BrahMos_Missile

مارچ ۹، ۲۰۲۴ کو بھارت کے براہموس کروز میزائل کے مس فائر ہونے کا واقعہ بیتے دو سال مکمل ہوئے، جو حادثاتی طور پر پاکستان کے شہر میاں چنوں میں گرا تھا۔ اس وقت اگرچہ عالمی توجہ یوکرین پر روسی حملے اور یقینی جوہری خطرات پر مرکوز تھی تاہم برصغیر میں پیش آنے والا یہ واقعہ بھی بے مثال نوعیت کا تھا کیونکہ یہ پہلا موقع تھا کہ جب ایک جوہری طور پر مسلح ریاست کا ایک کروز میزائل دوسری ریاست میں جا گرا تھا۔

 
بھارت کا سب سانک نربھے ابھی تیاری کے مراحل میں ہے اور ایسے میں اس کا واحد آپریشنل کروز میزائل سپرسانک براہموس ہے، جس کی زمین اور فضا میں داغی جانے والی  اقسام موجود ہیں۔ 
 دوسری جانب پاکستان دیگر میزائلوں کے ساتھ ساتھ حتف ۷ کی سپرسانک اور سب سانک اقسام رکھتا ہے۔ ۲۰۲۲ کے واقعے کے پس منظر میں تجزیہ کاروں اور بین الاقوامی اداروں نے بھارت اور پاکستان کے درمیان بیلسٹک میزائل تجربوں سے قبل دوسرے کو اس بارے میں مطلع کرنے کے لیے پہلے سے دستیاب معاہدے کا دائرہ کار کروز میزائل تک وسیع کرنے سمیت دونوں ریاستوں کے درمیان اعتماد سازی کے اقدامات (سی بی ایمز) کا مطالبہ کیا تھا۔


اگرچہ ایک سی بی ایم کا طے پانا ابھی باقی ہے اور دونوں ریاستوں نے واقعے کے بعد سے اپنے کروز میزائلز کی اقسام کا تجربہ کرنے کا سلسلہ جاری رکھا ہے۔ بھارت اور پاکستان ۱۹۸۸ میں طے پانے والے، جوہری تنصیبات پر حملہ نہ کرنے پر اتفاق کے حامل ایک منفرد سی بی ایم سمیت جوہری سی بی ایمز کا ایک سلسلہ رکھتے ہیں، لیکن کروز میزائلز پر ان میں اتفاق موجود نہیں۔ نومبر ۲۰۲۳ میں پاکستان نے اپنے ابابیل بیلسٹک میزائل کا دوسرا تجربہ کیا جو متعدد آزادانہ طور پر نشانہ بنانے کے قابل ری اینٹری وہیکلز (ایم آئی آر ویز) سے لیس تھا، جس کے بعد بھارت نے اسی مہینے ایم آئی آر وی صلاحیت کے حامل اگنی ۵  بیلسٹک میزائل کا پہلی مرتبہ تجربہ کیا۔ اس تجربے نے برصغیر میں تزویراتی استحکام پر ایک بار پھر سوالات کو زندہ کر دیا ہے، خاص کر اس سبب سے کہ بھارت نئے بیلسٹک میزائل ڈیفنس سسٹمز کی خریداری کے عمل میں ہے اور دونوں ریاستیں میزائل ٹیکنالوجی میں تیزی سے آگے بڑھ رہی ہیں۔


ان پیش رفتوں کی روشنی میں یہ سمجھنا انتہائی اہم ہے کہ براہموس کا واقعہ کروز میزائلز کے لیے ایک سی بی ایم کا موجب کیوں نہ بنا اور مستقبل میں کسی بحران کی صورت میں دو طرفہ سطح پر بہتر ابلاغ کو قائم کرنے کی جانب قدم بڑھانے کے لیے کون سے اقدامات اٹھائے جا سکتے ہیں۔ براہموس کا واقعہ ادارہ جاتی سطح پر تبدیلی کا باعث نہ بن سکا، گو کہ اسے بننا چاہیئے تھا جس کی وجہ اس قدم کو اٹھانے کے لیے دونوں ریاستوں کا ترغیبی ڈھانچہ ہے۔ ایک سی بی ایم کی تخلیق کے لیے ترغیب کی کمی، اس رائے سے تحریک پاتی ہے کہ ادارہ جاتی سطح پر تبدیلی کی ضرورت ناکافی ہے اور یہ کہ روایتی ہتھیاروں کے ذریعے معاملات بگڑنے کے امکانات نہیں۔

ناکافی ضرورت

کسی بھی دوسرے سی بی ایم کی طرح، کروز میزائل کے تجربوں کے لیے پیشگی اطلاع کرنے پر اتفاق قائم ہونے کے لیے ضروری ہو گا کہ یہ ریاستی نقطۂ نگاہ سے ضرورت کی کسوٹی پر پورا اترے۔ یہ ضرورت جہاں وقت کے ساتھ ساتھ پیدا ہو سکتی ہے، وہیں یہ کسی ایسے شدید نوعیت کے واقعے سے بھی جنم لے سکتی ہے کہ جس میں دونوں ریاستوں کی جانب سے چکائی گئی بھاری قیمت انہیں اصلاحی پالیسی پر عمل کرنے کی جانب راغب کرے۔ ۲۰۲۲ کا براہموس کا مس فائر دونوں وجوہات کے حوالے سے ایسی ضرورت پیدا کرنے میں ناکام رہا ہے۔


اولاً بدقسمتی سے یہ واقعہ “بحران” کے لیے حدود پار کرنے میں ناکام رہا ہے، جسے گلین ایچ اسنائیڈر اور پال ڈیزنگ یوں بیان کرتے ہیں کہ “دو یا زیادہ آزاد ریاستوں کے درمیان کسی سنگین تنازعے کے دوران تعامل کا ایک سلسلہ جو کہ جنگ سے کم درجے کا ہو، لیکن اس کے بارے میں کسی جنگ کے حوالے سے خطرناک حد تک بلند امکان کا تاثر پایا جاتا ہو”۔ اس کے ساتھ اگر تھامس شیلنگ کے نظریے کو ملایا جائے کہ جس کے مطابق بحران کے دوران غیر ارادی اشتعال انگیزی کا اضافی خطرہ کسی اتفاقی عنصر کے سبب ہوتا ہے، تو براہموس مس فائر جیسے واقعے کی وسیع تر جہات ہو سکتی تھیں۔ براہموس واقعے کے وقت، پاکستان کے ڈائریکٹر جنرل آف انٹر سروسز پبلک ریلیشنز (آئی ایس پی آر) نے ایک جامع پریس کانفرنس میں قطعیت کے ساتھ اپنی رائے دی تھی کہ میزائل “یقینی طور پر غیر مسلح” تھا اور آئی ایس پی آر اس کے ساتھ بھارت کے کوئی عزائم نتھی نہیں کرتا لیکن یہ معاملہ بھارت کے لیے چھوڑتا ہے کہ وہ اس پر وضاحت دے۔ پاکستانی حکام نے جہاں حادثاتی لانچ کے ۲۴ گھنٹے بعد تک بھارت کی جانب سے خاموشی اختیار کیے رکھنے کی شکایت کی، وہیں بھارتی حکام نے پارلیمنٹ سمیت بہت سے داخلی اداروں میں متعدد  بیانات دیے جس میں “گہرے رنج” کا اظہار کیا گیا اور ایک اعلیٰ سطحی انکوائری کمیشن قائم کیا گیا۔ مزید برآں پاکستان کے افغانستان کے ہمراہ اپنے بارڈر پر بنیادی توجہ مرکوز رکھنے اور بھارت کے چین کے ہمراہ مشترکہ سرحد پر پہلے سے مصروف ہونے کے سبب، دونوں ریاستوں کے درمیان تازہ تازہ نافذالعمل سیزفائر مضبوطی سے قائم تھا۔ مل جل کر ان پیش رفتوں نے بے یقینی کی کیفیت اور غلط تاثر قائم ہونے میں کمی کے سبب اس حادثے کو ایک بحران میں تبدیل ہونے سے روکا۔


دوئم، بھارتی حکومت نے اپنے اصلاحی اقدامات دو طرفہ کے بجائے یکطرفہ طور پر اٹھائے۔ بھارت نے اُس حادثے میں ملوث انڈین ایئر فورس کے افسران کو ملازمت سے برخاست کر دیا کہ جس کے نتیجے میں بھارت کو تقریباً ۲.۹ ملین ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا تھا۔ پاکستانی حکام جہاں سرعام بھارت نظاموں کی موثریت پر تنقید کرتے رہے، بھارت نے براہموس کے تجربے اور معائنے کے لیے اسٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجرز پر نظرثانی کا عزم کیا۔ نئی دہلی کے لیے، واقعے کے  نتیجے میں کسی بھی سی بی ایمز کی ضرورت کے بارے میں بھی کوئی نیا فیصلہ پاکستانی نقادوں کے سامنے غلطی تسلیم کرنا ہوتا – ایک حکومت کے لیے ایک شدید ناپسند امر جس نے ۲۰۱۹ سے پاکستان کے ہمراہ کم سے کم سفارتی یا معاشی روابط کی پالیسی رکھی ہے۔ چونکہ بھارتی حکام یہ دلیل دے سکتے ہیں کہ مس فائر ایک اکیلا واقعہ تھا نہ کہ کوئی رجحان، ایسے میں بھارتی حکومت کے پاس کروز میزائلز پر توجہ دینے والے کسی سی بی ایم پر حکومت پاکستان سے رابطے میں آنے کے لیے بے حد معمولی ترغیب موجود ہے۔

مشتبہ امکانات

بھارت اور پاکستان کے درمیان آپریشنل عسکری سی بی ایمز کی اکثریت کا مقصد روایتی ہتھیاروں کے ذریعے اشتعال انگیزی کے بجائے جوہری خطرات میں تخفیف ہے۔ ۲۰۰۵ کا معاہدہ کہ پاکستان اور بھارت ایک دوسرے کو بیلسٹک میزائلوں کے تجربوں کے بارے میں پیشگی اطلاع دیں گے، ۱۹۹۹ کے اعلان لاہور اور جامع مذاکرات سے حاصل شدہ معلومات کی بنیاد پر ترتیب دیا گیا تھا، جس میں جوہری اور روایتی دونوں طرح کے سی بی ایمز پر مذاکرات شامل تھے۔ نتیجتاً وجود میں آنے والے معاہدے نے اس حوالے سے واضح فہم ظاہر کیا کہ بیلسٹک میزائلز اصولی طور پر جوہری مواد پہنچانے کے لیے تھے اور بیلسٹک میزائل کے لانچ کے حوالے سے غلط تاثرات کے ممکنہ خطرات کے انتظام کے لیے ایک اتفاق رائے قائم کیا گیا۔ ۲۰۰۵ میں دونوں ریاستوں میں کروز میزائل آپریشنل تھے اور ان پر مزید کام جاری تھا۔ پاکستان نے جہاں اس کے بعد سے جوہری صلاحیت کے حامل کروز میزائلز تیار اور آپریشنل کیے ہیں، وہیں بھارتی تجریہ کار اس رائے پر قائم ہیں کہ اس کے کروز میزائل غیر جوہری ہیں۔ اس کی ممکنہ تزویراتی قابلیتوں یا مستقبل میں جوہری ہتھیاروں کے ہمراہ اس کے ممکنہ استعمال کے باوجود، براہموس کی سمت فی الوقت روایتی کرداروں کی جانب ہے۔


بھارت کی جانب سے براہموس کی غیر جوہری حیثیت تسلیم، لیکن ڈٹرنس جہاں دشمن کی قابلیتوں کے بارے میں تاثر پر مبنی ہوتا ہے، وہیں اس کی اپنی صلاحیتوں پر بھی مبنی ہوتا ہے۔ تاہم کروز میزائل کی جوہری حیثیت کے بارے میں جانتے بوجھتے ابہام پیدا کرنا، تاحال بھارت کی میزائل پیش رفت سے مطابق نہیں رکھتا۔ یہ بحث کہ آیا بھارت دوہرے استعمال کے میزائل بنا رہا ہے، ابھی ابتدائی مراحل میں ہے، اور اصولی طور پر روایتی کرداروں کے لیے بھارت کی جانب سے بیلسٹک میزائل اور کواسی بیلسٹک میزائل کی تیاری کی قابلیت پر بھروسہ کرتی ہے۔ یہ بھارت کے اس نقطۂ نگاہ سے انحراف ہو گا کہ اس کے اگنی بیلسٹک میزائلز صرف جوہری ہتھیار لے جانے کے لیے ہیں۔ کسی بھی صورت میں ۲۰۰۵ کا معاہدہ نئے بیلسٹک میزائلز کا احاطہ بھی کرے گا۔ بھارت کے حساب سے دیکھا جائے تو کروز میزائلوں کے حوالے سے کسی معاہدے میں شامل ہونا، ان سے وابستہ جوہری خطرات کو بیلسٹک میزائلوں کے متوازی لے آئے گا، جو بھارت کی اپنے کروز میزائلز کی غیر جوہری حیثیت کے بارے میں تشہیر کی نفی ہو گی۔ دونوں ریاستوں میں کروز میزائلز کے حوالے سے متنوع عسکری منطق، کروز میزائلز کے حوالے سے کسی بھی معاہدے کے امکان کو مسلسل محدود رکھتی ہے۔

تزویراتی استحکام پر


کروز میزائلز کے لیے ایک سی بی ایم کی”ناکافی ضرورت” اور “مشتبہ امکانات” جن پر مندرجہ بالا میں توجہ دی گئی، دونوں ریاستوں میں موجودہ ترغیباتی ڈھانچے کو روشن کرتے ہیں۔ براہموس واقعے میں اصل نقصان یہ ہوا کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان براہ راست ابلاغ کا ایک سلسلہ ختم ہوا۔ دونوں ریاستوں کے درمیان متعلقہ عسکری، سیاسی اور بیوروکریٹک اسٹیبلشمنٹس میں متعدد ہاٹ لائنز موجود ہیں، جن کے استعمال میں وہ ناکام رہے۔


نمایاں ترین ہاٹ لائن ڈائریکٹرز جنرل آف ملٹری آپریشنز (ڈی جی ایم او) کے درمیان ہے۔ بھارت اور پاکستان نے تاریخی طور پر لائن آف کنٹرول اور بین الاقوامی سرحد کے ساتھ ساتھ سپاہ کی حرکت اور سیز فائر کی ممکنہ خلاف ورزیوں کے بارے میں وضاحت دینے کے لیے اس ہاٹ لائن کا استعمال کیا ہے۔ فروری ۲۰۲۱ میں دنوں ڈی جی ایم اوز نے قبل ازیں موجود سیز فائر کے لیے اپنے دوبارہ عزم کا اعلان کرنے کے لیے اسے استعمال کیا۔معدودے اکا دکا سرحد پار فائرنگ کے واقعات کے، موجودہ سیز فائر ۲۰۲۱ سے قائم ہے۔ اہم ترین امر یہ ہے کہ دونوں جانب سے یہ اعادہ کیا گیا ہے کہ “کسی بھی غیر متوقع صورتحال یا غلط فہمی سے نمٹنے کے لیے” ہاٹ لائن کو استعمال کیا جائے گا۔ یہ یقینی بنانے کے لیے کہ وہ اس ہاٹ لائن کو زیادہ تسلسل سے استعمال کریں، ڈی جی ایم اوز کا “ایک دوسرے کےبنیادی مسائل اور خدشات کو دور کرنے” کے عزم کو زیادہ شدت کے ساتھ نافذ کیا جانا چاہیئے۔


جہاں بڑے سی بی ایمز دونوں ممالک کے درمیان سیاسی تعلقات سے مشروط ہیں، وہاں ۲۰۲۲ کے واقعے کو اس بات کی علامت سمجھا جانا چاہیئے کہ دونوں ممالک ڈی جی ایم او کی ہاٹ لائن کا اضافی استعمال کریں گے۔ سرحد کے دونوں جانب کی قیادت کی عمدہ فیصلہ سازی اور اگرچہ سرد لیکن پرسکون دو طرفہ ماحول نے اس ممکنہ تباہ کن واقعے کو سنگین شکل اختیار کرنے سے باز رکھا۔ لیکن مناسب حل اور براہ راست ابلاغ کی عادات کے بغیر، کوئی اور مس فائر زیادہ نتیجہ خیز ہو سکتا ہے۔ اس کی روشنی میں ڈی جی ایم او کی ہاٹ لائن ایسے واقعات کے حوالے سے غلط تاثرات بالخصوص دونوں ممالک کی اپنی افواج میں غلط تاثرات پیدا ہونے کے روکنے کے قابل ہے۔


ذہن نشین رہے کہ دونوں ریاستوں نے درحقیقت ماضی میں بحرانوں کو روایتی سی بی ایمز میں ڈھالا ہے۔ ۱۹۸۰ کے اواخر اور ۱۹۹۰ کے آغاز میں بڑے پیمانے کی عسکری مشقوں اور سپاہ کی نقل و حرکت کے سبب بحرانوں کے ایک سلسلے کے بعد بھارت اور پاکستان نے اتفاق کیا تھا کہ وہ سرحد کے قریب اپنی مشقوں کے لیے پیشگی نوٹس دیں گے۔ مزید برآں غیر روایتی غیر رسمی سی بی ایمز لائن آف کنٹرول پر طویل عرصے سے عمل میں رہے ہیں جن میں دونوں افواج میں کمانڈ کی مختلف سطحوں پر فلیگ میٹنگز شامل ہیں۔ چنانچہ کروز میزائلز سے متعلقہ ایک سی بی ایم کے لیے مناسب آپریشنل یا سیاسی ترغیب نہ ہونے کے باوجود بھی، دیگر روایتی سی بی ایمز کو نافذ کرنے کا بالواسطہ مثبت اثر ہو سکتا ہے جو نئی دفاعی ٹیکنالوجی کی ضمن میں مستقبل کے کسی بحران کی صورت میں دو طرفہ سطح پر بہتر ابلاغ کا باعث ہو گا۔

***

Click here to read this article in English.

Image 1: BrahMos Missile via Wikimedia Commons.

Image 2: BrahMos Cruise Missile via Flickr.

Share this:  

Related articles

سی پیک کو بچانے کے لیے، پاکستان کی چین پالیسی میں اصلاح کی ضرورت ہے Hindi & Urdu

سی پیک کو بچانے کے لیے، پاکستان کی چین پالیسی میں اصلاح کی ضرورت ہے

پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف رواں ماہ کے اوائل میں صدر شی جن پنگ اور دیگر اعلیٰ چینی حکام سے ملاقاتوں کے بعد تقریباََ خالی ہاتھ وطن واپس پہنچ گئے ہیں۔ چین نے واضح انضباطِ اوقات ( ٹائم لائن) کے تحت پاکستان میں بڑے منصوبوں کے لئے سرمایہ کاری کا وعدہ نہیں کیا۔ اس […]

آبدوزیں بحرہند میں ہندوستان کی ابھرتی ہوئی قوت کی کلید ہیں Hindi & Urdu

آبدوزیں بحرہند میں ہندوستان کی ابھرتی ہوئی قوت کی کلید ہیں

شمال مغربی بحر ہند میں سمندری تجارت گزشتہ چھ ماہ…

بی جے پی کے زیرِقیادت گلگت بلتستان پر بھارتی  بیان بازی Hindi & Urdu

بی جے پی کے زیرِقیادت گلگت بلتستان پر بھارتی  بیان بازی

بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے زیرِ قیادت بھارتی…