونا چاہیے۔

***

.Click here to read this article in English

Image 1: Wikimedia Commons

Image 2: Anadolu Agency via Getty Images

Share this:  

Related articles