China-Pakistan

پاکستان اور چین نے حال ہی میں اپنے سفارتی تعلقات کے ۶۹ برس مکمل ہونے کا جشن منایا ہے۔ اس موقع پر چینی وزارت خارجہ کے ترجمان نے یقین دہانی کروائی کہ دونوں ممالک کے درمیان دوستی ”فولاد سے زیادہ مضبوط“  ہے۔ گزشتہ سات دہائیوں کے دوران پاک چین تعلقات میں نمایاں اضافہ ہوا ہے تاہم  امریکہ، چین کے ساتھ اپنے بڑھتے مقابلے کے سبب ان تعلقات کے حوالے سے حالیہ دنوں میں زیادہ چوکس ہوا ہے۔ جنوبی ایشیائی امور پر گہری نگاہ رکھنے والے معروف تجزیہ کار ڈینیئل مارکی نے حال ہی میں ایک پالیسی میمو (تجاویزی منصوبہ) تحریر کیا ہے جس میں انہوں نے امریکی پالیسی سازوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ پاک چین مضبوط تعلقات سے نمٹنے کیلئے نئی حکمت عملی پر غور کریں، خاص کرایسے طریقے جو پاک امریکہ تعلقات کو وسعت دیں اور جن سے علاقائی استحکام پر توجہ ہوسکے۔ اس مقصد کیلئے مارکی نے واشنگٹن کی موجودہ انتظامیہ جو کہ پاک چین تعلقات خاص کر چائنہ پاکستان اکنامک کاریڈور منصوبوں (سی پیک) کی شدید ناقد رہی ہے، اس کیلئے ”معمول سے ہٹ کے“ تجاویز دی ہیں۔

یہ پالیسی میمو پاکستانی تجزیہ کاروں اور پالیسی سازوں کی بھی دلچسپی کا سامان ہے کیونکہ یہ سی پیک اور اسلام آباد و بیجنگ کے مابین دو طرفہ تعلقات سے جڑی حالیہ پیش رفتوں کا تنقیدی جائزہ لیتا ہے۔ پاک چین حرکیات پر اثرانداز ہونے کیلئے امریکہ کو نئی سوچ اپنانے کی ضرورت ہے جو مارکی کے خیال میں ”مسائل کو حل کرنے والی“ زیادہ اور ”دھمکی آمیز“ کم ہو۔ ان کی رائے میں یہ اولوالعزم نصیحت ان پاک امریکہ تعلقات پر مجموعی طور پر نافذ کرنے کی ضرورت ہے جو کہ جنوبی ایشیاء میں امریکی کردار کے بارے میں پائے جانے والے تزویراتی اختلافات اور باہمی عدم اعتماد سے مامور ہیں۔ دریں اثناء، باوجود اس توجہ کے جو سی پیک میں تبدیلیوں پر دی گئی، بیجنگ اور اسلام آباد کے مابین تعلقات حالیہ برسوں میں گہرے ہوئے ہیں۔

پاک امریکہ پالیسی میں وسعت

مجموعی طور پر مارکی کی پالیسی تجاویز چین کے پاکستان میں بڑھتے ہوئے کردار کیخلاف ٹرمپ انتظامیہ کی حالیہ اعلانیہ مخالفت کے پس منظر میں تیار کی گئی ہیں۔ انہوں نے اس جانب توجہ دلوائی ہے کہ اگرچہ بیجنگ اور اسلام آباد کی ان وسیع تر تعلقات سے وابستہ امیدیں مختلف ہوسکتی ہیں تاہم یہ تعلقات طویل عرصے تک برقرار رہیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی پالیسی سازوں کو پاکستان اور جنوبی ایشیا میں چینی موجودگی کا اعتراف کرنے اور چین سے پاکستان کے روابط کے پس منظر میں اپنا نقطہ نگاہ ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں ”نان زیرو سم“ (غیر یکطرفہ) پالیسی وہ ہوش مندانہ قدم ثابت ہوسکتا ہے جو امریکی پالیسی سازوں کو پاکستان کے ساتھ وسیع تر سیاسی و سلامتی امور پر بامعنی روابط قائم کرنے کا موقع دے، حتیٰ کہ علاقائی سلامتی کے امور، بشمول پاک بھارت بحران اور افغانستان کے امور پر چین سے تعاون کو ممکن بنا سکے۔ مارکی محسوس کرتے ہیں کہ یہ سوچ امریکی پالیسی سازوں کو پاک چین تعلقات میں دیرپا نوعیت کے تزویراتی رجحانات پر نگاہ رکھنے کا موقع فراہم کرے گی، جیسا کہ سلامتی امور میں تعاون جو کہ بیجنگ کو ممکنہ طور پر جنوبی ایشیا اور مشرق وسطیٰ میں اپنی طاقت کے اظہار کا موقع دے سکتا ہے اور خطے کی تزویراتی حرکیات کو تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

مقابلے کے جال میں الجھنے سے بچاؤ

مارکی کی دلیل کا نچوڑ یہ ہے کہ واشنگٹن کو چاہئیے کہ وہ چین کے پاکستان میں بڑھتے ہوئے اثرو رسوخ سے نمٹنے کے دوران خود کو عظیم طاقتوں میں مقابلے کے جال میں الجھنے سے بچائے رکھے۔  خاص کر ایسے میں کہ جب امریکہ اور چین کے مابین سپر پاور کا مقابلہ بین الاقوامی سطح تک پھیلتا دکھائی دے رہا ہے اورایسے میں ایشیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان بھی اس بڑھتے ہوئے جغرافیائی سیاسی مقابلے میں کسی ایک فریق کی طرفداری سے گریز کرے گا۔  تاہم یہ دلیل حالیہ تاریخ اور تقریباً اختتام کے دہانے کو پہنچے ہوئے پاک امریکہ تعلقات کے بوجھ کو اہمیت نہیں دیتی۔ ٹرمپ  نے ۲۰۱۷-۲۰۱۸ میں نئی جنوبی ایشیائی حکمت عملی کے اعلان کے ساتھ ہی پاکستان کے ساتھ سیکیورٹی تعاون اس الزام کے ساتھ معطل کردیا تھا کہ پاکستان دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے خاطرخواہ اقدامات نہیں کررہا ہے۔ اس سے قبل دہشت گردی کیخلاف جنگ میں دونوں تقریباً ایک دوسرے کے خلاف برسرپیکار رہے۔ 

چین امریکہ مقابلے کی جنوبی ایشیا آمد پر پاکستانی پالیسی ساز واشنگٹن کی جانب سے نئی دہلی کیلئے بڑے پیمانے پر حمایت دیکھتے ہیں جیسا کہ ۲۰۰۵ کی بھارت امریکہ سول نیوکلیر ڈیل اور بعد ازاں انڈوپیسیفک حکمت عملی کیلئے بھارت کو ایک اہم ستون کے طور پر استوار کرنے سے ظاہر ہوا۔ ان حالات میں پاکستان کے پاس قدرتی طور پر یہی صورت باقی رہ جاتی ہے کہ وہ چین کے ساتھ تعاون کو مزید گہرا کرے خاص کر دفاع اور سلامتی کے شعبے میں تعاون کو؛ جس کے تحت بحری، بری اور فضائی سپاہ کی مشترکہ فوجی مشقوں پر توجہ دی جائے۔ نتیجتاً اگرچہ پاکستانی پالیسی ساز بڑی طاقتوں میں آئندہ ہونے والے مقابلے کے غیر ارادی نتائج کے بارے میں خبردار کرتے ہیں، تاہم چین کے ساتھ تعلقات میں گہرائی یہ تجویز کرتی ہے کہ چین کو امریکہ پر غیراعلانیہ ترجیح حاصل ہے۔ پاکستان بنیادی طور پر چین کے ساتھ تعلقات کی گہرائی کو تعاون پر مبنی روابط کے طور پر دیکھتا ہے جبکہ امریکہ کے ساتھ یہ روابط مسابقتی نوعیت کے ہیں۔

پاکستانی پالیسی سازوں کیلئے جنوبی ایشیائی سلامتی حرکیات میں پاک چین تعلقات ایک مستقل عنصر کے طور پر برقرار رہیں گے۔ جیسا کہ مارکی محسوس کرتے ہیں کہ ۲۰۱۸ سے ۲۰۲۰ کے درمیان پاک چین تعلقات کو ادھوری خواہشات اور سفارتی ناکامیوں کا سامنا رہا جیسا کہ سی پیک منصوبوں میں سُستی یا مسعود اظہر کی اقوام متحدہ کی سینکشن کمیٹی بلیک لسٹ میں شمولیت کیخلاف چین کی جانب سے تکنیکی بنیادوں پر مخالفت سے پیچھے ہٹنا وغیرہ۔ تاہم چین نے اگست ۲۰۱۹ میں جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے متنازعہ بھارتی اقدامات کے بعد پاکستان کو تعاون کی پیشکش کی اور تزویراتی تعاون کو وسعت دی۔ لداخ کے خطے میں متعارف کروائی گئی ان تبدیلیوں کی وجہ سے اگرچہ بیجنگ خود بھی متاثر ہوا تھا اور اس نے جموں و کشمیر کی صورتحال پر تشویش کا اظہار بھی کیا تھا تاہم اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل ممبران کے مابین کشمیر تنازعے پر ہنگامی مشاورت کی چینی درخواست دراصل اسلام آباد کی جانب سے بیجنگ سے رابطے کے بعد کی گئی۔ بند دروازوں کے پیچھے یہ اجلاس اگرچہ غیر رسمی تھا تاہم اس نے پاکستان کے موقف کو تسلیم کیا کہ کشمیر ایک بین الاقوامی تنازعہ ہے۔

رواں برس کے آغاز میں بھی بیجنگ نے کشمیر کے بین الاقوامی تنازعہ ہونے کے موقف کو دوہرایا۔ پاکستان کے نقطہ نگاہ سے یہ بیجنگ کی جانب سے حمایت کا ایک ٹھوس اظہار تھا جس سے ملتا جلتا ردعمل واشنگٹن کی جانب سے متوقع نہیں۔ بیجنگ کے موازنے میں اس فعل سے واشنگٹن، پاکستان کے ایک بنیادی نوعیت کے تنازعے میں غیر ممکنہ حامی کے طور پر سامنے آیا ہے۔ چین نے اگرچہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مشاورت کا مطالبہ پاکستان کی درخواست پر کیا تھا تاہم یہ حقیقت کہ اسلام آباد کی جانب سے یہ معاملہ اٹھانے کیلئے چین سے رابطہ کیا گیا اس امر کو واضح کرتا ہے کہ پاکستان اپنے کلیدی نوعیت کے تزویراتی مفادات بیجنگ کے ذریعے سے نمایاں کرسکتا ہے۔ یہ امر کہ تزویراتی مفادات کے اس میدان میں اسلام آباد کی جانب سے بیجنگ کو اپنے کلیدی حامی کے طور پر دیکھے جانے کا امکان ہے، واشنگٹن کیلئے پاکستان میں چینی کردار کو متوازن کرنے کیلئے مواقع کم کر دیتا ہے۔

امریکہ کی جانب سے پاک چین تعلقات کو نظر انداز کرنے یا پاک بھارت بحران میں توازن سے جڑے مفادات کی خاطر چین سے تعاون کے امکانات بذات خود امریکی قومی سلامتی حکمت عملی اور قومی دفاعی حکمت عملی کے باعث محدود ہوجاتے ہیں۔ یہ حکمت عملی چین کو ”جمود برقرار رکھنے والی قوت“ قرار دیتی ہے اور چین کیخلاف توازن قائم کرنے کیلئے ایشیائی اور پیسیفک ریاستوں کے ہمراہ دفاعی و معاشی شعبوں میں تعاون کے فروغ پر زور دیتی ہے۔ مارکی اگرچہ واشنگٹن اور بیجنگ کے مابین خطے میں اشتعال انگیزی کے خاتمے کے لئے براہ راست مذاکرات کو ٹیکٹیکل تعاون کی ایک شکل کے طور پر تجویز کرتے ہیں تاہم بیجنگ اس قسم کے امور پر واشنگٹن سے بات چیت میں ہچکچاہٹ کا شکار دکھائی دیتا ہے۔ اس کی وجہ واشنگٹن کی پالیسیوں میں تبدیلی پر بیجنگ کا ردعمل ہے جس کے تحت وہ ”زیرو سم گیمز“ اور ”سرد جنگ والی ذہنیت“ کے بجائے ایک دوسرے کے ”بنیادی مفادات اور بڑے خدشات“ کے احترام کا مطالبہ کرتا ہے۔

 چین اور امریکہ کو اگرچہ خطے میں طاقتوں میں مقابلے کے جال میں الجھنے سے محتاط رہنا چاہئے جیسا کہ مارکی نے بھی تجویز کیا ہے تاہم مقابلے کیلئےدرپردہ امکانات بڑھ رہے ہیں۔ مثال کے طورپر پاکستان بھارت تنازعے سے نمٹنے میں بیجنگ اور واشنگٹن کے مابین ٹیکٹیکل تعاون کے مواقع موجود ہیں تاہم بیجنگ، امریکہ کے مقابلے میں پاکستان کی خاطر زیادہ غیرجانبدار بحران حل کرنے والے مددگار کے طور پر دکھائی دے رہا ہے۔ فروری ۲۰۱۹ کے بحران میں جہاں واشنگنٹن نے ابتداً بھارت کے ”ذاتی دفاع کے حق“ کی حمایت کی تھی وہیں بیجنگ نے بالاکوٹ میں بھارتی فضائی حملے کے بعد ”خودمختاری اور علاقائی سالمیت“ کے احترام کا مطالبہ کیا تھا۔ ایسے وقت میں کہ جب پاکستانی پالیسی ساز چین سے اپنے تعلقات کو گہرا بنا رہے ہیں، جنوبی ایشیا میں آہستہ مگر یقینی طور پر تزویراتی مقابلے کی فضاء پیدا ہورہی ہے۔

 سی پیک سے بڑھ کے دو طرفہ تعلقات

مارکی کے اہم مشاہدات میں سے ایک یہ ہے کہ سی پیک، پاک چین وسیع تر تعلقات کا محض ایک جزو ہے۔ سی پیک کی آمد کے بعد سے پالیسی پر ہونے والی گفت و شنید میں پاک چین تعلقات میں پیش رفت سی پیک کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہے ۔ حتیٰ کہ پاکستان کے اندر بھی چین سے تعلقات کے بارے میں باریک بینی کی حامل پالیسی بحث پر سی پیک چھا جاتا ہے۔ اس کے باوجود گزشتہ دو برس کے حقائق ظاہر کرتے ہیں کہ باوجود اس امر کے کہ پاکستان کے معاشی بحران کی وجہ سے سی پیک پس منظر میں جاچکا ہے، دیگر معاملات بشمول ۲۰۱۹ کا پاک بھارت بحران، کشمیر میں ہونے والی پیش رفت اور ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے بیانات نے بیجنگ اور اسلام آباد کو روایتی دفاعی اور سلامتی تعاون کے شعبوں میں روابط میں مصروف رکھا ہے۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی اور قومی سلامتی مفادات سے متعلقہ امور جیسا کہ بھارت، کشمیر، افغانستان، چین سے تزویراتی تعاون، تعان برائے معاشی ترقی وغیرہ میں اسلام آباد کے متعدد مفادات بیجنگ سے میل کھاتے ہیں۔ اس کے برعکس، واشنگٹن پاک چین دو طرفہ تعاون کی حوصلہ شکنی کرتا ہے اور جنوبی ایشیا میں بھارت کے زیادہ اہم کردار کا مطالبہ کرتا ہے نیز پاکستان کے حوالے سے بھارتی خدشات کو اہمیت دیتا دکھائی دیتا ہے۔ پاکستانی نقطہ نگاہ سے سب سے اہم یہ امر ہے کہ حالیہ مہینوں میں کشمیر میں ہونے والی نئی پیش رفتوں پر واشنگٹن نے نمایاں غیر جانب دار پوزیشن اختیار کرنے سے اجتناب برتا ہے۔

مارکی کے مضمون سے ملنے والا ایک اہم سبق یہ ہے کہ امریکہ، عصر حاضر کے پاکستان سے ایک سے زیادہ طریقوں سے غیر حاضر ہے۔  پاک امریکہ تعلقات کے بارے میں مارکی کی قبل ازیں تحریر کی گئی کتاب کا نام ”نو ایگزٹ فرام پاکستان“ تھا۔ تاہم اب واشنگٹن نے پاکستان کو پوری طرح تو نہیں چھوڑا ہے مگر وہ اس سے علیحدگی کے دہانے پر دکھائی دیتا ہے۔ کیا واشنگٹن آنے والے وقت میں پاکستان کیلئے اہم رہے گا؟ مارکی تجویز کرتے ہیں کہ تعلیم، امیگریشن اور تجارتی تکنیکی تعاون کے شعبوں میں روابط میں اضافہ واشنگٹن کو چینی اثر ورسوخ کا مقابلہ کرنے کا موقع فراہم کرسکتے ہیں۔ تاہم امریکہ کی موجودہ جنوبی ایشیائی پالیسی کی سمت کو دیکھتے ہوئے دفاع اور سلامتی کے شعبوں میں تعاون کے ذریعے سے پاکستان کی جانب زیادہ جھکاؤ کے امکانات دکھائی نہیں دیتے ہیں۔ چین کے ساتھ تزویراتی مفادات اسے پاکستان کیلئے ایک پرکشش طویل المدتی شراکت دار بناتے ہیں تاہم اس کے باوجود اسلام آباد ایسی صورتحال کا شکار ہونے سے گریز چاہے گا جہاں اسے دو طاقتوں میں سے ایک کو چننا پڑے۔ پاکستان میں چین کے نئے کردار اور بذات خود پاکستان سے معاملات میں یہ نکتہ امریکی حکمت عملی کیلئے رہنما اصول ہونا چاہئے.

***

.Click here to read this article in English

Image 1: Pakistan PMO via Twitter

Image 2: Thomas Peter-Pool via Getty Images

Share this:  

Related articles