بھارت اور پاکستان کے مابین بالاکوٹ تنازعے نے جنوبی ایشیاء کے تزویراتی توازن میں ایک اور ہنگامہ خیز باب کا اضافہ کیا ہے۔ فروری ۲۰۱۹ میں بھارت نے پاکستانی حدود کے اندر بالاکوٹ میں مبینہ دہشتگردوں کے اڈے پر فضائی حملہ کیا تھا جو اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ ہوائی حملہ پاکستان سے تعلق رکھنے والے دہشت گرد گروہ کی جانب سے بھارتی زیرانتظام کشمیر میں حملے کے ردعمل میں کیا گیا، جس میں ۴۰ بھارتی سپاہی مارے گئے تھے۔ پاکستان نے ردعمل دیتے ہوئے ایک بھارتی طیارے کو گرا دیا اور پائلٹ گرفتار کرلیا۔ عمل اور ردعمل کے اس سلسلے نے علاقے کے تزویراتی ماحول کی نزاکت کے بارے میں بحث کو چھیڑ دیا ہے۔
اس کے بعد سامنے آنے والی تقریریں خطے کے تزویراتی ماحول کے بارے میں بدلتے ہوئے اور بعض اوقات متضاد بیانیئے کا اشارہ دیتی ہیں۔ یہ متضاد بیانیئے جنوبی ایشیاء سے متعلق ادارک میں اختلاف کے عکاس ہیں، جس کے نتیجے میں تزویراتی اہداف تبدیل ہورہے ہیں۔ جہاں پاکستان اپنے حساب سے تزویراتی ماحول کو غیر متوازن دیکھتا ہے، وہیں بھارت کو خطے میں تزویراتی توازن میں اضافے کا یقین ہے۔ بالاکوٹ کے باعث بھارت کے اس یقین کو مزید تقویت ملی ہے کہ خطے میں اس کا تزویراتی توازن اسے پاکستان پر حملے کا ایسا روایتی راستہ فراہم کرتا ہے جو جنگ کے پھیل جانے کے خطرے سے محفوظ ہے۔ تزویراتی توازن کے بارے میں ایسی متضاد اور عدم مطابقت کی حامل تشریحات، غیر معمولی تزویراتی جوڑ توڑ کا باعث ہوتی ہیں جو نہ صرف دونوں فریقوں کی جوہری ہتھیاروں کے بارے میں حکمت عملی پر بوجھ بنتی ہے بلکہ خطے میں ہتھیاروں کی جارحانہ دوڑ کا خطرہ بھی بڑھا دیتی ہے۔
توازن اور عدم توازن
جنوبی ایشیا میں حقائق کے حوالے سے دوہرے مطالب اور متضاد فہم کا مسئلہ ۱۹۹۸ میں پاکستان اور بھارت دونوں کی جانب سے جوہری ہتھیاروں کے تجربے سے شروع ہوا تھا۔ پاکستان کے لئے بھارت کی روایتی بالادستی ہمیشہ سے اس کی بقا کیلئے خطرہ رہی ہے اور اعلانیہ جوہری صلاحیت کا حامل ہونا خطرے کے بارے میں اس تاثر کو کئی گنا بڑھا چکا ہے۔ ۱۹۸۹-۱۹۸۸ میں افغانستان سے روسی انخلاء کے بعد امریکہ کی جانب سے پاکستان کی حمایت کا جواز باقی نہ رہنا صورتحال کی مزید ابتری کا باعث بنا۔ ۱۹۹۹ کی کارگل جنگ کے دوران امریکہ کی جانب سے انتہائی معمولی سفارتی حمایت سے صاف ظاہر ہوا کہ امریکہ مستقبل میں پاکستان کی حمایت پر رضامند نہیں۔
سفارتی محاذ پر ہونے والی یہ ناکامیاں غالباً پاکستان کواس امر پرقائل کرچکی ہیں کہ بھارت کے ساتھ کسی بھی قسم کی مسلح مہم جوئی کی صورت میں وہ سپرپاور کو مداخلت پر اکسانے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ غیرمتوازن جوہری ماحول پر مبنی تاثر کے سبب پاکستان نے جارحانہ جوہری حکمت عملی کے ذریعے سے دفاعی لحاظ سے اپنی کمزوری کو کم کرنے کی کوشش کی ہے۔ پاکستان نے جوہری تھریش ہولڈ میں کمی کے حامل ڈاکٹرائن کو اپنانے کیلئے اقدامات کئے ہیں جس کے تحت وہ محدود پیمانے پر حملے کی صورت میں بھی جوہری ہتھیار کے ذریعے ردعمل دے سکتا ہے۔ جیسا کہ فیروزخان یقین رکھتے ہیں، بھارت کو روکنے کیلئے پاکستان کے پاس سب سے موثر راستہ یہ ہے کہ وہ پیشقدمی کرتی بھارتی افواج پر جوہری ہتھیاروں کے استعمال میں پہل کی دھمکی دے۔ پاکستان کیلئے، جوہری سطح پر عدم توازن ہی اسے بھارتی خطروں سے تحفظ فراہم کرتا ہے۔ ایک انتہائی متوازن تزویراتی ماحول جس میں جوہری جنگ کا امکان نہ ہو، پاکستان کو جوہری صلاحیت کے سبب حاصل تحفظ کوغیرموثر کردے گا۔ جیسا کہ امریکہ کیلئے پاکستان کے ایک سابق سفیرنے کہا، “پاکستانی تزویراتی حکمت عملی کا مرکزی خیال اس نکتے کے گرد گھومتا ہے کہ روایتی جنگ کے قابو سے باہر ہوجانے کے امکانات ہمیشہ باقی ہوتے ہیں”۔ یہ اعتراف نہ صرف بھارت کو روکے ہوئے ہے بلکہ عالمی برداری کو بھی یہ اشارہ دیتا ہے کہ جوہری تنازعہ ممکن ہے۔
جہاں پاکستان تزویراتی ماحول کو قدرتی طور پر غیر متوازن تصور کرتا ہے، وہیں بھارت اس کے برخلاف اپنا تزویراتی حساب کتاب اس فہم کی بنیاد پر رکھتا ہے کہ ۱۹۹۸ کے بعد جنوبی ایشیاء میں ایک متوازن جوہری ماحول قائم ہوچکا ہے۔ بھارتی تجزیہ کار اور پالیسی ساز جوہری تنازعے کے امکانات معمولی سمجھتے ہیں۔ وہ دلیل دیتے ہیں کہ جب تک بھارت پاکستان کے بنیادی مفادات کو نقصان پہنچانے سے باز رہے گا، تب تک پاکستان اپنے جوہری ہتھیار استعمال نہیں کرے گا۔ بھارت یقین رکھتا ہے کہ اس کی جانب سے بڑے پیمانے پر جوابی کارروائی کا واضح نظریہ پاکستان کو اپنے سٹریٹجک اور ٹیکٹیکل دونوں طرح کے جوہری ہتھیاروں کا بٹن دبانے سے باز رکھنے کیلئے کافی ہے۔
بھارتی اور پاکستانی پالیسی سازوں نے کارگل جنگ اور آپریشن پاراکرم (۲۰۰۱-۲۰۰۲ میں ہونے والے ٹوئن پیک بحران کے نتیجے میں بھارتی افواج کی پیش رفت) سے متضاد سبق سیکھے ہیں۔ بھارت کیلئے کارگل جنگ نے یہ ثابت کیا کہ جنگ کے پھیلنے کے خطرے سے بالاتر ہوکے ایک محدود علاقے میں لڑائی کی جاسکتی ہے۔ سمیت گنگولی لکھتے ہیں کہ بھارتی جانب یہ اعتماد حاصل ہوا کہ کارگل جیسے علاقائی تنازعے جوہری جنگ کی جانب بڑھے بغیر نمٹائے جا سکتے ہیں۔
مزید براں وزیراعظم واجپائی نے صدر کلنٹن کو بتایا تھا کہ بھارت کشمیر میں کئی محاذوں تک اس تنازعے کو پھیلانے کیلئے تیاری کررہا تھا۔ تاہم ، آپریشن پاراکرم کے دوران سست اور بڑے پیمانے پر ہونے والی فوجی پیشقدمی نے پاکستان کو اتنا وقت دے دیا کہ وہ مشرقی سرحد پر اپنی افواج منتقل کرنے کے ساتھ ساتھ کشیدگی میں کمی کیلئے سفارتی ذرائع استعمال میں لاتے ہوئے عالمی دباؤ پیدا کرسکے۔ اس کی وجہ سے پہلے سے موجود اس یقین کوایک بار پھر تقویت ملی کہ بھارت کو حملے آور فوجی دستوں کی تیزرفتار نقل و حرکت کی صلاحیت حاصل کرنا چاہئے۔ بعض مفکرین یہ دلیل دیتے ہیں کہ کارگل اور آپریشن پاراکرم کے وقت ہونے والے واقعات نے بھارت کو قائل کرلیا کہ “محدود جنگ” قابل عمل ہے۔ ۲۹ دسمبر ۲۰۰۱ کو اس وقت کے بھارتی وزیر دفاع جارج فرنینڈس نے کہا تھا ”پاکستان اگرچہ بھارت کی طرح جوہری ہتھیاروں کے استعمال میں پہل نہ کرنے پر مبنی ڈاکٹرائن کا پابند نہیں لیکن وہ انہیں استعمال کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ ہم حملہ سہہ سکتے ہیں اور پھرجوابی حملہ کرسکتے ہیں۔ پاکستان ختم ہوجائے گا۔ مجھے اس کا خدشہ نہیں کہ تنازعے میں جوہری ہتھیاروں کے بارے میں سوچا جائے گا۔“
بھارتی حکمت عملی کے ماہرین کیلئے کارگل جنگ اور آپریشن پاراکرم نے تزویراتی سطح پر توازن کے بھارتی تصور کو مزید تقویت دی۔ جیسا کہ جنرل وی پی ملک نے کہا “پراکسی جنگ یا کم شدت کی لڑائی اور جوہری جنگ کے بیچ خلا موجود ہے جس میں ایک محدود سطح کی روایتی جنگ کا کسی قدر امکان موجود ہے۔“ اسی تزویراتی خیال کی بنیاد پر”محدود پیمانے پر حملے میں پہل” کا بھارتی فوجی ڈاکٹرائن (جو کولڈ سٹارٹ کے نام سے مشہور ہے) وجود میں آیا جو اسے پاکستان پر برق رفتاری سے حملہ کرنے کے قابل بنائے گا۔ بہرحال کولڈ سٹارٹ پرعمل درآمد کی بھارتی صلاحیتیں جو بھی ہوں، پاکستانی ملٹری قیادت اس امر پر قائل دکھائی دیتی ہے کہ کولڈ سٹارٹ ہی ۲۰۰۱ کے بعد سے بھارتی تزویراتی ڈاکٹرائن ہے۔
عدم مطابقت اور مقابلے پر مبنی جوہری پالیسی
علاقائی تزویراتی ماحول کے بارے میں سمجھ بوجھ میں اختلاف مزید جارحیت پر مبنی جوہری پالیسی اور شائد ہتھیاروں کی نہ ختم ہونے والی دوڑ کی جانب لے جاسکتا ہے۔ بھارت سمجھتا ہے کہ علاقائی تزویراتی توازن اسے پاکستانی حمایت یافتہ جنگجو گروہوں کی جانب سے کسی بھی دہشت گردی کی صورت میں انہیں سزا دینے کیلئے روایتی حملے کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ جیسا کہ ایک سینیئر بھارتی افسر نے زور دیا کہ “کم شدت کی جنگ اور جوہری جنگ کے درمیان بہت سا تزویراتی خلا موجود ہے۔“ ۲۰۱۶ کی سرجیکل سٹرائیکس اور بالاکوٹ میں فضائی حملے خطے کے تزویراتی توازن پر بڑھتے ہوئے بھارتی اعتماد کی واضح مثالیں ہیں۔ ان واقعات کا اثر یوں ہوسکتا ہے کہ یہ مستقبل میں کسی بھی تنازعے کی صورت میں ایک یا دونوں فریقوں کو کم شدت کی حامل فوجی کارروائی سے روکیں اور دشمن کو سبق سکھانے کے ان فوجی طریقوں کی شدت میں مزید سے مزید اضافہ ہوتا جائے۔ بھارتی عوام جنہوں نے فضائی حملوں کو سراہا تھا، مستقبل میں اس جیسی یا مزید جارحانہ کارکردگی کا مطالبہ کرسکتے ہیں۔ اگر بھارتی طیارے کو مار گرانا مایوسی کا شکار پاکستانیوں کو اطمینان دے سکتا ہے تو وہ مستقبل میں ایسی ہی انتقامی کاروائیوں کی امید رکھیں گے۔ لہذاٰ سرحد کے دونوں جانب ایسے اقدامات فوج کو ”امنگوں کے جال“ میں الجھا سکتے ہیں۔
خطے کے تزویراتی ماحول کے بارے میں یکسر مخالف ادراک جارحیت پر مبنی جوہری حکمت عملی اور اسلحے کی دوڑ کا سبب بھی ہوسکتا ہے۔ جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا، بھارت کی جانب سے روایتی حملے کو روکنے کیلئے جوہری ہتھیاروں کے استعمال میں پہل پر مشتمل پاکستان کی حکمت عملی اس کی خطے میں غیر متوازن تزویراتی ماحول پر مبنی سوچ کے سبب ہے۔ کوئی بھی جوہری حکمت عملی محض اسی وقت قابل اعتبار ہوتی ہے جب متعلقہ ریاست اس حکمت عملی پر عمل درآمد کے قابل ہو۔ جارحانہ حکمت عملی کو قابل اعتبار ٹھہرانے کی کوشش روایتی اور تزویراتی دونوں کے طرح ہتھیاروں کی دوڑ کو بڑھاوا دے سکتی ہے۔ اپنی حکمت عملی کو معتبر بنانے کیلئے پاکستان نے سرحد کے قریب مختصر فاصلے تک مار کرنے والے نصر میزائلوں کو نصب کرنا شروع کیا ہے۔ سیٹلائٹ سے موصول ہونے والی دستیاب تصویر سے بھی اس تنصیب کی تصدیق ہوئی ہے۔ بھارت نے فروری ۲۰۱۹ میں زمین سے فضاء میں مختصر فاصلے تک مار کرنے والے میزائل ( کیوآرایس اے ایم) کی جدید ترین شکل کا تجربہ کیا تھا۔ کیوآرایس اے ایم فضائی دفاعی نظام اپنی حدود کے اندرآنے والے متعدد اہداف کو نشانہ بنا سکتا ہے اور اسے نصر میزائل کا بھارتی جواب قرار دیا گیا ہے۔
کم از کم دو جوہری ماہرین کا ماننا ہے کہ دیگر عناصر کے علاوہ پاکستان کی جانب سے میدان جنگ کے ہتھیاروں کی تنصیب نے بھارت کو معتبر اور موثر جوابی صلاحیتوں پر غور کرنے پر مجبور کیا ہے۔ بالاکوٹ کے ہفتوں بعد بھارت کی جانب سے اپنے ہی سیٹلائٹ کو نشانہ بنانا جوابی کاروائی کے حوالے سے اسکی سوچ کا مظہر ہوسکتا ہے۔ بیلسٹک میزائل ڈیفنس (بی ایم ڈی) جسے بھارت ابھی تیار کررہا ہے، ان تزویراتی کوششوں کو مزید بڑھاوا دے گا۔
جوابی کارروائی پر مبنی بھارتی سوچ پہلے ہی پاکستان میں بھی اس جیسی ہی مماثل سوچ کو تحریک دے چکی ہے ۔ پاکستان کا دعویٰ ہے کہ اس کا نیا میزائل ڈیلیوری سسٹم ابابیل ایک سے زیادہ اہداف کو بیک وقت نشانہ بنانے کی صلاحیت کا حامل ہے۔ خطے میں بڑھتے ہوئے بیلسٹک میزائل ڈیفنس کے دور میں ایسے ہتھیار، پاکستان کے بیلسٹک میزائلوں کی نہ صرف کارکردگی بڑھانے کا سبب ہوں گے بلکہ یہ جوابی کاروائی کیلئے بذات خود ہتھیار کے طور پر بھی استعمال میں لائے جاسکتے ہیں۔ ہتھیاروں کی یہ بڑھتی ہوئی دوڑ کسی بھی تنازعے کو غیر ارادی طور پر خطرناک حد تک بڑھا دینے کے خطرے سے پر ہے۔
جنوبی ایشیاء ایسے تزویراتی ماحول کی لپیٹ میں ہے جس میں بھارت اور پاکستان دونوں ایک دوسرے سے مخالف فہم رکھتے ہیں، جس کی وجہ سے مستقبل میں بھارت اور پاکستان کے مابین ٹکراؤ کی صورت میں کشیدگی کو ہوا ملنے کا امکان موجود ہے۔
***
.Click here to read this article in English
Image 1: pxhere
Image 2: Prakash Singh via Getty