The_beautiful_Karakoram_Highway-1095×616-1

چین نے ۲۰۱۷ سے اب تک اپنے اثرورسوخ میں محض اضافہ کیا ہے۔ کووڈ وبا کے دوررس اثرات، امریکی خارجہ پالیسیوں میں انتقال اور امریکی داخلی سیاست میں تبدیلیوں سمیت متعدد عوامل، بیجنگ کی معاشی سبقت میں تیزی لانے کا سبب بنے ہیں۔ ان پیش رفتوں نے منفی شہرت رکھنے کے باوجود بھی، چین کی ترقی پذیر اور ترقی سے عاری ممالک میں سرمایہ کاری اور قرض دینے کی پرانی پالیسی کو تقویت بخشی ہے۔

عالمی سطح پر بڑے پیمانے پر موجودگی کے باوجود، چین کی پاکستان پر توجہ بدستور اہمیت رکھتی ہے۔ ۲۰۱۷ میں شائع ہونے والے اس سیریز کےحصہ اول میں، میں نے واضح کیا تھا کہ پاکستان کس طرح خطے میں اپنا اثرورسوخ برقرار رکھنے کے لیے چین کے لیے ناگزیر رہا ہے۔ اس کے بعد سے، یہ اثرورسوخ معاشی اور دفاع کے شعبوں میں وسیع تر تعاون کے ذریعے گہرا ہوا ہے۔ گزشتہ پانچ برسوں کے دوران پاکستان کے داخلی ماحول میں موجود ابتری کے دوران، چین نے اپنے پاکستانی ہم منصبوں کے ہمراہ مضبوط سفارتی تعلقات اور سیاسی اور معاشی غیرمستحکم صورتحال میں اسلام آباد کو معاونت کی فراہمی کے ذریعے پاکستان میں اپنا اثرورسوخ برقرار رکھا ہے۔

چین کی جنوبی ایشیا میں حکمت عملی اس کے پاکستان کے ساتھ ایک ایسے اہم علاقائی شراکت دار کے طور پر قائم پرانے تعلقات کو سہارا فراہم کرتی ہے جو بھارت کی علاقائی نمو اور رسائی کو محدود کرنے میں مدد کرتا ہے۔ یہ فالو اپ مضمون، گزشتہ پانچ برسوں کے دوران ہونے والی علاقائی پیش رفتوں، بالخصوص پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) اور امریکہ کی انڈوپیسفک حکمت عملی کے پس منظر میں پاک چین تعلقات کا جائزہ لے گا۔ امریکہ کے افغانستان سے انخلاء کے بعد اس کے جنوبی ایشیا میں ماند پڑے اثرورسوخ کے بعد، چین کی خطے میں زیادہ مثبت حیثیت میں موجودگی کی وسیع تر گنجائش موجود ہے، جسے بھارت جیسے اہم علاقائی شراکت دار کے ہمراہ لازم و ملزوم جیسے تعلقات قائم کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ فریقوں میں سے کسی ایک کا چناؤ جو کہ عظیم طاقتوں کے مابین مقابلے کو ہوا دے سکتا ہے اور علاقائی استحکام کو خطرے میں ڈال سکتا ہے، ایسا کرنے کے بجائے پاکستان بھی چین اور امریکہ کے درمیان ایک رابطہ پل بننے کی خواہش کر سکتا ہے۔

چین پاکستان معاشی تعاون

اس برس مئی میں پاک چین دو طرفہ تعلقات کو ۷۲ برس مکمل ہو گئے۔ پاک چین تزویراتی مذاکرات کے چوتھے دور میں، دونوں فریقوں نے معاشی، سیاسی اور تزویراتی ترجیحات کے ضمن میں ایک دوسرے کے لیے پہلے سے موجود اور مسلسل حمایت کا اظہار کیا۔ جولائی ۲۰۲۳ میں اپنی ۱۰ویں سالگرہ کے قریب ہونے والی اس تقریب میں سی پیک پر پیشرفت پر پاکستانی اور چینی وزرائے خارجہ کی جانب سے خصوصاً روشنی ڈالی گئی تھی۔ حکام کی جانب سے حمایت کا یہ عام مظاہرہ سی پیک کے متعدد منصوبوں پر داخلی اور بیرونی سطح پر مسلسل جاری تنقید اور افواہوں کے بعد سامنے آیا تھا۔

لاہور میں چائنیز کونسل جنرل کے مطابق، چین اور پاکستان نے کووڈ-۱۹ وبا اور ۲۰۲۲ میں پاکستان میں آنے والے تباہ کن سیلابوں سمیت مشکل وقت میں ایک دوسرے کا ساتھ دیا ہے۔ سوڈان میں خانہ جنگی ہونے کے بعد چینی بحری کشتیوں نے پاکستانی آبادی کے لیے جان بچانے والی امداد فراہم کی جبکہ پاکستان کے ادائیگیوں میں بگڑتے ہوئے توازن کے بحران میں انتہائی اہم معاشی امداد بھی فراہم کی۔ سیکیورٹی فورسز کے درمیان اعلیٰ سطحی دو طرفہ دورے اور تعاون اس شراکت داری کو تقویت بخشتی ہے۔

مزید برآں، سی پیک جو کہ بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) کا ایک اہم عنصر ہے، اسے اس موسم گرما میں ایک دہائی مکمل ہو جائے گی۔ باضابطہ ذرائع یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ منصوبے نے براہِ راست ۲۳۶۰۰۰ نوکریاں جبکہ مقامی آبادی کے لیے روزگار کے ۱۵۵۰۰۰ مواقع تخلیق کیے ہیں۔ پاکستان کے اندر سیاسی ماحول کے غیر مستحکم اور غیر یقینی ہونے کے باوجود، مشترکہ تعاون کمیٹی کی ۱۱ میٹنگز منعقد ہو چکی ہیں، جبکہ بارہویں جولائی کے لیے طے شدہ ہے۔ تاہم یہ واضح ہے کہ دونوں فریقوں کی جانب سے ماضی میں بڑھا چڑھا کر کیے گئے دعووں کے باوجود، منصوبے نے پاکستان کے معاشی منظرنامے کو تبدیل نہیں کیا ہے۔

پاکستان میں اندرونی سطح پر ادارہ جاتی کمزوریوں، غیرموثر منصوبہ بندی اور نفاذ میں موجود فاصلوں نے سی پیک پر پیش رفت کو جامد کر دیا ہے۔ اگرچہ سی پیک کے نفاذ میں رکاوٹیں پاکستان کی اس سابقہ حیثیت سے تنزلی کا سبب نہیں بنیں، جو کہ جنوبی ایشیا پر چین کی پالیسی میں اہم کردار کے طور پر اس کی تھی، تاہم یہ جمود پاکستان کے معاشی منظرنامے میں بڑی سطح پر بہتری کی ضرورت پر روشنی ڈالتا ہے۔ داخلی سطح پر سنجیدہ نوعیت کے اقدامات کیے جانے چاہیئیں، تاکہ وہ خوشحالی حاصل کی جا سکے جس کا وعدہ کیا گیا تھا، جو کہ نمایاں طور پر ترقی کیے بغیر پرفریب ثابت ہو سکتی ہے۔

پاک چین دفاعی تعاون

پاکستان اور چین کے درمیان کوئی رسمی معاہدہ یا اتحاد نہیں، تاہم ان کے تعلقات کے عناصر کو پھلتی پھولتی تزویراتی شراکت داری کی حیثیت سے دیکھا جا سکتا ہے۔ سمیر للوانی پاک چین دفاعی تعاون کی بڑھتی ہوئی شرح کو “ تھریش ہولڈ الائنس” کے طور پر درجہ بند کرتے ہیں، جس کا مطلب “تقریباً” اتحاد ہے، جس کی بالخصوص وجہ چین کا رسمی اتحاد قائم کرنے میں ہچکچاہٹ ہے۔

دفاعی تعاون کے شعبے میں برسہابرس کی مسلسل بڑھوتری کا نتیجہ، پاکستان اور چین کے درمیان مطابقت اور کارروائیوں میں سہولت کی صورت میں سامنے ہے۔ پاکستان میں سیاسی غیر یقینی کے بین بین، چین نے حال ہی میں گزشتہ نومبر ۲۰۲۲ میں پاکستان کو اپنی جدید ترین ٹیکنالوجی جیسا کہ ایک ایس ایل سی-۱۸ ریڈار سسٹم اور مسلسل کام کرنے والے ریڈار سسٹم (کورس) فراہم کیا ہے، تاکہ پاکستان کی درست نشانہ باندھنے کی قابلیت میں بہتری لائی جائے۔ افغان طالبان کے دور میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی، امریکہ بھارت بڑھتی ہوئی تزویراتی شراکت داری اور بڑھتے ہوئے علاقائی سلامتی خطرات کے ساتھ طرفین کے لیے اپنی دفاعی اور تزویراتی شراکت داریوں میں اضافہ کرنا معقول دکھائی دیتا ہے۔ جغرافیائی سیاسیات میں تبدیل ہوتے امکانات کے ساتھ گوادر بندرگاہ کا چین کے بحری اڈے کے طور پر استعمال بھی زیرغور لایا جا سکتا ہے۔

 

پاک چین تعلقات اور امریکہ کی انڈوپیسیفک حکمت عملی

امریکہ کی انڈوپیسیفک حکمت عملی نے کواڈ کو مضبوطی بخشی، آسیان کے ہمراہ تعاون میں اضافہ کیا، آکس جیسے نئے سلامتی معاہدے کو تشکیل دیا اور اس نے ایک نئے انڈوپیسیفک معاشی فریم ورک کو اختیار کیا۔ اس حکمت عملی نے برسہا برس تک خطے کے اندر چینی معاشی اور تزویراتی پھیلاؤ کو روکنے کے لیے شراکت داریوں اور طریقہ جات کو اختیار کرتے ہوئے جنوبی ایشیا میں امریکی کردار کو مضبوطی بخشنے کی جانب توجہ دی ہے۔

بھارت اس حکمت عملی کے سنگ بنیاد کی حیثیت رکھتا ہے جو تمام شعبوں بالخصوص بحرِ ہند میں چینی اثرورسوخ کو محدود کرنے کا ہدف رکھتا ہے۔ اس پس منظر میں بھارت نے سی پیک، جسے وہ اپنے بری اور بحری خودمختاری کے لیے براہ راست خطرے کی نگاہ سے دیکھتا ہے، پوری قوت سے اس کی مخالفت کی۔ تاہم امریکی پشت پناہی کے باوجود بھارتی عسکری اور بحری صلاحیتیں چین کے علاقائی عزائم کو اطمینان بخش حد تک کمزور کر دینے میں ناکافی ہیں۔ چین کی علاقائی پیش قدمیوں کو موثر طور پرمحدود کرنے کے لیے حکمت عملی کے ضمن میں آئی پی ایس کو اپنی سوچ میں وسعت لانا ہو گی تاکہ بھارت کے ساتھ ساتھ دیگر علاقائی ممالک کی جانب سے بھی معاونت حاصل کی جا سکے۔

پاکستانی نقطۂ نگاہ سے، واشنگٹن کی انڈوپیسیفک حکمت عملی، جنوبی ایشیا میں چین کے بیش قیمت منصوبوں کے لیے علاقائی خطرے کے طور پر بھارت کو آگے بڑھانے پر کلی انحصار کرتی ہے۔ پاکستان اور دیگر علاقائی ممالک آئی پی ایس میں باجود اس امر کے نمایاں کردار نہیں رکھتے کہ تن تنہا بھارتی صلاحیتیں خطے میں چینی سرگرمیوں کا راستہ روکنے کے لیے کافی نہیں ہو سکتیں اور انہیں پاکستان کے خلاف استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اسلام آباد نے اگرچہ توقع کی تھی کہ تبدیل ہوتے علاقائی امکانات کی صورت میں پاکستان کو آئی پی ایس میں شمولیت حاصل ہو سکتی ہے، تاہم پاکستان کی شمولیت خطے میں چینی منصوبوں کو کمزور کر سکتی ہے اور اس کے چین پاکستان دو طرفہ تعلقات پر بھی منفی اثرات ہو سکتے ہیں۔ اسلام آباد گو کہ زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کے امکانات چاہتا ہے، تاہم انڈوپیسفک کی سلامتی پر امریکہ کے ہمراہ اتحاد کا کوئی امکان نہیں۔

حاصل کلام

امریکہ کے خطے سے نکل جانے کے بعد چین اس خلا کو اپنے مجموعی اور ممالک کے اعتبار سے منفرد نقطۂ نگاہ کے ذریعے پُر کر رہا ہے۔ تاہم چینی نقطۂ نگاہ، امریکی نقطۂ نگاہ سے کس حد تک مطابقت رکھتا ہے، یا اس کا مخالف ہے، یہ ابھی آشکار ہو رہا ہے اور خطے میں طاقت کی حرکیات اور دیگر ریاستوں کے خدشات کو ترتیب دے گا۔ امریکہ کو خطے کے حوالے سے اپنے نقطۂ نگاہ پر جو فی الوقت بھارت کے گرد گھومتا ہے، دوبارہ غور کرنا چاہیئے کیونکہ یہ پاک چین تعلقات میں عدم توازن پیدا کرنے کا امکان رکھتا ہے۔ عظیم طاقتوں کے بڑھتے مقابلے میں علاقائی شراکت داروں کو کسی ایک حریف کے ساتھ شامل ہونے پر زور ڈالنے کے بجائے، امریکہ اور چین ابھرتے ہوئے مشترکہ چیلنجز جیسا کہ موسمیاتی تبدیلی، بڑھتی ہوئی غربت اور دہشت گردی جیسے معاملات پر تعاون کرنے کے لیے بھارت اور پاکستان شامل کر سکتے ہیں۔

***

Click here to read this article in English.

Image 1: Karakoram Highway via Wikimedia Commons

Image 2: Gwadar city via Wikimedia Commons

Share this:  

Related articles

पर्वतों से समुद्री तटों तक: गलवान के पश्चात् भारत-चीन प्रतिस्पर्धा Hindi & Urdu
جنوبی ایشیا میں بائیڈن کے ورثہ کا جائزہ Hindi & Urdu

جنوبی ایشیا میں بائیڈن کے ورثہ کا جائزہ

ریاستہائے متحدہ امریکہ ، 20 ویں صدی کے وسط سے…

سی پیک کو بچانے کے لیے، پاکستان کی چین پالیسی میں اصلاح کی ضرورت ہے Hindi & Urdu

سی پیک کو بچانے کے لیے، پاکستان کی چین پالیسی میں اصلاح کی ضرورت ہے

پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف رواں ماہ کے اوائل میں صدر شی جن پنگ اور دیگر اعلیٰ چینی حکام سے ملاقاتوں کے بعد تقریباََ خالی ہاتھ وطن واپس پہنچ گئے ہیں۔ چین نے واضح انضباطِ اوقات ( ٹائم لائن) کے تحت پاکستان میں بڑے منصوبوں کے لئے سرمایہ کاری کا وعدہ نہیں کیا۔ اس […]