China as crisis manager

چین کا بڑھتا ہوا سیاسی و معاشی قد کاٹھ اور جنوبی ایشیائی ممالک کے ساتھ  بڑھتےتجارتی تعلقات نے خطے میں اس کا  اثرورسوخ  بھی بڑھا دیا ہے۔ کچھ سکالرز کی رائے کے مطابق یہ امر  جنوبی ایشیا میں  چین کی  متوازن  خارجہ پالیسی  کی بنیاد ہے جو  خطے میں مزید مثبت اور استحکامی کردار کا باعث بنے گا  کیونکہ مستقبل میں چین پاکستان اور بھارت کے بیچ تنازعات  دور کرنے میں اپنا کردار ادا کر  سکتا ہے۔ تاہم  جنوبی ایشیا میں چین کے  مختلف مفادات اور ایکشنز کاایک محتاط  تجزیہ اوردیگر علاقائی کردار اس کو کس طرح لیتے ہیں، سےیہ تاثر ابھرتا ہے کہ شائد چین مستقبل میں  کرائسز مینیجر (بحرانوں کو سنبھالنے والا) کے بجائےخود ایک بحرانی پارٹی بن کر ابھرے۔

چین – پاکستان  بمقابلہ چین – بھارت ؛

چین کا  جنوبی ایشیا میں  کرائسز مینیجر کا کردار ادا کر لینے کے بیانیہ کا خلاصہ  چین کے یہاں کے دو اہم ممالک یعنی پاکستان اور بھارت  کے ساتھ معاشی اور تجارتی  روابط  پر منحصر ہے۔اگرچہ  چین اور بھارت تعلقات  کا بڑا دارومدار تجارتی روابط پر ہے لیکن تزویراتی منطق کے مطابق یہ ربط سازی چین  پاکستان معاشی روابط سے ہٹ کر ہے۔  

چین پاکستان تعلق چین کی پاکستان میں کثیر سرمایہ کاری  پر ہے جو کہ دو طرفہ حقیقی  شراکت داری  میں شامل  باہمی پیداوار، ٹیکنالوجی اور دفاعی سازو سامان کی ترویج  پر مشتمل ہے۔ ۲۰۱۲ سے ۲۰۱۷ کے درمیان  پاکستان  چینی ہتھیاروں کا سب سے بڑا خریدار رہا اور یہ عمل سال ۲۰۱۸ میں بھی جاری رہنے کی توقع ہے۔سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے ہتھیاروں کی ترسیل کے اعدادوشمار کے مطابق چین نے پاکستان کو جو ہتھیار فراہم کئے ہیں یا جو فراہم کئے جانے کے مرحلے میں ہیں ان میں فائٹر جے-ایف ۱۷ تھنڈربلاک- ۳ ، آبدوزیں (ٹائپ- ۰۴۱/یوان)، اینٹی شپ میزائل، تارپیڈوز، ٹینک اور فریگیٹ شامل ہیں۔ چین نے جوہری عدم پھیلاؤ معاہدے کے برخلاف پاکستان کو جوہری ہتھیاروں  کے ڈیزائن بھی منتقل کئے ہیں، یہ جانتے ہوئے کہ منتقلی سے بھارتی عسکری فوائد خطرے میں پڑجائیں گے۔ 

دوسری طرف چین بھارت تجارت ٹیکٹیکل تعاون  کا شاخسانہ ہے جو دونوں ملکوں کو اجازت دیتا ہےکہ وہ اس تعلق کو مستحکم کریں جوعلاقائی مسائل سے مشروط ہوئےپڑےہیں اور جو ۱۹٦۲ کی  جنگ کی بعد سے آج تک حل طلب ہیں۔ چین کی ڈوکلام ۲۰۱۷ میں بھوٹان میں  اپنائی گئی ‘سلامی سلائسنگ’ حکمتِ عملی جو کہ معاہدے سے متصادم تھی اور جس کے نتیجے میں چین اور بھارت  تعلقات میں تعطل پیدا ہوا لیکن پھر اسی سال دونوں ملکوں کے بیچ  ۴.۸۴ بلین ڈالر کی تجارت  نے نئی دہلی اور بیجنگ کی بیچ موڈس-ویونڈی (دو پارٹیوں کے بیچ امن کے ساتھ رہنے کا انتظام) کا کردار ادا کیا۔ چین کا پاکستان میں عسکریت پسندوں سے متعلق احتیاط پسندانہ رویہ اور ایک ایسے ملک (یعنی پاکستان) کےساتھ تعلق جو بھارت کےلئے ان گنت سکیورٹی چیلنجز کا باعث ہے ، اور سرحد پر اکثروبیشتر جارحیت داراصل بھارت مخالف دشمنی کی وجہ سے ہیں۔ اس تعلق کو ایک بنیادی تبدیلی کی ضرورت ہو گی تاکہ پاک بھارت کشیدگی کے دوران  یہ معاملات سدھارنے والے کردار کے طور پر کام کرسکے۔ 

چین کا جنوبی ایشیا کے گزشتہ  بحرانوں میں کردار؛

جنوبی ایشیا نے ایک دہائی کے دوران تین بحران دیکھے؛ ۱۹۹۹ میں کارگل ، ۰۲۔۲۰۰۱ میں ٹوئین پیک اور ۲۰۰۸ میں ممبئی حملے، جبکہ ان تینوں بحرانوں کےوقت امریکہ نے پہل کرتے ہوئے کرائسز مینیجر کا کردار ادا کیا اور دیگر (ممالک) جیسے چین نے بحران کی شدت کو کم کرنے میں  کردار ادا کیا۔ ۱۹۹۹ میں چین نے غیر جانبدار ایمپائر کا کردار ادا کیا اور پاکستان اور بھارت، دونوں کو لائن آف کنٹرول  کی پابندی پر زور دیا ۔ چین کا یہ نقطہ نظر اسکی مداخلت نہ کرنے کی خارجہ پالیسی کے عین مطابق تھا جس کے مطابق چین نے پاک-بھارت تصفیہ میں براہِ راست یا خفیہ کردار ادا نہ کیا۔اسی طرح ۰۲۔۲۰۰۱ کے ٹوئین پیک کرائسز میں چین نے امریکہ اور یورپی یونین کو معاملہ سلجھانے دیا اور خود کو محض انکی (امریکہ و یورپی یونین)کوششوں کو سراہنے تک محدود رکھا۔ ۲۰۰۸ میں ممبئی حملوں کے بعد چین نے عالمی برادری کےساتھ آواز ملاتے ہوئے اعلیٰ سطحی وفود  کو پاکستان اور بھارت بھیجا جبکہ چین نے پاکستان پر اپنا اثرورسوخ استعمال کرتے ہوئے اسے اہم عسکریت پسندوں کو گرفتار کرنے پر زور دیا۔ اگرچہ ان تمام واقعات میں چین کا کردار مثبت رہا لیکن وہ محدود تھا اور اسی لیے چین کو جنوبی ایشیا میں سابقہ کوششوں پر کلیدی یا مرکزی ‘کرائسز مینیجر’ نہیں کہا جا سکتا۔ 

تاہم ایک کرائسز مینیجر اور سہولت کار کےکردار کئی طرح سےمختلف ہیں۔ امریکہ کے چین کی طرح علاقے میں کوئی زمینی مفادات نہیں ہیں۔اسی لئے بسا اوقات امریکہ کے پاکستان کے ساتھ ناخوشگور تعلقات اسے خطے میں پاک بھارت کشیدگی میں موثر کرائسز مینیجر کا کردار ادا کرنے سے روکتے نہیں ہیں۔لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ امریکہ بھارت بڑھتے دفاعی تعلقات مستقبل میں بھی خطے کی صورتحال پر کوئی اثر نہیں ڈالیں گے۔

امریکہ کا جنوبی اشیا کےعلاوہ دنیا میں بھی کرائسز مینیجر کے حوالے سے اچھا ریکارڈ ہے۔ لیکن چین کو جنوبی ایشیا میں ایک متوازن کردار کے طور پر نہیں دیکھا جاتا ہے چونکہ اس کے بھارت کے ساتھ سرحدی تنازعات ہیں اور ۱۹٦۵ اور ۱۹۷۱ کی جنگوں میں اس  نے  پاکستان کی سفارتی مدد کرنے کے علاوہ اب بھی پاکستانی فوج کو امداد جاری رکھی ہوئی ہے۔ ہاں البتہ عسکری طور پر چین خود کبھی بھی ان معاملات میں نہیں کودا۔ پس چین کا ان بحرانوں میں کردار اس کی  نارضامندی، خارجہ پالیسی اور علاقائی مسئلوں کی وجہ سے محدود ہے۔

سی پیک؛ تبدیلی کی ہوائیں؟

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ چین کی پاکستان میں سی پیک کی صورت میں سرمایہ کاری اسے پاک بھارت مسائل اور دشمنیوں  کو حل کرنے والا ایجنٹ بنا دے گی۔ لیکن چین اور بھارت بحرِ ہند اور آس پاس  سرمایہ کاری اور ربط سازی کے ذریعے  اپنا اثرورسوخ بڑھانے کے چکر میں ہیں جبکہ انکے مفادات سی پیک سے براہِ راست متصادم ہیں اور سی پیک چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشٹو کا اہم حصہ ہے۔ سی پیک کی طرح کا منصوبہ  ریاستی خود مختاری کے طے شدہ خیال کی نفی کرتا ہے چونکہ یہ  متنازعہ علاقے سے گزرتا ہے اور بھارت اسے نیشنل سکیورٹی  کا مسئلہ سمجھتا ہے۔ اگرچہ چین نے کہا ہے کہ سی پیک اس کی کشمیر پر پوزیشن کو تبدیل نہیں کرتا ہے اور اس معاملے کو پاکستان اور بھارت کو دوطرفہ  بات چیت کے ذریعے حل کرنا چاہئیے، لیکن یہ بات توجہ طلب ہے کہ چین نے ساؤتھ چائنہ سی میں بھارتی معاشی سرگرمیوں اور اروناچل پردیش میں اسکی موجودگی کو خود مختاری کی خلاف ورزی  قرار دیتے ہوئے سخت احتجاج کیا ہے جبکہ چین بھارت سے اس معاملے میں صلح جو رویے کی توقع کرتا ہے۔

علاقائی خود مختاری جیسے مسائل چین اور بھارت کے بیچ  زیادہ تفریق کا باعث بنیں گے چونکہ یہ مسائل پہلے سے موجود ہیں  اور  کسی ردِ عمل کا باعث بنتے ہوئے مزید پیچیدہ ہو سکتے ہیں۔ سی پیک کی کشمیر سے گزرنے والا علاقہ بہرحال بھارت کےلئے خودمختاری کا سوال ہے۔ جب مستقبل میں کبھی سی پیک کی سرمایہ کاری بہتر نتائج دینے کی  پوزیشن میں ہو گی تو اس وقت پاک بھارت کشیدگی کی صورت میں چین خطے میں اپنے انسانی ومادی مفادات  کی وجہ سے زیادہ ملوث ہو جائے گا۔ممکنہ طور پر چین کشمیر معاملے پر اپنے موقف میں نظرِثانی کرتے ہوئے بحران میں ایک پارٹی بن جائے گا۔ 

کرائسز مینیجر کےلئےسہولت کار؛

اس بات سے قطع نظر کہ بھارت اور چین زیرو سم گیم میں ملوث ہیں یا نہیں، ایک  معاندانہ منطق دونوں کے بیچ موجود ہے جو ان کو کسی بھی  ایکشن کی طرف لے جاتی ہے۔اگرچہ چین نے خطےمیں کشیدگی کے دوران غیرجانبداری کا مظاہرہ کیا ہے لیکن اس کردار نے چین کو محض ایک سہولت کار کےطور پر رکھا ہے جبکہ امریکہ ہمیشہ سےکشیدگی کم کروانے میں مرکزی کردار رہا ہے۔ چین کا خطےمیں کرائسز مینیجر کا کردار صرف تجارت کا نتیجہ نہیں ہو گایا اس لئے بھی نہیں کہ امریکہ کابرصغیر میں کردار کم ہو رہا ہے۔ بلکہ یہ کردار اور طریقوں سے سامنے آئے گا جیسا کہ چین کا بھارت کے ساتھ لمبے عرصہ کےلئے علاقائی مسائل کو حل کر لینا۔ یہ کہنا کہ چین کا جنوبی ایشیا میں کرائسز مینیجر کا کردار ادا کرے زمینی حقائق سے  قطعاً متصادم ہے کیونکہ چین کے اس علاقے میں دوطرفہ مسائل بدستور قائم ہیں۔ 

***

Click here to read this article in English.

Image 1: The Kremlin website via Wikimedia

Image 2: umairadeeb via Flickr (cropped) 

Share this:  

Related articles

پاکستان کے سلامتی (سے متعلقہ)مسائل سے چین کے ساتھ تعلقات کو نقصان پہنچنے کا خدشہ Hindi & Urdu

پاکستان کے سلامتی (سے متعلقہ)مسائل سے چین کے ساتھ تعلقات کو نقصان پہنچنے کا خدشہ

چین اور پاکستان کے درمیان طویل عرصے سے قریبی تعلقات…

पर्वतों से समुद्री तटों तक: गलवान के पश्चात् भारत-चीन प्रतिस्पर्धा Hindi & Urdu
جنوبی ایشیا میں بائیڈن کے ورثہ کا جائزہ Hindi & Urdu

جنوبی ایشیا میں بائیڈن کے ورثہ کا جائزہ

ریاستہائے متحدہ امریکہ ، 20 ویں صدی کے وسط سے…