پاکستان نے افغانستان سے متعلق اپنے دیرینہ خدشے یعنی وہاں پر بھارت کو وسیع کردار دینے پر تمام سٹیک ہولڈرز بالخصوص امریکہ سے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ پاکستان نے اس خدشے کا اظہار اپنی دفاعی سکیورٹی مفادات کے تناظر میں کیا ہے چونکہ پاکستان سمجھتا ہے کہ بھارت نے اپنی خفیہ ایجنسی ‘را’ کے ذریعے دہشت گرد گروہوں بالخصوص تحریکَ طالبان پاکستان اور بلوچ مزاحمت کاروں کے ساتھ مل کر اس کےلئے دوسرا (مغرب کی طرف سے) محاذ کھول دیا ہے۔ پاکستان اس بات پر بھی بضد ہے کہ را اور افغان ایجنسی نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سکیورٹی (این-ڈی-ایس) کی باہمی ملی بگھت سے پاکستان میں شدت پسندی ہوتی ہے۔ اس بات کا اصرار، پاکستان کے دعوے کہ اسکی سرزمین پر افغان طالبان کی کوئی محفوظ پناہ گاہیں نہیں ہیں، میں بھی کیا جاتا ہے۔ اگر فرض کر لیا جائے کہ پاکستان کے خدشات جائز ہیں تو یہ سوچا جائے کہ پاکستان کا افغانستان میں طریقہ کار کیا ہو گا اور وہ کیسے اقدامات کرے گا؟ پاکستان شدت پسندی سے خالی اور مستحکم گورننس والے افغانستان کہ جس کے پاس اپنے علاقے کا کنٹرول بھی ہو، کو کیسے دیکھے گا ؟ مزید برآں امریکہ کے پاس پاکستان کے سب سے اہم ادارے یعنی فوج (جو مبینہ طور پر کچھ طالبان عناصر کی سرپرستی کرتی ہے)کو مجبور کرنے کےلئے کوئی نظام یا صلاحیت نہیں ہے۔ اس لئے افغانستان سے متعلق پاکستانی نفع و نقصان کی نوعیت میں کوئی تبدیلی نہیں ہو گی چونکہ سیاسی طور پر منقسم افغانستان جس کا اپنے علاقے پر کنٹرول نہ ہو پاکستانی مفاد میں ہے۔
اسلام آباد سےنقطہِ خیال:
افغانستان کی تمام جدید حکومتیں بشمول موجودہ حکومت ڈیورنڈ لائن، جو پشتون آبادی کو پاکستان اور افغانستان میں ۱۸۹۳ کے معاہدے کے مطابق تقسیم کرتی ہے، کو ماننے سے انکاری ہیں۔ تاہم افغانستان میں ایک مستحکم حکومت جس کے اندرونی مسائل سے نمٹنے کے خاطر خواہ چیلنجز نہ ہوں ، پاکستان کے ساتھ ڈیورنڈ لائن کے مسئلے کو اٹھا سکتی ہے۔ بغاوت کے خطرے کے بغیر اور ایسے اثاثوں سے مسلح جو فضاء سے گولہ باری کر سکیں کے ساتھ افغان نیشنل ڈیفنس اینڈ سکیورٹی فورسز ایک ایسی طاقت ہو گی جس سے لڑنا آسان نہیں ہو گا۔ مزید اہم بات یہ ہے کہ ایک متحدہ افغانستان ڈیورنڈ لائن معاملے پر اندرونی طور پر ہم آہنگی کے ساتھ جواب دے گا۔ حتی ٰ کہ طالبان نے بھی ڈیورنڈ لائن کو اپنے دورِ حکومت میں تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا بلکہ سرحد کے آر پار پشتون قومیت پسندی کو اکسایا تھا۔ پاکستان نہیں چاہے گا کہ افغانستان میں ایک پیشہ ور فوج ہو جو ڈیورنڈ لائن معاملے پر اسے ٹھوس چیلنج دے سکے ۔
مستحکم افغانستان؛ بھارت کےلئے بہتر مارکیٹ:
ایک مستحکم افغان حکومت جسے دہشت گردی کی لعنت کا سامنا نہ ہو جنوبی ایشیائی ملکوں بالخصوص بھارت کےلئے وسطی ایشیائی مارکیٹوں تک رسائی کا موجب ہو گا۔ اگرچہ متبادل راستے بھی موجود ہیں تاہم افغانستان ترکمانستان، تاجکستان اور کرغزستان، براستہ چاہ بہار پورٹ ، کےلئے راستوں کا ایک نیٹ ورک کا باعث ہو گا۔ افغانستان بنیادی طور پر زرعی مصنوعات اور قیمتی دھاتوں و معدنی ذخائر کا برآمد کنندہ ہے اس لئےاسکی برآمدات ترقی کرتی بھارتی معیشت کےلئے بہترین مارکیٹ بن سکتی ہیں۔ افغانستان کے زیادہ تر شہری تاریخی تعلقات، ۲۰۰۱ کے بعد ۳ بلیں ڈالر کی ترقیاتی امداد اور بالی وُڈ کے ثقافتی اثر کے باعث بھارت کے بارے میں مثبت رائے رکھتے ہیں ۔ مزید برآں پاکستان سے تنازعات کے باعث افغانستان تجارت کےلئے پاکستان پر انحصار کم کرنا چاہتا ہے۔ ان نقاط کی بدولت افغانستان کےلئے پاکستان کے بجائے بھارت زیادہ پُر کشش آپشن ہو سکتا ہے۔
انحصار:
افغانستان میں تنازعہ پاکستان کو ایک موقع دیتا ہے کہ وہ امریکہ کے ساتھ لین دین کر سکے چونکہ اسلام آباد افغانستان میں لڑنے والی امریکی فوجوں کےلئے سپلائی لائن کےلئے سب سے بہتر آپشن ہے۔ بحیرہ بالٹک اور بحیرہ قزوین کی بندرگاہوں کو افغانستان سے براستہ رُوس اور وسطی ایشیائی ریاستوں کو ملانے والا ناردرن ڈسٹریبیوشن نیٹ ورک (این-ڈی-ایس) سے سپلائی کی قیمت ۱۴۰۰۰ ڈالر فی کنٹینر جبکہ پاکستانی راستے سے یہی قیمت ۷۰۰ ڈالر میں پڑتی ہے۔ اسکے علاوہ اگر امریکہ کو افغانستان میں فوجوں میں اضافہ کرنا ہوا تو اسے این-ڈی-ایس راستے تک رسائی حاصل کرنی ہو گی۔ پاکستان کا جوہری پروگرام ایک اور ایسا عنصر ہے جسکی بدولت پاکستان کے ساتھ محاذ آرائی کے بجائے تعمیری روابط کو قائم رکھنا امریکہ کی مجبوری ہے۔
دباؤ:
پاکستان کی معاشی حالت اسے بیرونی مالیاتی اداروں اور افراد پر منحصر رکھتی ہے۔ تاہم اس انحصاری میں وسیع چینی سرمائے اور بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو کے زیرِ سایہ بننے والے سی-پیک کی وجہ سے خاصی تبدیلی آئی ہے۔ نیچے دئے گئے ٹیبل میں بیرونی قرضوں اور گرانٹ کا خلاصہ بیان کیا گیا ہے۔
Source: Estimates of Foreign Assistance, Federal Budget 2017-18, Government of Pakistan Finance Division
چین کا ۱۸۔۲۰۱۷ کا بجٹ امریکی بجٹ سے واضح طور پر زیادہ ہے۔ مزید برآں سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے ۴ جنوری کو بیان کیا کہ پاکستان کی سکیورٹی امداد کو روک لیا گیا ہے۔ یہ عمل پاکستان کو چین کے مزید قریب کر دے گا۔ اگرچہ امریکہ پاکستان کو فائنینشل ایکشن ٹاسک فورس کے ذریعے نقصان پہنچا سکتا ہے (جہاں پاکستان کے کردار پر نظرِ ثانی ہو رہی ہے) تاہم پاکستانی فوج اس عمل سے بھی نہیں دبکے گی۔ چونکہ اس طرح کی کوئی بھی پالیسی محض سویلین حکومت کےلئے پریشانی کا باعث بنے گی نہ کہ فوج کےلئے۔ دوسری بات یہ ہے کہ پاکستانی فوج چینی ہتھیاروں کو استعمال کرنے والے والا بڑا ملک بن گیا ہے اور اس سے پاکستان کیا امریکہ پر انحصار کم ہو جائے گا۔
پاکستان کا محاسب:
اس ساری بات سے کچھ نتائج اخذ کئے جا سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ افغانستان میں امریکی مفادات کو پُورا کرنے (سب سے بڑا امریکی مفاد ایک مستحکم افغانستان ہے) میں پاکستان کےلئے کوئی فائدہ یا ترغیب نہیں ہے۔ دوسرا یہ کہ امریکہ کے پاس پاکستان کی افغانستان سے متعلق سکیورٹی پالیسی کو بدلنے کا کوئی اثر نہیں ہے۔اور آخری بات یہ کہ معاشی پابندیاں عائد کرنے سے اصل ہدف یعنی پاکستانی سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کی سوچ میں تبدیلی لانا بھی ممکن نہ ہو سکے گا۔ پاکستان اپنی اس تزویراتی سوچ کہ سیاسی طور پر منقسم افغانستان جو اپنے علاقے پر کنٹرول بھی نہ رکھ سکتا ہو، کو دانشمندانہ اور سُود مند سمجھتا ہے بجائے ان خدشات سے ڈرے رہنا کہ امریکہ پاکستانی کمزوریوں کا اپنے مقاصد کےلئے استحصال کر سکتا ہے۔
(اس کالم میں بیان کیا گیا بیانیہ خالصتاً کالم کار کا اپنا ہے اور کالم کار کی ادارے سے وابستگی کے باوجود ادارے کی پالیسی و سوچ کا عکاس ہر گز نہیں ہے۔)
***
.Click here to read this article in English