حال ہی میں قائم ہونے والا پاک چین فضائی مال برداری کا راستہ (ایئر کارگو روٹ) پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) میں ایک اہم اضافہ ہے۔آغاز میں ۶۵ بلین امریکی ڈالر سے زائد کی یقین دہانی اور ۲۰۱۴ سے مزید ۲۵.۴ بلین امریکی ڈالر کی براہ راست سرمایہ کاری کے ساتھ سی پیک دونوں ممالک کے بڑھتے ہوئے دوطرفہ تعلقات کے لیے بنیادی اہمیت کا حامل ہے اور اس نے پاکستان، چین اور آس پاس کے علاقوں میں معاشی ترقی کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ فضائی مال برداری کا راستہ (ایئر فریٹ روٹ) نہ صرف اقتصادی تعلقات کو مضبوط بناتاہے بلکہ حکمتِ عملی میں تبدیلی کی بھی نشاندہی کرتا ہے۔ اس حالیہ پیش رفت کے ساتھ چین نے ایک ایسے سی پیک منصوبے کو ترجیح دی ہے جس کا مقصد نقل و حمل کے مربوط نیٹ ورکس کے تنوع کے ذریعے اپنے علاقائی تعلقات کو مضبوط بنانا ہے۔ تاہم اس راستے کی مکمل اقتصادی اور تزویراتی اہلیت تک پہنچنے میں نقل و حمل سے متعلقہ متعدد رکاوٹیں حائل ہیں۔
ایژؤ۔لاہور راستے کے فراہم کردہ مواقع
مال برداری کا یہ نیا فضائی راستہ (ایئر کارگو روٹ) سرحد پار تجارت کی رفتار اور کارکردگی کو نمایاں طور پر بہتر بنا سکتا ہے اور تعاون، جدت طرازی اور معاشی انضمام کو فروغ دے سکتا ہے۔ ایژؤ-لاہور فضائی راستہ ہفتہ میں تین بار استعمال کیا جائے گا، جس میں ہفتہ وار ۳۰۰ ٹن سے زیادہ مال کی فضائی ترسیل کی گنجائش میسر ہے۔ یہ راستہ چین اور پاکستان کے درمیان تجارتی کاروبار کو اعتماد کے ساتھ آسان بنانے کی یقین دہانی فراہم کرتاہے جبکہ پاکستانی منڈی میں توسیع کی خواہاں چینی کمپنیوں کو نقل و حمل کے برتر وسائل (لاجسٹک سپورٹ ) کی فراہمی کی پیشکش بھی کرتا ہے۔
فضائی مال برداری (ایئر کارگو) عالمی تجارت میں ایک اہم کردار ادا کرتی ہے ، جو کُل مالیت کےتقریباََ ۳۵ فیصد حصے کی ترسیل کرتی ہے، جو حجم کے ایک فیصد سے بھی کم ہے۔ وہ ممالک جن کے پاس فضائی مال برداری کے قائم شدہ بہتر روابط موجود ہیں وہ عالمی ویلیو چین کا حصہ بننے کے لئے زیادہ بہتر مقام پر ہیں، جیسا کہ متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کے دبئی بین الاقوامی ہوائی اڈے اور سنگاپور کے چنگی ہوائی اڈے کے معاملے میں دیکھا گیا ہے۔اسی طرح اگر پاکستان اس راستے کو مؤثر طریقے سے استعمال کرتا ہے تو وہ عالمی سپلائی چین میں اپنی پوزیشن کو بہتر بنا سکے گا۔ ایژؤ۔لاہور فضائی مال برداری کا راستہ پاکستان کو عالمی سپلائی چین کے جال میں زیادہ فعال شراکت دار کے طور پر پیش کرنے کی جانب ایک ابتدائی سنگ میل ثابت ہونے کی یقین دہانی پیش کرتا ہے۔
فضائی نقل و حمل کا شعبہ پاکستان کی جی ڈی پی میں ۲ بلین امریکی ڈالر کا حصہ ڈالتا ہے اور اس سے کہیں زیادہ حصہ ڈالنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔اس وقت پاکستان میں فضائی نقل و حمل کی صنعت روزگار کے خاطر خواہ مواقع فراہم کرتی ہے جس سے پانچ لاکھ سے زائد براہ راست اور بالواسطہ ملازمتیں فراہم ہوتی ہیں۔ یہ پیشے کئی شعبوں جیسے ایئر لائنز، ہوائی اڈوں کے انتظامی اُمور، سپلائی چین کا انتظام و انصرام اور سیاحت سے متعلقہ خدمات پر محیط ہیں۔ عالمی انجمنِ فضائی نقل و حمل (انٹرنیشنل ایئر ٹرانسپورٹ ایسوسی ایشن )کو توقع ہے کہ اگلے ۲۰ سالوں میں پاکستان میں فضائی نقل و حمل میں ۱۸۴ فیصد تک اضافہ ہوگا، جس کے نتیجے میں ایک اندازے کے مطابق ۲۰۳۸ تک ۲۲.۸ ملین مزید مسافروں کی روانگی ہوگی۔اگر ترقی کی اس گزر گاہ کو پا لیا جائے تو پاکستان کی تجارتی رابطہ کاری میں مدد ملے گی اور اس کے نتیجے میں جی ڈی پی میں تقریباََ ۹.۳ بلین امریکی ڈالر کا اضافہ ہوگا اور ۷۸۶,۳۰۰ ملازمتیں پیدا ہوں گی۔ایئر ٹریڈ فیسیلیٹیشن انڈیکس کے لحاظ سے پاکستان فضائی مال برداری کی سہولت فراہم کرنے کی صلاحیت میں ۱۲۴ ممالک میں سے ۶۷ ویں درجے پر ہے۔
یہ اعداد و شمار اقتصادی ترقی کو فروغ دینے، روزگار کے مواقع پیدا کرنے اور عالمی تجارت میں پاکستان کی رابطہ کاری کو بڑھانے کے لئے پاکستان کے فضائی نقل و حمل کے بنیادی ڈھانچے کو مؤثر طریقے سے استعمال کرنے کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہیں۔ ایژؤ-لاہور فضائی مال برداری کا راستہ پاکستان کو عالمی سپلائی چین کے جال میں زیادہ فعال شراکت دار کے طور پر پیش کرنے کی جانب ایک ابتدائی سنگ میل ثابت ہونے کی یقین دہانی پیش کرتا ہے۔ ایژؤ-لاہور فضائی مال بردار ی کا راستہ اعلیٰ قدر اجناس اور ترقی یافتہ صنعتی شعبوں کے لئے تجارت کی سہولت مہیا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے جو تیز، قابل اعتماد اور محفوظ نقل و حمل پر انحصار کرتے ہیں۔ یہ کاروباری اداروں کے لئے منڈیوں تک مؤثر رسائی حاصل کرنے کے لئے نئی راہیں بھی کھولتا ہے۔
امکان ہے کہ ایژؤ-لاہور راستے پر منتقل کی جانے والی اشیاء بنیادی طور پر کپڑے، تھری سی برقی مصنوعات اور برقی آلات پر مشتمل ہوں گی۔ نقل و حمل کا یہ طریقہ نہ صرف اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ سامان تیزی سے پہنچایا جائے گا، بلکہ نقصان کے خطرے کو بھی کم تر کرتا ہے، جس سے خطے میں اقتصادی ترقی اور خوشحالی کو فروغ دینے کے لئے چین اور پاکستان دونوں کے کاروباری اداروں کی مسابقت میں اضافہ ہوتا ہے۔ ایئر لائن اور ہوائی اڈوں کے انتظامی اُمور، ہوائی جہازوں کی دیکھ بھال، ایئر ٹریفک کنٹرول اور خدماتِ مسافرین جیسے شعبوں سے بھی پاکستان کی مشکلات سے دوچار معیشت میں روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔
اپنے ممکنہ اقتصادی فوائد کو زیادہ تر کرنے کے لئے، پاکستان ایشیا کے راستے بین الاقوامی تجارتی پروازوں اور فضائی مال برداری کے بڑھتے ہوئے حجم سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ سال ۲۰۲۳ میں تین اہم تجارتی راستوں؛ یورپ -ایشیا، مشرق وسطی – ایشیا اور افریقہ – ایشیا پر فضائی مال برداری کی آمد و رفت کی شرح میں بالترتیب ۳.۲ فیصد ، ۶.۶ فیصد اور ۱۰.۳ فیصد اضافہ ہوا۔ پاکستان کو بنیادی ڈھانچے کی اصلاح کو ترجیح دینی چاہیے تاکہ ملک کو اس راستے پر ایک اسٹریٹیجک مقام پر کھڑا ہونے کا موقع مل سکے اورتجارتی سرگرمیوں میں اضافے سے فائدہ اُٹھایا جا سکے اور عالمی تجارت پر اس کے نقشِ پا گہرے ہو سکیں۔
منصوبے کو ضم کرنے کی راہ میں حائل رکاوٹیں
اگرچہ چین اور پاکستان کے درمیان فضائی مال برداری کا راستہ کافی اقتصادی فوائد پیش کرتا ہے، لیکن دونوں فریقین کو اس راستے کو سی پیک فریم ورک میں ضم کرنے کی راہ میں حائل رکاوٹوں پر غور کرنا چاہیئے۔
انتظامی نقل و حمل (آپریشنل لاجسٹکس) ایک اہم رکاوٹ پیش کرتی ہے ، کیونکہ محکمہ محصولات سے تصفیہ کرنے (کسٹم کلیئرنس) کے لئے بِلا کم و کاست ہم آہنگی کی ضرورت ہوتی ہے۔ فضائی راستے کے بِلا رُکاوٹ استعمال کو یقینی بنانے کے لئے، دونوں ممالک کو تنظیمی رکاوٹوں سے نمٹنے کی ضرورت ہوگی، جیسے طریقہ کار برائے محصولات، لائسنس اور اجازت نامے، محصول اور ٹیکس خدشات، اور فضائی قوانین کا اطلاق (ایوی ایشن ریگولیشن کمپلائنس)۔پاکستان کو سی پیک منصوبوں میں حصہ لینے والے ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لئے سازگار کاروباری ماحول پیدا کرنے کے لئے تنظیمی اصلاحات کرنی چاہئیں۔اس میں دفتر شاہی کو زیادہ کار گزاربنانا، شفافیت اور احتساب کی اصلاح کرنا اور بین الاقوامی معیارات کی پابندی کرنا شامل ہوسکتا ہے۔ بنیادی ڈھانچے کے ترقیاتی منصوبوں میں زیادہ سرمایہ کاری سے مال برداری کے مؤثر انتظام کو بھی فائدہ ہوگا۔
اس راستےکے سبک رو استعمال کے لئے سیکورٹی کے مسائل کو حل کرنا بھی ضروری ہے۔ بصورت دیگر ماضی میں ہونے والے حملوں جیسے واقعات سے، جن میں سی پیک منصوبوں سے وابستہ چینی حکام کو نشانہ بنایا گیا تھا، اس میں رکاوٹ پیدا ہوسکتی ہے۔ علاوہ ازیں، موسم سے متعلقہ رکاوٹیں – جیسے شدید دھند، مون سون کی بارشیں، اور تُند وتیز ہوائیں – اور جغرافیائی رکاوٹیں، جیسے روٹ کے کچھ حصوں سے ملحقہ پہاڑی علاقے ، انتظامی مشکلات کو بڑھا دیتے ہیں۔ ماضی میں طیاروں کے حادثات نے اس راستے پر فضائی آمد و رفت کو متاثر کیا ہے۔
پاکستان کو بنیادی ڈھانچے کی اصلاح کو ترجیح دینی چاہیے جس سے ملک کو اس راستے پر ایک اسٹریٹیجک مقام پر کھڑا ہونے کا موقع مل سکے تاکہ تجارتی سرگرمیوں میں اضافے سے فائدہ اُٹھایا جا سکے اور عالمی تجارت پر اس کے نقشِ پا گہرے ہو سکیں۔ فضائی مال برداری کی مخصوص مشکلات اس کی اطلاق پذیری کو کم کردیتی ہیں۔ ان میں فضائی نقل و حمل کے بے تحاشا اخراجات، متبادل طریقوں کے مقابلے میں مال برداری کی محدود گنجائش اور ہوائی اڈے سے آخری منزل تک اضافی انتظامی نقل و حمل شامل ہیں۔ مزید برآں، ہوا بازی کے شعبے کے اخراج کے قابل ذکر ماحولیاتی اثرات ہیں جو آب و ہوا میں حالیہ تبدیلی کا ۳.۵ فیصد حصہ بنتے ہیں۔ ان مشکلات سے نمٹنے میں ناکامی سی پیک منصوبے کے چین اور پاکستان کے درمیان تجارتی رابطہ کاری اور اقتصادی ترقی کو بڑھانے کے مقاصد میں رکاوٹ بن سکتی ہے۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ چین پاکستان فضائی مال برداری کے راستے کا مقصد موجودہ تجارتی راستوں کو تبدیل کرنا نہیں بلکہ ان کی تکمیل کرنا ہے۔ فضائی راستے کے فوائد سے بہتر طور پر مستفید ہونےکے لئے متبادل ذرائع نقل و حمل اور راستوں میں سرمایہ کاری ضروری ہوسکتی ہے۔ پاکستان کی نیشنل ٹرانسپورٹ پالیسی کا مقصد بگ ڈیٹا، ڈرونز، روبوٹکس اور مصنوعی ذہانت جیسی جدید ترین ٹیکنالوجیز کو پاکستان کے موجودہ نقل و حمل کے بنیادی ڈھانچے میں ضم کرنا ہے۔ ریئل ٹائم ٹریکنگ اور کارگو روبوٹکس جیسی جدیدترین ٹیکنالوجیز کا اطلاق خاص طور پر فضائی مال بر داری کے روٹ پر ہوتاہے۔ صارفین تاخیر یا نقصان کے امکان کو کم کرنے کے لئے انٹرنیٹ آف تھنگز (آئی او ٹی) سینسرز، جی پی ایس، اور ڈیٹا اینالیکٹس کا استعمال کرکے اپنے سامان کی ترسیل کے درست مقام کو ٹریک کرسکتے ہیں اور اہم عوامل جیسے درجہ حرارت، نمی، اور دیگر کلیدی خصوصیات کی نگرانی کرسکتے ہیں۔
اندرونِ ملک رکاوٹیں فوائد پانے کی راہ میں حائل ہیں
چین اور پاکستان کو ملانے والا نیا فضائی راستہ تجارت کو بہتر بنانے، اقتصادی ترقی کو فروغ دینے، علاقائی رابطہ کاری کو فروغ دینے اور چین کی بین الاقوامی تجارتی امنگوں کو سہارا دے کر سی پیک کے وسیع تر مقاصد کے ساتھ موزوں ہو جاتا ہے۔معاصر تجارت میں فضائی مال برداری پر مبنی تجارت کے خصوصی افعال اور فوائد کو مدنظر رکھتے ہوئے، یہ دونوں ممالک کے مابین تجارتی حجم کو نمایاں طور پر بڑھانے کے لئے تیار ہیں۔
سی پیک نے پہلے ہی منافع ظاہر کرنا شروع کر دیا ہے اور پاکستان اور چین کے درمیان تجارتی توازن کو متاثر کرنا شروع کر دیا ہے۔ تاہم اس بات کا انحصار کہ پاکستان اس تعاون سے کس حد تک فائدہ اٹھا سکتا ہے،نقل و حمل کے ڈھانچے (لاجسٹکل انفراسٹرکچر) میں سرمایہ کاری کرنے اور اندرونِ ملک موجود رکاوٹوں کو، بالخصوص افسر شاہی کی غیر ضروری کار روائیاں اور موجودہ سیکیورٹی مسائل جو ملک کو اس منصوبے کے معاشی فوائد کی تکمیل پانے سے روکتے ہیں، دور کرنے کے لئے پاکستان کی فعال کوششوں پر ہے ۔اقتصادی بحران کے دوران، پاکستان کو اقتصادی تنوع کو ترجیح، صنعت میں اضافہ اور انسانی سرمائے کو فروغ دینا چاہئے تاکہ چین کی سی پیک سرمایہ کاری سے پاکستان کو زیادہ سے زیادہ فائدہ ہو۔
***
Click here to read this article in English.
Image 1: China and Pakistan’s International Border via Wikimedia Commons.
Image 2: Xi Jinping via Wikimedia Commons.