Trump_Khan

گزشتہ ماہ کے آخری دنوں میں وزیراعظم عمران خان کے پہلے سرکاری دورہ امریکہ نے پاک امریکہ تعلقات کے ایک بار پھر “دوبارہ ترتیب” پانے کی امید پیدا کی ہے۔ یہ دورہ پاکستان اورامریکہ کی اعلیٰ سیاسی و عسکری قیادت کے مابین متعدد روابط سے معمور تھا جس میں وسیع نوعیت کے معاملات جیسا کہ افغان امن عمل، دہشت گردی کیخلاف جنگ، تجارت اور فوجی معاونت زیر بحث آئے۔ پاکستان آرمی چیف قمر جاوید باجوہ اور نومنتخب ڈائریکٹر جنرل برائے انٹر سروسز انٹیلی جنس ( آئی ایس آئی) فیض حمید کی وفد میں موجودگی دورہ کی دفاعی لحاظ سے اہمیت کو نمایاں کرتی ہے۔ خاص کرپاک امریکہ تعلقات میں حالیہ زوال کے بعد یہ دورہ پاکستان کیلئے علامتی طورپر بے حد اہمیت رکھتا تھا اور اس سے دونوں فریقوں کو یہ موقع ملا کہ وہ اپنے مسائل کو پیچھے چھوڑ کے آگے بڑھنے اور بہترعملی تعلقات کے فروغ کیلئے اپنے موقف کو پیش کر سکیں۔ اس حد تک، یہ دورہ بے حد کامیاب تھا اور دونوں فریق اس کے نتائج سے خوش دکھائی دیتے ہیں۔ تاہم حقیقتی سطح پر، تعلقات کے مستقبل کی شاہراہ پر دورے کے آیا مثبت اثرات مرتب ہوں گے، اس کا تعین دونوں ممالک کی ممکنہ چیلنجز سے نمٹنے پر آمادگی اور صلاحیت سے ہوگا۔

 مجموعی طور پر دورہ گزشتہ کم و بیش ایک دہائی سے پاکستان اور امریکہ کے مابین تعلقات میں جاری سردمہری کی رخصتی کا اعلان تھا اور اس سے تعلقات میں بہتری کی علامتیں ظاہر ہوئیں۔ یہ پہلے ہی، پاکستان میں موجود امریکی ایف-۱۶  لڑاکا طیاروں کیلئے ۱۲۵ ملین امریکی ڈالر کی عسکری معاونت کی منظوری کی صورت میں ظاہر ہوچکا ہے۔ اس سے ممکنہ طور پاکستان کیلئے امریکی فوجی امداد جو ۲۰۱۸ میں صدر ٹرمپ نے منسوخ کردی تھی، کی بحالی کی جانب پیش رفت ہوسکتی ہے، اگرچہ پینٹاگون نے بیان دیا ہے کہ فی الوقت امریکی موقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ وزیراعظم عمران خان کی صدر ٹرمپ کے ساتھ مثبت ملاقات ہوئی اور گزشتہ برس دونوں کے درمیان ٹوئٹر پر ہونے والی جارحانہ بات چیت کے برعکس ٹرمپ اس بات چیت میں نئی پاکستان حکومت کیلئے سراپا تعریف بنے رہے اور دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی مکمل بحالی کے لئے پرامید رہے۔

دورے کے بعد وائٹ ہاؤس کے اعلامیئے میں اگرچہ شامل نہیں کیا گیا تاہم اس دوران بنیادی توجہ افغان امن عمل اور طویل عرصے سے جاری افغان جنگ سے امریکی اخراج میں پاکستانی معاونت پر تھی۔ صدر ٹرمپ کی جانب سے افغانستان میں پاکستانی کوششوں کی بھی غیر معمولی طور پر تعریف کی گئی۔ افغانستان کے سیاسی حل کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے وزیراعظم خان نے طالبان کی قید سے کابل کی امریکن یونیورسٹی کے ایک امریکی اور ایک آسٹریلوی یرغمالیوں کی رہائی کے حوالے سے پیش رفت کی  یقین دہانی کروائی ۔ بات چیت میں اگرچہ توجہ کا مرکز مثبت پیش رفت اور آگے کی جانب سفر بنا رہا ، دونوں فریقوں نے بے حد صاف گوئی سے ماضی کے خدشات اور مشترکہ شکایات کے بارے میں بھی آگاہ کیا۔

 مسئلہ کشمیر کو بھی پہلی بار صدر ٹرمپ کی جانب سے توجہ دی گئی جو سب کیلئے حیران کن تھا، اور پاکستان کیلئے تحفے کی مانند تھا۔ بھارتی وزیراعظم نریندرہ مودی کی مبینہ درخواست پر صدر ٹرمپ کی جانب سے بھارت اور پاکستان کے مابین کشمیر کے معاملے پر ثالثی کی پیشکش نے ٹوئٹس کے طوفان کو جنم دے دیا۔ حسب توقع، بھارتی وزارت خارجہ کی جانب سے بیان فوری طور پر مسترد کئے جانے کے ساتھ ساتھ امریکی (عبوری) نائب وزیرخارجہ برائے جنوب و وسطی ایشیا ایلس ویلز بھی پیچھے ہٹ گئیں۔ تاہم یہ حقیقت کہ کشمیر سب سے زیادہ توجہ کا مرکز بن گیا اور ایک بار پھر یہ واضح ہوا کہ دو جوہری طاقت کے حامل پڑوسیوں کے مابین یہ تنازعے کی بنیادی وجہ ہے، دراصل پاکستان کی سفارتی کامیابی تھی۔

 ثالثی کے بارے میں ٹرمپ کے بیان کو اگرچہ حسب روایت زبان کے پھسلنے کا نام دیا گیا اور تجزیہ کاروں نے اسے بغیر سوچے سمجھے کیا گیا تبصرہ قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا تاہم پاک بھارت تعلقات کے بارے میں انہوں نے محض یہی نہیں کہا تھا۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ خان سے ملاقات سے قبل پریس سے بات چیت کرتے ہوئے  ٹرمپ نے کہا تھا کہ بھارت ان کے مابین بات چیت کا بڑا حصہ ہوگا اور بعد میں، جب ان سے بھارت کی جانب سے پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی مبینہ بھارتی کوششوں اور اسے روکنے میں امریکی کردار کے بارے میں سوال کیا گیا تو صدر ٹرمپ نے زور دیتے ہوئے کہا کہ انہیں یقین ہے کہ یہ ” دوطرفہ شاہراہ” ہے جہاں دونوں ممالک ایسی کوششوں کیلئے ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں۔ ان حوالوں نے بھارت کے ساتھ مذاکرات کے آغاز کی اہمیت کے بارے میں پاکستانی موقف میں وزن پیدا کیا اور ایک بار پھر بھارت کی جانب سے مذاکرات سے بھاگنے کو نمایاں کیا ہے۔ مجموعی طور پر صدر ٹرمپ کی جانب سے پاک بھارت تعلقات کے بارے میں رویہ زیادہ پاکستان کے حق میں تھا کیونکہ یہ دہشتگردی کے معاملے پر اسلام آباد کی مذمت پر مبنی ماضی کی امریکی پالیسی سے مختلف تھا اور اس کے بجائے یہ اس پر مرکوز تھا کہ بھارت اور پاکستان اپنے مسائل کو حل کرنے کیلئے کیا کرسکتے ہیں۔

درحقیقت دورے نے وزیراعظم خان کے واشنگٹن میں قد کاٹھ میں اضافہ کیا ہے اور انہیں پاکستان کی داخلی سیاست میں درپیش چیلنجزپر کی جانے والی تنقیدسے از حد ضروری تحفظ فراہم کیا ہے۔ تاہم ابھی اس ابتدائی مرحلے پر دورے کو پاک امریکہ تعلقات کے “دوبارہ ترتیب” دینے والا قرار دینے میں یہ خطرہ پنہاں ہے کہ یہ مستقبل میں درپیش ہوسکنے والے متعلقہ چیلنجز کو نگاہوں سے اوجھل کر سکتا ہے۔ اس دورے کو جس چیز نے ممکن بنایا وہ دونوں ممالک کے افغانستان میں مختصرالمدتی مفادات یعنی کہ افغانستان سے امریکی انخلاء کا یکساں ہونا تھا۔ اس دورے کو پاکستان کیلئے اضافی ذمہ داری کے حامل اس اتحاد  کو رسمی شکل دینے کے موقع کے طور پر استعمال کیا گیا۔ لیکن تعلق کی ترتیب نو کا بڑا انحصار اس پر ہوگا کہ پاکستان اس مختصرالمدتی ہدف کے حوالے سے کیسی کارکردگی دکھاتا ہے اور ساتھ ساتھ خطے میں چین سے مقابلے سمیت دیگر امریکی مفادات کے حوالے سے اپنے موقف میں توازن کیسے پیدا کرتا ہے۔ 

تاریخی طور پر پاک امریکہ تعلقات نوعیت کے اعتبار سے مالی اور مختلف وقتوں میں اچھے اور برے کے درمیان جھولتے رہے ہیں۔ بدقسمتی سے یہ تبدیلیاں تیزرفتار رہی ہیں اور زیادہ تر اوقات اچانک رونما ہوئیں۔ اس بار بھی، محض سال پہلے تک بہت تیزی سے زوال پذیرہوتے تعلقات کے آج مثبت پیش رفت میں بدل جانے کی بنیادی وجہ افغان دلدل سے نکلنے کیلئے امریکی بیتابی ہے۔

 باوجود اس کے کہ گزشتہ چند ماہ کے دوران افغان امن عمل میں پیش رفت، جس میں طالبان نے افغان سرزمین کو دہشت گردوں جیسا کہ القاعدہ کی جانب سے استعمال نہ ہونے دینے کی ضمانت دینے کے بنیادی امریکی مطالبے پر رضامندی ظاہر کی ہے، وہیں افغانستان کا مستقبل دیگر کئی خودمختار عوامل جیسا کہ امریکی انخلاء کے بعد مختلف افغان دھڑوں اور طالبان کے مابین تعلقات کی نوعیت، اسلامی ریاست کے بڑھتے ہوئے خطرات، علاقائی مفادات کی حامل قوتوں کے مابین جاری پراکسی جنگ اور ملک میں ایک اور خانہ جنگی کے خطرے پر منحصر ہے۔ پاکستان اپنی حیثیت کو استعمال کرتے ہوئے طالبان کو مذاکرات کی میز پر لایا ہے، تاہم مندرجہ بالا متذکرہ خطرات کی روشنی میں اس عمل کو جاری رکھنے اور پرامن مستقبل کیلئے راہ تخلیق کرنے میں اس کا کردار محدود ہے۔ موجودہ انتظامات امریکہ کو واپسی کا ایک باعزت راستہ تو فراہم کرسکتے ہیں تاہم افغانستان کے غیر مستحکم مستقبل کا خطرہ حقیقی ہے جس میں پاکستان بطور پڑوسی ناگہانی آفت کا بوجھ اور زبردستی کی ذمہ داری اٹھانے کیلئے رہ جائے گا۔

مزید براں، پاکستان خطے میں امریکی طویل المدتی مفادات کے دائرے سے باہرکھڑا ہے جبکہ بھارت اس کی انڈوپیسیفک حکمت عملی کا بنیادی تزویراتی شراکت دار ہے۔ یہ امید کرنا بے عقلی ہوگی کہ اسلام آباد واشنگٹن سے بھارتی عدم اجازت کی قیمت پر کچھ فوائد بٹور سکے گا۔ دریں اثناء چینی عروج کے سبب بڑھتی امریکی بے چینی نے خطے کی صورتحال کو پیچیدہ اور چین امریکہ تعلقات کو مقابلے سے معاندانہ نوعیت کا کردیا ہے۔ یہ اس حد تک ہے کہ بھارت اور پاکستان کے مابین حالیہ پلوامہ/ بالاکوٹ بحران میں چینی مداخلت کو امریکی حکام کی جانب سے تشویش سے دیکھا گیا۔ واشنگٹن یہ تاثر رکھتا ہے کہ بیجنگ نے بحران کے عروج کے دور میں جانے انجانے میں اسے بڑھاوا دینے میں کردار ادا کیا ہے۔ یہ ماضی کے بحرانوں کے برعکس ہے جہاں چینی شمولیت کو عمومی طور پر تناؤ میں کمی کی امریکی کوششوں کو مہمیز دینے کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔ اس پس منظر میں ایک طرف  پاکستان کا چین سے قریبی اتحاد ہے جسے چائنہ پاکستان اکنامک کاریڈور ( سی پیک) کے ذریعے استحکام ملا، جبکہ دوسری طرف چین کا مقابلہ کرنے کیلئے بھارت امریکہ تزویراتی شراکت داری، طویل المدتی پاک امریکی قربت کے امکانات پر اثرانداز ہوئی ہے۔

مستقبل میں پاکستان اور امریکہ کے مابین روابط کی نوعیت ان چیلنجز اور خطرات سے متاثر ہوگی۔

***

.Click here to read this article in English

Image 1: The White House via Wikimedia

Image 2: AFP via Getty

Share this:  

Related articles