IMG_1016.JPG

بھارت کے بارے میں میرا تصوربھی میری طرح پرانا ہے۔ میں اس (تصور) کے خاتمے پرماتم کناں ہوں۔ بھارت کے بارے میں میرا تصور، چوکس آنکھوں کے ساتھ رکھے گئے میرے ان ابتدائی قدموں سے جڑا ہے جو میں نے اس اجنبی، دیار غیر پر دھرے۔ یہ ۱۹۹۰ کا آغاز تھا۔ اس وقت کے بعد بھارت میں آنے والی بہتری کا میں معترف ہوں۔  لیکن ہرچیزمیں بہتری نہیں آئی ہے۔

حوالے کیلئے: میں برصغیر میں سرد جنگ کے خاتمے کے بعد پہنچا تھا۔ میں نے امریکہ اور سویت یونین کے مابین جوہری ٹکراؤ کو روکنے کیلئے کام کیا تھا، اور اب میں بھارت اور پاکستان کیلئے اعتماد سازی اور تحفظ پر مبنی اقدامات کی پوٹلی کے ساتھ تھا۔ میرا منصوبہ یہ تھا کہ یہ پوٹلی مفکرین اور قابل فخر افراد کو پیش کی جائے اور ان سےاس بارے میں غور کرنے کو کہا جائے کہ آیا برصغیر کے خصوصی حالات میں ان میں سے شائد کسی اقدام کو اپنایا جاسکے۔

بھارت، جس کے بارے میں میں نے پڑھ رکھا تھا وہ مہاتما گاندھی اور جواہر لعل نہرو کا تھا۔ میں نے آزادی کیلئے جدوجہد کے بارے میں بھی پڑھا تھا اور یہ کہ کیسے گاندھی کی عدم تشدد پرمبنی سول نافرمانی کی مہم نے برطانوی رہنماؤں کو دنیا بھر میں شرمندہ کیا۔ ستیاگرا اس وقت کام کرتا ہے جب حکمرانوں میں ضمیر موجود ہو۔ یہ اس وقت ناکام ہوجاتا ہے جب ان کے پاس ضمیر نہ ہو۔ ستیاگرا گاندھی کا ہم سب کیلئے تحفہ تھا۔ اس کے نتیجے میں جمہوریت اور سیکولرازم میں کیا گیا زندگی سے بھرپورایک تجربہ سامنے آیا۔

اس سے پہلے کا میں، انسانیت کی ایک سیربین تھا۔ میں نے گریجوایٹ سکول کے بعد قاہرہ میں پڑھا تھا لیکن پھر بھی میری زندگی نے مجھے اس چیز کیلئے تیار نہیں کیا تھا جسے میں نے بھارت میں دیکھا اور تجربہ کیا۔ یہاں کی حکمت، ثقافت اور مذاہب کے ملاپ، اورخالصتاً اس خطے کی روح نے میرے ذہن اور خیالات کے افق کو وسعت دی۔

علاقوں، زبانوں، قوموں اورمذاہب کا یہ حسین مجموعہ ایک مزید کامل سیاسی اکائی کیلئے کام چھوڑے ہوئے تھے اوربامقصد جدوجہد میں مصروف تھا۔  میرا ملک بھی ایسی تحریک دیکھ چکا تھا لیکن بھارت کے مقابلے میں امریکہ میں یک رنگی تھی۔ امریکہ کے قیام کے وعدے کو پورا کرنا اگرچہ مشکل تھا لیکن یہ مشکل بھارت کی اس جدوجہد کے سامنے ماند پڑجاتی ہے جوایک کامل سیاسی اکائی کی تشکیل کیلئے کی گئی۔

یہ محض ایک عظیم جدوجہد نہیں تھی۔ میں نے جلد ہی یہ سمجھ لیا کہ یہی درست بھی تھی۔ بھارت میں اس قدر تنوع ہے اور معاشرے کا تانا بانا اس قدر پیچیدگی سے بنا ہے کہ ملکی ترقی کیلئے سب کی اس میں شمولیت ضروری تھی۔ وی ایس نیپال سے مستعار لیتے ہوئے میں یہ کہوں گا کہ  بھارت کو ملک میں جاری بغاوتیں جن میں سے زیادہ تر محدود پیمانے کی تھیں، انہیں ان کا جائز مقام دینے کی ضرورت تھی۔ ماسوائے مسلم اکثریتی کشمیر کے، جو کہ جغرافیائی تزویراتی اہمیت کے سبب درپیش بغاوت ہے۔  یہ بغاوت دراصل نئی دہلی کی تعمیر سے تھی، جسے پاکستان کی ملٹری اور انٹیلی جنس اداروں کی نمایاں معاونت حاصل تھی۔ کشمیر کی بغاوت، کسی بھی دیگر پہلو سے زیادہ، خود بھارت کے اپنے تشخص کا امتحان لینے والی اور اسے بیان کرنے والی تھی۔

اگر بھارت ایک مزید کامل اکائی بننا چاہتا تھا۔۔۔ ایک صحت مند، جمہوری، تکثیری اور سیکولر سوسائٹی۔۔۔ تو نئی دہلی کشمیر میں طویل عرصے سے جاری بغاوت کو پرامن سیاسی طریقے سے ختم کرتا۔ بھارت کی کامیابی اس عہد سے جڑی ہے جو بھارتی آئین نے جموں اور کشمیر سے کیا ہے۔

بھارت کی طاقت اس کی متنوع حیثیت میں پنہاں ہے۔ اور اسی طرح، اس کی کمزوریاں بھی اسی میں ہیں۔ میں جس بھارت کو سراہتا ہوں، اس کو سب سے بڑا خطرہ ہندو قوم پرست اکثریت سے ہے جو رنگارنگ آمیزش سے وجود میں آئے بھارت کا احترام نہیں کرتی۔ ایک سیکولر جمہوری بھارت دنیا کیلئے روشنی کا مینار ہے جبکہ ہندو قوم پرست بھارت کو بنانے پر کام جاری ہے۔ اس سے مزید بغاوتیں پرورش پائیں گی۔

پاکستان نہ صرف خود مشکلات کا شکار ہے بلکہ کشمیرکو بھی مشکل میں ڈال چکا ہے۔ کشمیر میں شورش میں معاونت کم خرچ کا حامل ایک راستہ ہے لیکن محدود سوچ پاکستان کی بقا کیلئے ہمیشہ سے وبال کا سبب رہی ہے۔ قومی سلامتی کے اغراض کو فروغ دینے کیلئے تشدد کی اعانت پاکستان کیلئے تباہ کن رہی ہے۔ پاکستان نے کیا حاصل کیا ہے؟ اس کا جواب پاکستان کی موجودہ معاشی اور سیاسی زندگی کی کیفیت سے واضح ہے۔ اس کی قومی سلامتی اورعالمی سطح پر حیثیت، نمایاں حد تک سکڑ چکی ہے۔ جمہوریت کے حوالے سے پاکستان کا تجربہ موروثی سیاست اور فوجی مداخلت کی وجہ سے تہہ و بالا ہوچکا ہے جس کے نتیجے میں اس کے باسی اس گورننس سے محروم ہیں جس کے وہ حقدار ہیں۔

ناقص حکمرانی کا المیہ محض برصغیر تک ہی محدود نہیں۔ یہ عالمی رجحان کا حصہ ہے۔ طاقتور ہی حکومت کرتا ہے۔ بیجنگ اپنی مسلم آبادی کو “دوبارہ تعلیم” دے رہا ہے۔ بنجامن نیتن یاہو نے جس طریقے سے فلسطینیوں کے معاملے سے نمٹا، وہ مودی کو ایک مثال فراہم کرچکا ہے۔  ماسکو کی ناکامیاں قوم پرستی کے نعروں کے نقاب اوردیگر مقامات پر انقلاب برپا کرنے کی چالوں میں چھپی ہیں۔ ترکی، ہنگری، وینزویلا، فلپائن اور دیگر جگہوں پر لیڈران جمہوری اقدار یا بچی کھچی جمہوریت کو پامال کرتے ہیں۔ اور میرے اپنے پیارے وطن میں، امریکیوں کو تنگ نظری پر مبنی نسل پرستانہ جنون میں ایک دوسرے کے مقابل کھڑا کیا جارہا ہے۔

بطور امریکی شہری میری یہ ذمہ داری ہے کہ میں باوجود اس کی ناکامیوں کے، اسے ایک کامل اکائی کے طور پر کھڑا کرنے میں مدد دوں۔ لیکن میں صرف ایک امریکی شہری نہیں ہوں۔ مجھے غیر ملکی دوروں کی نعمت نصیب ہوئی اور ان جگہوں سے مجھے لگاؤ پیدا ہوا ہے۔ مجھے بھارت کے اس تصور سے پیار ہے جو میرے ذہن میں نقش ہے۔ وہاں ہونے والی دوستیوں سے میری زندگی مالامال ہوئی۔ مجھے پاکستان کے بارے میں جناح کے خواب جو اب بھولی بسری یاد بن چکا ہے، اس  سے محبت ہے۔ میں ان پاکستانی دوستوں کا بے حد احترام کرتا ہوں جو وہاں اصلاحات لانے کیلئے کوشاں ہیں۔ میری خوش قسمتی ہے کہ مجھے کشمیر جانے کا اور کشمیریوں کے ساتھ وقت گزارنے کا موقع ملا۔ میں ان کیلئے غمزدہ ہوں اور اس کیلئے  بھی جو بھارت اب بن رہا ہے۔ 

دنیا، بھارت کے اندر اور باہر، مزید درندگی کی حامل جگہ بن چکی ہے۔ میرے دوستوں، ہمارے پاس مایوس ہونے کیلئے وقت اور جگہ بالکل نہیں ہے۔ ہم جہاں کہیں بھی رہیں، ہمیں اس مقصد کیلئے کام کرنا ہوگا۔ 

***

.Click here to read this article in English

Image: Ken Wieland via Flickr

Share this:  

Related articles

پلوامہ – بالاکوٹ پانچ برس بعد جائزہ Hindi & Urdu

پلوامہ – بالاکوٹ پانچ برس بعد جائزہ

لمحۂ موجود میں پاکستان، بھارت کے تزویراتی بیانیے سے تقریباً…

جوابی کار روائی: کیا پاکستان فوجی حملوں کے رد عمل پر غور کر رہا ہے؟ Hindi & Urdu

جوابی کار روائی: کیا پاکستان فوجی حملوں کے رد عمل پر غور کر رہا ہے؟

ایران اور پاکستان کے درمیان حالیہ جیسے کو تیسا حملے …

پاکستان کا بعد از انتخابات ماحول: ماہرین کا ردعمل Hindi & Urdu

پاکستان کا بعد از انتخابات ماحول: ماہرین کا ردعمل

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سے تعلق رکھنے والے…