50633161242_375baa84bd_o-1095×616

اقتدار پر قبضے کے تقریباً تین ماہ اور عبوری حکومت کے اعلان کے تقریباً دو ماہ بعد بھی افغانستان میں طالبان کی حکومت کو کسی ایک ملک کی جانب سے بھی تسلیم نہیں کیا گیا ہے۔ اندیشہ ہے کہ یہ تنہا ہوجائیں گے بالکل اسی طرح جس طرح ۱۹۹۰ کی دہائی کے اختتام پر انہوں نے کابل کا اختیار تو سنبھال لیا تھا لیکن محض تین ممالک، پاکستان، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب، کے ساتھ ان کے رسمی تعلقات تھے۔ اس بار بھی اگر بین الاقوامی برادری میں سے کسی جانب سے انہیں تسلیم کیے جانے کی امید ہے تو وہ امریکہ یا دیگر مغربی ممالک سے نہیں بلکہ افغانستان کے پڑوس میں واقع ممالک سے  ہے۔

تسلیم کریں یا نا کریں

بین الاقوامی قانون میں تسلیم کرنے کے عمومی معنی حکومت کو قانونی، جائز، اپنے خطے پر پورے اختیار کی مالک اور بین الاقوامی برادری میں رسمی شمولیت کی حقدار سمجھنے کے ہوتے ہیں۔ تاہم حقیقت میں بہت سے مختلف عوامل تسلیم کے فیصلے کا سبب بنتے ہیں۔

طالبان کو تسلیم کرنے کے معاملے میں امریکہ (اور زیادہ تر مغرب)  کا مستقبل کا فیصلہ انسانی حقوق اور تمام طبقوں کی شمولیت کے بارے میں  طالبان کی سوچ پر منحصر ہوگا۔ طالبان حکومت جو اپنے اولین نظریے پر سمجھوتا نہیں کرنے لگی، ان شرائط کو پورا کرتی دکھائی نہیں دیتی ہے۔ نتیجتاً امریکہ کا طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کا دور دور تک امکان دکھائی نہیں دیتا ہے۔ خطے میں موجود کردار جغرافیائی عناصر کی وجہ سے آخر کار تسلیم کر سکتے ہیں۔ تاہم ابھی کے لیے وہ بھی انتظار کرو اور دیکھو کی سوچ پر عمل پیرا ہیں خاص کر کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے وہ سلامتی میں مستقل بہتری دیکھنا چاہتے ہیں۔

امریکہ اور تسلیم کرنا

طالبان کے اقتدار پر قابض ہونے سے قبل امریکی حکام نے کہا تھا کہ گروہ کے بذریعہ طاقت اقتدار میں آنے کی صورت میں اسے تسلیم نہیں کیا جائے گا جس کا یہ مطلب نکلتا تھا کہ اگر طالبان نے پرامن طریقے سے طاقت حاصل کی، جو عین ممکنہ طور پر اشرف غنی حکومت کے ہمراہ مذاکرات کے ذریعے شراکت اقتدار کے کسی معاہدے کی صورت میں ہوتی، تو ایسے میں اسے تسلیم کیا جاتا۔

واشنگٹن میں شائد ہی کسی نے یہ گمان کیا ہو کہ طالبان افغان  جمہوریہ کے مکمل اور اچانک انہادم کی وجہ سے پرامن طور پر اقتدار سنبھال لیں گے نا کہ بذریعہ مذاکرات یا رسمی طور پر انتقال اقتدار کے ذریعے۔ بائیڈن حکومت نے اشارہ دیا ہے کہ فی الوقت وہ طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ طالبان کو اسی صورت میں تسلیم کیا جائے گا کہ جب وہ ایسے اقدامات کریں گے جو ہمہ گیریت (یعنی کہ غیر طالبان رہنما، بشمول خواتین کو حکومت میں شامل کیا جائے) اور انسانی حقوق، خاص کر حقوق نسواں کو فروغ دیں گے۔

 اس بارے میں یہ بحث کی جا سکتی ہے کہ تسلیم کرنے کو حقوق سے منسلک کرنا گمراہ کن  ہے کیونکہ واشنگٹن بارہا ظالم اور جابر حکومتوں کو تسلیم کرتا ہے اور ان کے ساتھ قریبی روابط رکھتا ہے۔  تاہم امریکی نقطہ نگاہ سے طالبان کا معاملہ مختلف ہے۔

اول تو یہ کہ سرد جنگ کے دوران لاطینی امریکہ میں کمیونسٹ مخالف آمریتوں سے شراکت داری سے لے کر مشرق وسطیٰ میں مطلق العنان حکومتوں سے حالیہ اتحادوں تک جس نے اسلامی دہشت گردی سے نمٹنے میں مدد دی تھی، واشنگٹن کے جابرانہ حکمرانوں سے تعلقات نے امریکی مفادات کا تحفظ کیا ہے۔ تاہم واشنگٹن کے ایسے مفادات نہیں ہیں جو اسے  طالبان کے ہمراہ شراکت داری پر اکسائیں۔ صدر بائیڈن واشگاف الفاظ میں کہہ چکے ہیں کہ ماحولیاتی تبدیلیوں سے لے کے چین سے مقابلے تک امریکہ کی ترجیحات افغانستان سے کہیں زیادہ بڑی ہیں۔

مزید براں، طالبان سفاکیت کو ایک نئی سطح تک لے جا چکے ہیں۔ ان کے کئی ملکوں تک پھیلے ہوئے اور علاقائی دہشت گرد گروہوں، جیسا کہ القاعدہ اور پاکستانی طالبان، سے گہرے تعلقات ہیں اور وہ ان کو بےحد احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ان کی شاخ حقانی نیٹ ورک جو فی الوقت وزارت داخلہ اور پناہ گزینوں کی وزارت چلا رہی ہے، کو امریکہ کی جانب سے دہشت گرد تنظیم قرار دیا جا چکا ہے اور کئی ایسے حملوں سے اس کا تعلق ہے جس میں امریکی جانوں کا بھاری نقصان ہوا۔ طالبان کی بعض پالیسیاں مثلاً بڑی بچیوں کو اسکول جانے سے روکنا ایسی ہیں جس کی سعودی عرب سمیت دیگر ممالک میں کوئی مثال نہیں ملتی۔

لیکن اس کے باوجود بعد از انخلاء کے افغانستان میں امریکہ کے بنیادی مفادات طالبان سے روابط کے متقاضی ہیں۔ اسے ملک چھوڑنے کے خواہشمند باقی ماندہ امریکیوں کے پرامن طریقے سے انخلاء کو یقینی بنانے کیلئے طالبان کی ضرورت ہے۔ اسے طالبان کی جانب سے اس یقین دہانی کی ضرورت ہے کہ وہ انسانی زندگیوں کے لیے ضروری سامان کی آمد و تقسیم کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنیں گے۔ بائیڈن انتظامیہ نے  ریاست اسلامیہ خراسان (آئی ایس-کے) جو کہ دونوں کی مشترکہ مخالف ہے، اس کیخلاف دہشتگردی کی جنگ میں طالبان کی معاونت کی خواہش ظاہر نہیں کی ہے لیکن اگر واشنگٹن افغانستان کے پڑوسیوں کے ہمراہ اڈوں کی فراہمی یا انٹیلی جنس تبادلے کے معاہدے نہیں کر پاتا ہے تو ایسے میں انٹیلی جنس تعاون کی ضرورت کو رد نہیں کیا جا سکتا ہے۔

 

تسلیم کیے بغیر روابط کی کشمکش سے بچنے کیلئے  واشنگٹن سی آئی اے پر انحصار کر رہا ہے۔ دفتر خارجہ کے حکام ایک ایسی حکومت کے ہمراہ مذاکرات نہیں کرسکتے ہیں جس کے ساتھ واشنگٹن کے سفارتی تعلقات نہ ہوں۔ البتہ سی آئی اے خفیہ طور پر روابط رکھ سکتی ہے۔ اگر امریکیوں کی طالبان سے بات چیت کی خبریں منظرعام پر آئیں تو ایسے میں حکام قابل فہم تردید کر سکتے ہیں۔ تاہم انتظامیہ نے سی آئی اے کی سربراہی میں طالبان سے دو ملاقاتوں سے انکار نہیں کیا ہے جن میں سے ایک سی آئی اے ڈائریکٹر بل برنز سے تھی اور دوسری دوہا میں طالبان رہنماؤں سے بات چیت جس میں وفد کی قیادت سی آئی اے کے ڈپٹی ڈائریکٹر نے کی تھی۔

خطہ اور تسلیم کرنا

افغانستان کے پڑوسی اور دیگر علاقائی کردار اپنی جغرافیائی حیثیت کے سبب امریکہ یا دیگر مغربی ممالک کے مقابلے میں طالبان حکومت کے ہمراہ رسمی تعلقات کے لیے زیادہ مضبوط محرکات رکھتے ہیں۔ تسلیم کرنے کا عمل سرحد پار تجارت اور نئے انفراسٹرکچر کیلئے سرمایہ کاری میں معاون ہوگا، سرحدی سلامتی کیلئے معاونت بڑھائے گا، اور طالبان کے ہمراہ مل کے کام کرنے کے مزید مواقع پیدا ہوں گے تاکہ افغانستان کی صورتحال کے سبب اپنے ملک کی معیشت پر ممکنہ ناخوشگوار اثرات کو کم کیا جاسکے۔ ان اثرات میں پناہ گزینوں کی آمد، سرحد پار دہشت گردی اور منشیات کی اسمگلنگ شامل ہیں۔ اور امریکہ جو فاصلے پر ہونے کی سہولت سے فائدہ اٹھا رہا ہے اس کے لیے یہ خطرات فوری نوعیت کے نہیں ہیں ۔

تاہم فی الوقت علاقائی کرداروں نے تسلیم کرنے کے معاملے کو نظرانداز کیا ہے اور اس کے بجائے وہ اس طور پر روابط کر رہے ہیں جنہیں معمول کا قرار نہیں دیا جا سکتا ہے۔ روس، چین، ایران، پاکستان اور وسطی ایشیائی ریاستوں کے حکام طالبان سے ملاقاتیں کر چکے ہیں۔ حتیٰ کہ اسلام آباد طالبان حکام کو پاکستان میں سفارتی مورچے سنبھالنے کے لیے بھی مدعو کر چکا ہے۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ علاقائی کردار یہ سوچنے کے باوجود کہ طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے سے وہ طالبان کے ہمراہ کام کرنے کی زیادہ بہتر حیثیت میں ہوں گے تاکہ سلامتی کو لاحق خطرات کو کم کیا جاسکے،  ممکنہ طور پر وہ تسلیم کے فیصلے کو  سلامتی کی وسیع تر صورتحال پر یقین دہانی تک موخر کریں گے۔ علاقائی کرداروں کے لیے تسلیم کا پیمانہ سلامتی کی صورتحال ہوگی، بالکل اسی طرح جس طرح امریکہ کے لیے یہ پیمانہ حقوق ہوں گے۔

وہ یہ دیکھنا چاہیں گے کہ آیا طالبان شدید نوعیت کے انسانی و معاشی بحران میں کمی لاسکتے ہیں، اندرونی تقسیم کو دورکرپاتے ہیں، دہشتگردی کے خطروں سے نمٹتے ہیں اور اقتدار پر اپنی گرفت کو زیادہ وسیع معنوں میں مضبوط  کر پاتے ہیں یا نہیں۔ اگر ان میں سے کوئی ایک بھی ہدف پورا نہ ہو سکا تو ایسے میں سلامتی کی صورتحال ابتر ہو سکتی ہے اور نئی مسلح جدوجہد سے لے کے پناہ گزینوں کی تعداد میں اضافے تک عدم استحکام کے حامل نتائج پیدا ہوسکتے ہیں۔ عدم استحکام کی کیفیت، افغانستان میں علاقائی کرداروں کے کام کرنے کی صلاحیتوں کو محدود کرے گی جو تسلیم کرنے کی صورت میں فوائد کی نفی ہوگی۔

علاقائی کرداروں کے لیے افغانستان سے ہونے والی دہشتگردی تشویش کی ایک بڑی وجہ ہے۔ سب آئی ایس- کے سے پریشان ہیں۔ بیجنگ یغور کے عسکریت پسندوں اور اسلام آباد پاکستانی طالبان (ٹی ٹی پی) سے پریشان ہے۔ نئی دہلی بھارت مخالف گروہوں سے  پریشان ہے۔

علاقائی کردار اگر اور جب بھی سلامتی کی صورتحال سے مطمئن ہوگئے تو بعض کی جانب سے تسلیم کیا جانا متوقع ہے۔ ان میں پاکستان، جو طویل عرصے سے طالبان کا معاون رہا ہے اور چین جس نے حالیہ برسوں میں طالبان کے ہمراہ قریبی روابط رکھے ہیں، سرفہرست ہیں۔ اسلام آباد اور ٹی ٹی پی کے درمیان ایک مہینے کے لئے جنگ بندی کے نئے معاہدے میں طالبان کی ثالثی اور یغور کے عسکریت پسندوں پر بیجنگ کی تشویش کے معاملے پر طالبان کے توجہ دینے کی اطلاعات اس امر کا امکان بڑھا دیتی ہیں کہ پاکستان اور چین وہ دو ابتدائی ممالک ہوں گے جو طالبان کوتسلیم کرنے کیلئے تیار ہوں گے۔ روس اور ایران بھی شائد زیادہ پیچھے نہ رہیں تاہم افغانستان کی شیعہ برادری کے حوالے سے خدشات اور حکومت میں شیعہ نمائندگی کی کمی کی وجہ سے تہران زیادہ محتاط ہوگا۔

بہت سے (ممالک) مخالفین بھی ہیں۔ تاجکستان جس نے بڑی حد تک داخلی سیاسی وجوہات کی بنا پر طالبان کیخلاف سخت گیر موقف اپنایا ہے اور افغان مزاحمتی رہنماؤں کو پناہ دے رکھی ہے، سلامتی کی صورتحال خواہ کچھ بھی ہو اس کی جانب سے  تسلیم کیے جانے کا امکان نہیں ہے۔ اسی طرح طالبان کے پاکستان سے قریبی تعلقات، افغانستان میں بھارتیوں پر ماضی میں حملے اور نئی دہلی کے طالبان سے ابلاغ کے نہایت محدود ذرائع کو دیکھتے ہوئے بھارت کی جانب سے بھی تسلیم کیے جانے کا معمولی امکان ہے۔

تسلیم کے لیے فوری امتحان

طالبان کو تسلیم کرنے پر بحث خالصتاً کتابی نوعیت کی نہیں ہے۔ افغانستان کا بدترین انسانی بحران جسے بین الاقوامی غذائی منصوبے کے ڈائریکٹر حال ہی میں دنیا کا بدترین قرار دے چکے ہیں، عملی دنیا کے داؤ پر لگے مفادات کو بھی اجاگر کرتا ہے۔ بین الاقوامی برادری اس نتیجے پر پہنچ چکی ہے کہ وہ افغانستان کی حکومت کو تسلیم کیے بغیر انسانی معاونت کر سکتی ہے کیونکہ وہ  براہ راست حکومت کو امداد کی فراہمی کے بجائے اقوام متحدہ کی ایجنسیوں اور وہاں موجود نجی خیراتی اداروں کے ہمراہ کام کرسکتی ہے۔

تاہم طالبان کے اقتدار میں آنے سے قبل افغانستان پبلک فنڈنگ کے ضمن میں ۷۵ فیصد تک بین الاقوامی معاونت پر انحصار کرتا تھا۔ اسے محض کھانے پینے کے سامان اور انسانی امداد کے علاوہ وسیع پیمانے پر ترقیاتی اور مالی معاونت کی بھی اشد ضرورت ہے تاکہ معیشت کو متوازن بنایا جا سکے اور عوام کو ریلیف دیا جاسکے۔ دوسری جانب امریکہ کے لیے حکومت کو تسلیم کیے بغیر کابل کو امداد، بشمول ۱۰ بلین ڈالر کے زرمبادلہ کے ذخائر جنہیں واشنگٹن نے منجمد کر دیا تھا،  فراہم کرنے کا جواز پیش کرنا بہت مشکل ہے۔ درحقیقت، تسلیم کے فیصلے کا لاکھوں افراد کی فلاح و بہبود اور بقا پر براہ راست اثر پڑے گا۔ 

***

Click here to read this article in English.

Image 1: U.S. Department of State via Flickr

Image 2: MFA Russia via Flickr

Share this:  

Related articles

کواڈ کو انڈو پیسیفک میں جوہری خطروں سے نمٹنا ہو گا Hindi & Urdu

کواڈ کو انڈو پیسیفک میں جوہری خطروں سے نمٹنا ہو گا

کواڈ کے نام سے معروف چار فریقی سیکیورٹی ڈائیلاگ کے…

بھارت اور امریکہ کی دفاعی شراکت داری  کے لئے رکاوٹیں اور مواقع  Hindi & Urdu

بھارت اور امریکہ کی دفاعی شراکت داری  کے لئے رکاوٹیں اور مواقع 


سرد جنگ کے دوران جغرافیائی سیاسی نقطہ نظر میں اختلافات…

پلوامہ – بالاکوٹ پانچ برس بعد جائزہ Hindi & Urdu

پلوامہ – بالاکوٹ پانچ برس بعد جائزہ

لمحۂ موجود میں پاکستان، بھارت کے تزویراتی بیانیے سے تقریباً…