49425477272_6a0430cf30_5k-1095×616

۱۴ جنوری کو پاکستان نے اپنی پہلی اور جامع قومی سلامتی پالیسی (این ایس پی) کا اعلان کیا۔ اس نئی پالیسی نے جلد ہی عسکری و سیاسی حلقوں سے لے کے مفکرین و تجزیہ کاروں میں ایک بحث کو جنم دیا۔ یہ دستاویز اس اعتبار سے منفرد ہے کہ یہ شہریوں کے گرد گھومتی ہے اور روایتی، معاشی و انسانی سلامتی کے درمیان ربط کو کھنگالتی ہے۔ 

این ایس پی، جغرافیائی سیاست کے بجائے جغرافیائی معیشت کو پاکستان کی قومی سلامتی کی بنیاد بنانے کی  اسلام آباد کی خواہش میں تسلسل پر روشنی ڈالتی ہے۔ پالیسی میں جہاں معاشی سلامتی کو قومی سلامتی کی ریڑھ کی ہڈی کے طور پر شناخت کیا جانا قابل غور ہے وہیں ۵۰ صفحات پر مشتمل پالیسی کا پبلک ورژن (۱۱۰ صفحات پر مشتمل مکمل ورژن بدستور خفیہ ہے) اس معاشی سلامتی کے حصول کے لیے تفصیلاً بیان کردہ قابل عمل اہداف سے عاری  ہے۔ بہت سے تجزیہ کار اور بذات خود دستاویز یہ اشارہ دیتی ہے کہ پالیسی کا مقصد پاکستان کے قومی سلامتی ڈھانچے کے لیے ”ہدایت کی طرز پر تزویراتی رہنمائی کی فراہمی“ ہے۔

 اور اگر این ایس پی ایسی رہنما ہے جو منزل تک نہیں پہنچاتی تاہم اس کے لیے ذریعہ بنتی ہے تو بھی اس کی بعض پالیسیاں ایک دوسرے سے متصادم دکھائی دیتی ہیں۔ یہ امر ماحولیاتی تبدیلی کے بڑھتے ہوئے خطرے پر این ایس پی کی خصوصی توجہ کی صورت میں نمایاں طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ جہاں وہ ساتھ ہی ساتھ نان ری نیو ایبل توانائی کے گرد گھومتے علاقائی روابط کے منصوبوں جیسا کہ ترکمانستان، افغانستان، پاکستان، بھارت پائپ لائن (تاپی) اور پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) پر بھی زور دیتا ہے۔ مزید یہ کہ این ایس پی جہاں جغرافیائی معاشی اہداف کو سہارا دینے کے لیے علاقائی تعلقات پر توجہ دیتا ہے، وہیں یہ ادراک بھی ضروری ہے کہ ان پالیسیوں کے لیے داخلی سطح پر معاشی تبدیلیوں کی بھی ضرورت ہو گی۔

اہم پالیسی نکات

معاشی سلامتی کو قومی سلامتی کی بنیادوں میں رسمی طور پر جگہ دینا ایک اہم پیش رفت ہے کیونکہ  یہ اس معاشی استحکام کے حصول میں مدد کرتی ہے جسے ممکن بنانے کے لیے ملک طویل عرصے سے پرعزم ہے۔ پالیسی پاکستان کو دنیا کے لیے ایک معاشی گڑھ کے طور پر پیش کرنے کا تصور کرتی ہے۔ ملکی قیادت  پاکستان کے محل وقوع  کو تجارت اور رابطے کے لیے استعمال میں لاتے ہوئے غیر جانبدارانہ ترقیاتی اقدامات اٹھانے اور پاکستان کو قابل بھروسہ تجارتی شراکت دار کے طور پر بروئے کار لانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ یہ امر قابل غور ہے کہ این ایس پی نے علاقائی روابط کے تصور کو زیادہ وسعت دی ہے جو کہ تجارتی شراکت داریوں کے مقابلے میں زیادہ باریکیوں کا حامل ہے۔ اسلام آباد نا صرف تجارتی تعلقات میں اضافے کے لیے پرامید ہے بلکہ یہ ٹرانزٹ روٹس، کثیرالملکی انرجی نیٹ ورکس اور مشترکہ ماحولیاتی اقدامات کے ذریعے وسیع تر علاقائی انضمام کا بھی خواہاں ہے۔

این ایس پی، ہر صورت میں پالیسی کے ضمن میں پاکستان کی سوچ میں تسلسل کو نمایاں کرتا ہے۔ جغرافیائی سیاست سے جغرافیائی معیشت کی جانب منتقلی سول -ملٹری قیادت کی جانب سے گزشتہ برس اسلام آباد سیکیورٹی ڈائیلاگ میں پہلی بار متعارف کروائی گئی تھی۔ قبل ازیں خان حکومت پر پالیسیوں میں عدم تسلسل کا الزام لگتا رہا ہے جیسا کہ کابینہ میں متواتر ردوبدل اور بھارت سے تجارت کے فیصلے سے پیچھے ہٹنا وغیرہ۔  قومی سلامتی پالیسی میں جغرافیائی معیشت پر توجہ یہ تجویز کرتا ہے کہ حکومت اس ضمن میں ٹھوس اقدامات کے ذریعے اپنے وعدوں کو پورا کرنا چاہتی ہے۔

مزید یہ کہ پاکستان کی مندرجہ تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ جب قومی سلامتی کی پالیسی نے غیر روایتی سلامتی خطرات کو روایتی خطرات کے  برابر حیثیت دی ہے۔  یہ امر کہ جنوبی ایشیا کا سلامتی ڈھانچہ معاشی یا فوجی طاقت کے استعمال سے جڑے خطرات کی بنیاد پر تشکیل پایا ہے اور اپنے جوہری حریف سے ماضی کی لڑائیوں کو دیکھتے ہوئے اسلام آباد نے  سلامتی کو ہمیشہ سے بحری، بری اور فضائی شعبوں میں جوہری و عسکری خطرات کی شکل میں تصور کیا ہے۔ عسکری خطرات کے مقابلے میں غیر روایتی خطرات کو ماضی میں کبھی بھی برابری کی سطح پر نہیں دیکھا گیا تھا۔ تاہم این ایس پی ماحولیاتی تبدیلیوں کے اس کردار کا اعتراف کرتا ہے جو وہ مقامی ذرائع معاش کو متاثر کرنے میں ادا کر سکتا ہے جیسا کہ شمالی گلیشیئرز کے برق رفتاری سے پگھلاؤ کے آبی وسائل پر اثرات،  فصلوں کی افزائش میں خلل، اور بڑھتا ہوا غذائی عدم تحفظ ۔ کووڈ ۱۹ وبا کے داخلی معیشت اور بین الاقوامی سپلائی چین پر رونما ہونے والے اثرات کے پیش نظر اس جانب توجہ عین موزوں ہے ۔

اسلام آباد نے  ماحولیاتی تبدیلیوں اور سائبر شعبوں میں ابھرتے  ہوئے سلامتی خطرات سے نمٹنے کے لیے معاشی سلامتی کی ضرورت پر آواز بلند کی ہے۔ اسلام آباد کو یقین ہے کہ معاشی اعتبار سے باہمی انحصار، عالمی معیشت پر اثرات اور وسائل کی وسیع تر پیمانے پر دستیابی کے ذریعے  وہ اپنے سرمائے کا رخ انسانی فلاح اور ہارڈ سیکیورٹی پیش رفت، دونوں کی جانب موڑ سکتا ہے۔ این ایس پی نے نا صرف غیر روایتی خطرات کو ”سنجیدہ“ قرار دیتے ہوئے انہیں جائز مقام دیا ہے بلکہ سلامتی کے تصور کو بھی وسعت دی ہے۔ مثال کے طور پر یہ پالیسی پاکستان میں صنفی تحفظ کی اہمیت کو تسلیم کرنے کے اعتبار سے منفرد ہے۔

معاشی سلامتی اور علاقائی روابط کے بارے میں ابہام

 پاکستان کی تزویراتی اور سلامتی پالیسی کے لیے ہدایت فراہم کرنے کے عمل میں این ایس پی کے مختلف حصے ایک دوسرے سے میل کھاتے دکھائی نہیں دیتے ہیں۔

پالیسی میں ایسا دکھائی دیتا ہے کہ داخلی معیشت کی نسبت علاقائی معیشت پر زیادہ توجہ دی گئی ہے۔ مثال کے طور پر پالیسی علاقائی روابط کے باب میں  سی پیک کو ایک مثالی نمونے کے طور پر پیش کرتے ہوئے منصوبے کو ”داخلی پیداوار کو تیزی کے ساتھ شروع کرنے کے قابل پاکستان کی معیشت کے لیے ایک محرک“ قرار دیتی ہے۔ تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ آیا سی پیک مقامی سطح پر خوشحالی اور ترقی کا باعث بنا ہے۔ پاکستان میں مقامی فرمز نے قبل ازیں سی پیک کے فیز ون کے منصوبوں میں چینی کی سرکاری انٹرپرائزز کے مقابلے میں آزادانہ حصہ نہ ملنے کی شکایت کی تھی۔ اس امر کا تخمینہ مزید اہم ہوتا کہ آیا علاقائی رابطوں کے منصوبے صلاحیتوں کو بڑھانے، تحقیق و ترقی اور علم و ٹیکنالوجی کی منتقلی کو یقینی بناتے ہیں یا نہیں۔

این ایس پی اس ضمن میں بھی واضح ہدایات دیتا دکھائی نہیں دیتا کہ ملک کو داخلی سطح پر کیسے معاشی سلامتی حاصل کرنی چاہیئے۔ پالیسی جہاں تجارت اور سرمایہ کاری کی خاطر برآمدی اہداف اور صنعتی جال کو وسیع کرنے کی خواہاں ہے وہیں اس کا بمشکل تذکرہ ہے کہ ملک ایسا کس طرح کرے گا۔ مثال کے طور پر ایسے شعبوں اور مصنوعات کا کوئی تذکرہ شامل نہیں ہے کہ جن کا پاکستان فائدہ اٹھا سکے اور اپنی برتری قائم رکھ سکے۔ دستاویز میں جہاں زراعتی شعبے میں بڑھتی ہوئی پیداوار کا تذکرہ ہے، وہیں یہ نکتہ قابل غور ہے کہ زراعتی شعبے کی بنیاد پر ہونے والی تجارت پاکستان کے لیے شائد پائیدار نہ ہو کیونکہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات زراعتی پیداوار کو ممکنہ طور پر کم کر سکتے ہیں۔ انسانی سلامتی کے باب میں، این ایس پی بذات خود کھیتی باڑی کی زمینوں اور فی کیپیٹا پانی کی دستیابی میں ہونے والی کمی کے زراعتی بنیادوں پر استوار معیشت پر اثرات کے لیے آواز اٹھاتی ہے۔ آنے والے برسوں میں شائد پاکستان بین الاقوامی منڈی میں اپنی زراعتی مصنوعات کا فائدہ نہ اٹھا سکے۔ سرمایہ کاری کے لیے شعبوں کی نشاندہی کے علاوہ اسلام آباد کو پالیسیوں اور ضابطے کے اقدامات جیسا کہ ٹیکسوں میں عدم تسلسل سے نمٹنا ہوگا تاکہ پائیدار معاشی سلامتی حاصل کی جا سکے۔

اسی طرح پہلے سے جاری روابط کے منصوبے این ایس پی کے توانائی کی سلامتی کے  عزائم  کی نفی ہیں۔ پائیدار علاقائی روابط کے عزائم کے ضمن میں این ایس پی توانائی کی درآمد میں کمی اور اس کی جگہ دوبارہ قابل استعمال ذرائع توانائی میں سرمایہ کاری کے ذریعے پاکستان کی توانائی کی سلامتی کو آگے بڑھاتا ہے۔ ایک جانب تو پالیسی یہ بیان کرتی ہے کہ ”۲۰۳۰ پاکستان کی توانائی کا ساٹھ فیصد حصہ صاف توانائی پر مشتمل ہونا چاہیئے۔“ دوسری جانب پاکستان وسط ایشیائی ریاستوں میں دستیاب وافر مقدار میں توانائی اور جنوبی ایشیا میں بڑھتی ہوئی طلب کے پیش نظر وسط ایشیائی ریاستوں کو جنوبی ایشیائی ریاستوں سے جوڑنے کے لیے بیتاب ہے۔ یوں، ان ریاستوں کو ملانے والے منصوبے جو دوبارہ ناقابل استعمال توانائی کے ذرائع پر انحصار کرتے ہیں، جیسا کہ تاپی گیس پائپ لائن منصوبہ پالیسی کی نفی کرتے ہیں۔

علاقائی روابط کے منصوبوں کو خطے کو درپیش ماحولیاتی نزاکتوں کا ادراک کرنا چاہیئے۔ پائیدار علاقائی روابط کو یقینی بنانے کے طریقوں  میں سے ایک یہ ہو سکتا ہے کہ ایسی شراکت داریاں قائم کی جائیں جو آلودگی سے پاک، معاشی طور پر قابل عمل اور محفوظ نوعیت کی توانائی کی ٹیکنالوجی کی بنیاد پر ہوں۔ این ایس پی کی تجویز کہ ”قابل تجدید ذرائع کے ذریعے توانائی کی پیداوار میں اضافہ کیا جائے“ سے مطابقت اختیار کرتے ہوئے پاکستان صاف توانائی کی ٹیکنالوجی  میں سرمایہ کاری کے حوالے سے شراکت داریوں پر توجہ مرکوز کر سکتا ہے۔ عالمی بنک کی ایک تحقیق یہ تجویز کرتی ہے کہ  پاکستان کی شمسی اور بادی توانائی کے ذریعے پاکستان کی ۳۰ فیصد بجلی کی پیداوار ۲۴۰۰ میگا واٹ تک بجلی پیدا کر سکتی ہے جو توانائی کے شعبے میں وسیع تر سلامتی کا اشارہ دیتی ہے۔

درست سمت میں پہلا قدم

قومی سلامتی پالیسی بلاشبہ پاکستان کے لیے ایک سنگ میل ہے۔ پاکستان میں پہلی بار قومی سلامتی پالیسی ”دفاع اور فلاحِ عام کی واضح تقسیم میں بٹے سرکاری اخراجات“ کو غیر اہم قرار دیتے ہوئے انسانی محور کے گرد گھومتی معاشی ترقی کو اہمیت دیتی ہے۔ تاہم اس کے بعد عملی اقدام بھی نظر آنا چاہیئے جو کہ عسکری اخراجات کے مقابلے میں انسانی ترقی کے لیے مختص کیے جانے والے وسائل اور بجٹ کے لیے جواز فراہم کر سکیں۔ پاکستان اپنی داخلی معیشت کو بڑھاوا دینے کے لیے  واضح اور قابل عمل اہداف اور خطے میں ماحولیاتی حقائق کے زیادہ گہرائی میں ادراک کے بغیر معاشی سلامتی بھی نہیں حاصل کر سکتا ہے۔ یہ پالیسی جہاں انتہائی ناگزیر جغرافیائی معاشی عزائم کو تعبیر کا روپ دینے کے لیے انتہائی اہم ہے، وہیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ہدایات کو پوری طرح سمجھا نہیں گیا ہے۔ تاہم درست سمت کی جانب یہ پہلا قدم ہے۔

***

Click here to read this article in English.

Image 1: World Economic Forum via Flickr

Share this:  

Related articles

کواڈ کو انڈو پیسیفک میں جوہری خطروں سے نمٹنا ہو گا Hindi & Urdu

کواڈ کو انڈو پیسیفک میں جوہری خطروں سے نمٹنا ہو گا

کواڈ کے نام سے معروف چار فریقی سیکیورٹی ڈائیلاگ کے…

بھارت اور امریکہ کی دفاعی شراکت داری  کے لئے رکاوٹیں اور مواقع  Hindi & Urdu

بھارت اور امریکہ کی دفاعی شراکت داری  کے لئے رکاوٹیں اور مواقع 


سرد جنگ کے دوران جغرافیائی سیاسی نقطہ نظر میں اختلافات…

پلوامہ – بالاکوٹ پانچ برس بعد جائزہ Hindi & Urdu

پلوامہ – بالاکوٹ پانچ برس بعد جائزہ

لمحۂ موجود میں پاکستان، بھارت کے تزویراتی بیانیے سے تقریباً…