Neelum_River_Pakistan_13

گزشتہ کچھ برسوں کے دوران، انتہائی نوعیت کی موسمیاتی کیفیات پاکستان میں معمول بن چکی ہیں۔ شدید گرمی کی لہریں، خشک سالی اور سیلاب ہر سال عام ہو چکے ہیں جو غذائی و آبی تحفظ کو متاثر کرتے ہیں۔ پسماندہ طبقے جیسا کہ غریب، بزرگ اور خواتین ان نتائج سے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ دنیا بھر میں کم ترین کاربن خارج کرنے والے ممالک میں سے ایک ہونے کے باوجود بھی پاکستان انتہائی موسمیاتی واقعات سے وابستہ خطرات سے سب سے زیادہ دوچار دس ممالک میں سے ایک ہے۔

یونیسکیپ (UNESCAP) کے مطابق موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پاکستان اپنے سالانہ جی ڈی پی کا ۹ فیصد کھو سکتا ہے۔ گرمی کی شدید لہروں اور بن موسم بارشوں نے بھی پاکستان کی زرعی پیداوار کو شدید طور پر متاثر کیا ہے۔ انٹرگورنمنٹل پینل برائے موسمیاتی تبدیلی نے خبردار کیا ہے کہ اس نوعیت کے موسمی واقعات کی تعداد مستقبل میں بڑھے گی، جو پاکستان میں غذائی تحفظ کے لیے شدید خطرے کا سبب ہو گا۔ ایشیائی ترقیاتی بینک آنے والے برسوں میں کاشت کی بڑھتی قیمتوں اور موسمیاتی تبدیلی کی بدولت اہم غذائی اور نقد فصلوں، جیسا کہ گندم، گنا، چاول، مکئی اور کپاس کی کاشت میں نمایاں گراوٹ کی پیشنگوئی کر چکا ہے۔

پاکستان ۲۰۲۱ میں بھوک کے عالمی انڈیکس پر موجود ۱۱۶ ممالک میں سے ۹۲ویں نمبر پر تھا۔ موسمیاتی تبدیلیوں اور یوکرین پر روسی حملے کے سبب سپلائی چین کے متاثر ہونے سے آنے والے برسوں میں صورتحال مزید ابتر ہونے کا امکان ہے۔ اگر غذائی عدم تحفظ سے نمٹنے اور موسمیاتی تبدیلیوں کے مضر اثرات سے مطابقت کے لیے بر وقت اقدامات نہ کیے گئے تو پاکستان کی بقا کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔

انتہائی نوعیت کے موسمیاتی واقعات بلا تسلسل جاری

موسمیاتی تبدیلی پاکستان میں غذائی پیداوار کے لیے براہ راست خطرہ ہے۔ ہمالیہ کے گلیشیئرز جو ملک میں پانی کے بنیادی ذریعے (سندھ طاس) کو پانی سے بھرتے ہیں، پوری بیسیویں صدی کے دوران ان گلیشیئرز نے اپنے وجود کا اتنا حصہ نہیں کھویا تھا جتنا کہ وہ ۲۰۰۰ کے بعد سے کھو چکے ہیں۔ پاکستان جیسا ملک، جس کے جی ڈی پی کا ۲۳ فیصد حصہ زرعی شعبے اور سندھ طاس پر انحصار کرتا ہے، اس کے لیے یہ تشویش کی ایک سنگین وجہ ہے۔

شدید موسمیاتی کیفیات پانی کی کمی کے لیے خطرہ ہونے کے علاوہ، ذرائع آمدن اور زراعت کے لیے بھی تیزی سے خطرات پیدا کر رہی ہیں۔ ہر موسم گرما میں، مون سون کی شدید بارشیں پنجاب اور سندھ کی زرخیز زمینوں میں اچانک سیلاب، جائیداد کو نقصان اور زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھنے کا سبب بنتی ہیں۔ یہ نتائج ہر سال کے ساتھ ابتر ہو رہے ہیں۔ اس موسم گرما میں جیکب آباد میں درجہ حرارت ۵۱ ڈگری سیلسیئس (جو تقریباً ۱۲۳ ڈگری فارن ہائیٹ بنتا ہے) کی تاریخی بلند سطح تک پہنچ گیا تھا، جو جنوبی ایشیا میں ریکارڈ کیا گیا بلند ترین درجہ حرارت ہے۔ ایک طرف یوکرین میں جنگ کی بدولت یورپ کی “روٹی کی ٹوکری” سے گندم کی برآمد رک چکی ہے، تو ادھر بھارت میں کسانوں نے تخمینہ لگایا ہے کہ درجہ حرارت میں اضافے سے ان کی ۱۰-۱۵ فیصد فصلیں تباہ ہو گئی تھیں۔ چونکہ اس قسم کے موسمیاتی جھٹکوں کی تعداد آنے والے برسوں میں بڑھنے کا خدشہ ہے، ایسے میں پاکستان کی غذائی پیداوار کی صلاحیت میں بھی انتہائی نوعیت کے موسمیاتی واقعات کی وجہ سے رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے۔

گندم جو کہ پاکستان کی قومی غذا میں فائبر کا بنیادی ذریعہ اور مجموعی طور پر غذائی تحفظ کا ایک اہم تعین کنندہ ہے، ملک میں اس کی کل طلب تقریباً ۳۰.۸ ملین ٹن ہے۔ رواں سیزن کے لیے ۲۸.۹ ملین ٹن کے طے شدہ ہدف کے برخلاف مارچ کے وسط میں گرمی کی لہروں اور کھاد کی بڑھتی قیمتوں کے سبب تقریباً ۲ ملین ٹن کی کمی کا سامنا ہے۔ طلب اور رسد کے اس فرق کو ایک غیر مستحکم عالمی منڈی سے گندم کی درآمد کے ذریعے ختم کیا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسا ملک کہ جس کی ۴۰ فیصد آبادی شدید غذائی عدم تحفظ کا شکار ہے، اس کے لیے تشویش کی ایک سنگین وجہ ہے۔

روس اور یوکرین کے مابین جاری جنگ نے بھی غذائی عدم تحفظ میں اضافہ کیا ہے- پاکستان میں درآمدی گندم کا ۳۹ فیصد یوکرین سے حاصل کیا جاتا ہے، جو دنیا میں گندم کا پانچواں سب سے بڑا برآمد کنندہ ہے۔ بحیرہ احمر کے اطراف میں روسی ناکہ بندی نے یوکرین کی گندم کی برآمد اور عالمی سپلائی چینز کو متاثر کیا ہے۔ جس نے عالمی منڈی میں اناج کی قیمتوں پر اثر ڈالا ہے،اور جنگ کے آغاز سے گندم کے آٹے کی قیمت میں ۶۰ فیصد اضافہ ہو چکا ہے۔ برآمدات، مہینوں تک منجمد رہنے کے بعد اب دوبارہ بحال ہو چکی ہیں جو عالمی غذائی بحران کے خطرات میں کمی لائیں گی- تاہم، عدم استحکام اور دیرپا موسمیاتی دباؤ پاکستان میں غذائی تحفظ کے لیے خطرہ ہے۔

گزشتہ برس کی بچی ہوئی تقریباً ایک ملین ٹن ذخیرہ شدہ گندم مدنظر رکھی جائے تو پاکستان کو گندم کی اپنی داخلی ضروریات پورا کرنے کے لیے تقریبا تین ملین ٹن درآمد کرنے کی ضرورت ہو گی جس پر اندازاً ۱.۵ بلین ڈالر کی لاگت آئے گی۔ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قیمت میں حالیہ گراوٹ کو خصوصاً مدنظر رکھا جائے تو یہ ملک کے زرمبادلہ کے قلیل ذخائر پر مزید دباؤ ڈالے گا۔ تاریخی اعتبار سے حکومت گندم کی قیمتوں پر سبسڈی دیتی آئی ہے۔ اگر یہ رجحان جاری رہتا ہے تو پہلے سے جاری اقتصادی مصائب کے عین درمیان حکومتی اخراجات بڑھ جائیں گے، جو مالی اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں مزید اضافے کا باعث ہو گا۔

غذائی تحفظ محض مناسب مقدار میں رسد سے حاصل نہیں ہو گا۔ جولائی میں، پاکستان میں صارفین کے لیے مہنگائی ۲۴.۹ فیصد تک پہنچ گئی تھی، جس نے عوام الناس کی قوت خرید کو نمایاں طور پر محدود کیا۔ فیول کی بڑھتی ہوئی قیمتیں بیجوں، توانائی اور نقل و حمل کی لاگت میں اضافے کی شکل میں زرعی شعبے پر اثرانداز ہوئی ہیں۔ کھاد اور مقامی سطح پر جوڑے گئے ٹریکٹرز کی قیمتوں میں یکدم اضافہ ہو چکا ہے،جس سے کسانوں کے لیے انہیں برداشت کرنا مشکل ہو گیا ہے۔

غربت اور مہنگائی کی بلند شرح اور بنیادی خدمات تک محدود رسائی کی شکل میں پاکستان پہلے ہی ایک اقتصادی بحران سے دوچار ہے۔ سیاسی عدم استحکام، موسمیاتی تبدیلی اور غذائی عدم تحفظ ملک کے پہلے سے موجود مسائل میں مزید بگاڑ لائے گا۔ چونکہ ذرائع معاش پر، موسمیاتی تبدیلیاں اثرانداز ہوتی ہیں، ایسے میں داخلی سطح پر ہجرت اور ہزاروں افراد کی نقل مکانی، وسائل پر مبنی تنازعے کا باعث ہو سکتی ہے۔ ۲۰۱۰ کے تباہ کن سیلابوں نے کسانوں کی بڑی تعداد کو کام کی تلاش میں شہروں کی جانب ہجرت پر مجبور کر دیا تھا۔ آنے والے برسوں میں موسم کی بدولت صحت کو لاحق خطرات بھی بڑھ سکتے ہیں جس سے ملک میں صحت کے محدود انفرااسٹرکچر پر بھی دباؤ بڑھ سکتا ہے۔ کراچی میں گرمی کی شدید لہریں ملیریا، ڈینگی اور گیسٹرو کی وبا پھوٹنے کا باعث بن چکی ہیں۔ حکومت کو سماجی اقتصادی مسائل کی دلدل میں گھرے ملک کے لیے ان موسمیاتی تبدیلیوں کو ایک سنگین خطرہ سمجھنے کی ضرورت ہے۔

۲۰۱۸ میں، پاکستان نے غذائی تحفظ کی اپنی پہلی قومی پالیسی متعارف کروائی تھی جس کا مقصد موثر، منافع بخش، موسم کے خلاف لچکدار اور مقابلے کی صلاحیت کے حامل زرعی شعبے کی تشکیل کے ذریعے غذائی دستیابی، رسائی اور تسلسل میں اضافے کے لیے کوشش کرنا تھا۔ پاکستان اگرچہ موسمیاتی تبدیلی اور غذائی عدم تحفظ سے قومی سطح پر نمٹنے کے لیے ایک جامع پالیسی فریم ورک تشکیل دے چکا ہے، تاہم صوبائی سطح پر فنڈز کی کمی کی وجہ سے بہت سی پالیسیوں کے نفاذ میں خلا کا سامنا ہے۔ موجودہ صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان کی موسمیاتی تبدیلیوں سے مطابقت کی پالیسیوں اور غذائی نظام میں تبدیلی کی اشد ضرورت ہے۔

موسمیاتی تبدیلیوں سے مطابقت: پاکستان کیا اقدامات اٹھا سکتا ہے؟

پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں سے وابستہ نئی حقیقتوں کے مطابق خود کو ڈھالنے کے لیے پائیدار زرعی ترقیاتی طریقوں اور منصوبوں میں سرمایہ کاری کر سکتا ہے۔ اس میں کلائمٹ اسمارٹ ایگریکلچر (CSA) روایات کی جانب رخ موڑنا شامل ہو سکتا ہے جیسا کہ زیادہ پیداوار دینے والی فصلوں کی جانب منتقلی، پانی کا موثر طور پر انتظام، پانی کے ضیاع میں کمی لانا، پانی کی کمیابی سے نمٹنے اور زرعی پیداوار میں اضافے کے لیے چھوٹے و درمیانے سائز کے ڈیموں کی تعمیر وغیرہ۔

کسان اکثر گنے اور چاول جیسی فصلوں کو اگانے کے لیے سیلابی آب پاشی کے نظام پر انحصار کرتے ہیں۔ ان فصلوں پر پانی کی غیرضروری مقدار صرف ہوتی ہے اور یہ زیرزمین آبی اندوختوں کے خاتمے کا سبب بنتی ہیں۔ جس سے زیرزمین پانی کی سطح میں نمایاں کمی آ جاتی ہے اور سیم و تھور کا باعث ہوتا ہے، جس سے زمین اگلے موسم کی فصلوں کی کاشت کے قابل نہیں رہتی۔ حکومت کو سبسڈی کے ذریعے ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز کے استعمال، کاشت کاری کی جدید تکنیکوں اور کھیتوں کے لیے مشینری کے استعمال کی حوصلہ افزائی اور فصلوں میں تنوع لانا چاہیئے۔

کاربن کے اخراج میں کمی پاکستان کے لیے گلوبل وارمنگ کے اثرات میں کمی لانے کا سبب ہوگی۔ حکومت کو تمام بڑے شہروں میں ماس ٹرانزٹ منصوبے متعارف کروانے اور صارفین کو بجلی سے چلنے والی گاڑیوں پر منتقلی کی ترغیب دینی چاہیئے۔ یہ تیل کی درآمد کے بھاری بھرکم بل میں کمی لانے میں بھی مدد دے گا اور تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے سبب ہونے والی مہنگائی سے بھی عوام الناس کو کچھ سکھ ملے گا۔ صارفین کے لیے سولر پینل کے سازوسامان پر سبسڈی کی شکل میں حکومت شمسی توانائی کے لیے ترغیب دلا سکتی ہے، جو بجلی کی رسد پر بڑھتے دباؤ میں کمی میں مدد دے گی۔

تاہم موسمیاتی تبدیلی کے معاملے سے تن تنہا حکومت نہیں نمٹ سکتی ہے، لہذا کمیونٹی کی مدد بھی ضروری ہے۔ پاکستانیوں کو موسمیاتی تبدیلیوں کے مضر اثرات اور آبی تحفظ کی اہمیت سے بہتر طور پر باخبر کیا جانا چاہیئے۔ پسماندہ کمیونٹیز بشمول غریب، خواتین، معذور اور مقامی گروہوں کی ضروریات اور خدشات سے بہتر طور پر نمٹنے کے لیے کمیونٹیز کی قیادت میں پائیدار ترقیاتی منصوبوں کی تشکیل و نفاذ کیا جانا چاہیئے۔ پاکستان کو ایک ایسی معیشت کی تعمیر پر غور کرنے کی ضرورت ہے جو موسمیاتی تبدیلیوں کے خلاف زیادہ پائیدار، ہمہ گیریت کی حامل اور لچک رکھتی ہو۔ 

***

Click here to read this article in English.

Image 1: Uzair9 via Wikimedia Commons

Image 2: Rao Mubasher via Wikimedia Commons

Share this:  

Related articles

کواڈ کو انڈو پیسیفک میں جوہری خطروں سے نمٹنا ہو گا Hindi & Urdu

کواڈ کو انڈو پیسیفک میں جوہری خطروں سے نمٹنا ہو گا

کواڈ کے نام سے معروف چار فریقی سیکیورٹی ڈائیلاگ کے…

بھارت اور امریکہ کی دفاعی شراکت داری  کے لئے رکاوٹیں اور مواقع  Hindi & Urdu

بھارت اور امریکہ کی دفاعی شراکت داری  کے لئے رکاوٹیں اور مواقع 


سرد جنگ کے دوران جغرافیائی سیاسی نقطہ نظر میں اختلافات…

پلوامہ – بالاکوٹ پانچ برس بعد جائزہ Hindi & Urdu

پلوامہ – بالاکوٹ پانچ برس بعد جائزہ

لمحۂ موجود میں پاکستان، بھارت کے تزویراتی بیانیے سے تقریباً…