امریکہ کی طرف سے ایران پر پابندیوں کی بحالی اور امریکی سرکاری عہدیداران کی طرف سے بھارت کو مغربی ایشیائی ملک سے تیل نہ لینے پر زور امریکہ اور بھارت کے بیچ تہران کے معاملے پر متضاد آراء کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ دراڑ بھارت کی طرف سے چاہ بہار کو ترقی دینے پر ابھرتی ہے جو کہ جنوب مشرقی ایران میں واقع ہے۔ بھارت کےلئے چاہ بہار جنوبی ایشیائی ممالک میں چینی بندرگاہوں بالخصوص پاکستان میں گوادر ، اور بڑھتے چینی اثرورسوخ کےلئے بہترین کاؤنٹرویٹ(متوازی حربہ) ہے۔ لیکن اب چاہ بہار ایران پر تازہ امریکی پابندیوں کے بعد چیلنج ہو چکا ہے۔ بھارت کے قریبی شراکت دار ہونے کی وجہ سے اور وسیع تر تزویراتی مفادات کو مدِ نظر رکھتے ہوئےامریکہ کو بھارت کو اس معاملے میں چھوٹ دینی چاہئیے۔
چاہ بہار کی تزویراتی اہمیت؛
بھارت نے افغانستان اور اس سے آگے تک رسائی کےلئے روائتی طور پر پاکستان پر انحصار کیا ہے۔ لیکن چاہ بہار ایران کے سیستان-بلوچستان صوبے میں واقع ہے اور گوادر سے ۸۰ کلومیٹر کی مسافت پر ہے اس لئے یہ بندرگاہ بھارت کو بحرِ ہند کے ذریعے وسطی ایشیا اور افغانستان تک رسائی فراہم کرتی ہے اور جس سے اس کا پاکستان پر انحصار بھی ختم ہو جاتا ہےکیونکہ پاکستان کے ساتھ تو ویسے ہی بھارت کے تعلقات عمومی طور پر ناخوشگوار ہی رہتے ہیں۔
چاہ بہار پر یہ توجہ کوئی نئی نہیں ہے ۔بھارت نے پہلی دفعہ ۲۰۰۳ میں اس سے متعلق دلچسپی دکھائی لیکن مغرب کی ایران پر پابندیوں اور بھارت کی طرف سے بیوروکریٹک مسائل نے سرمایہ کاری میں تاخیر کئے رکھی۔۲۰۱۵ میں ایران اور امریکہ کے بیچ جوائنٹ کمپری ہینسو پلان آف ایکشن (جے-سی-پی-او-اے )ـــجس نے ایران پر جوہری پروگرام کو محدود کرنے کے بدلے پابندیوں میں نرمی کیـــ کی وجہ سے چاہ بہار منصوبے کی ترقی میں پیش رفت ہوئی۔بھارت نے چاہ بہار میں دو برتھیں بنانے کےلئے ۵۰۰ ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کا وعدہ کرنے کے ساتھ ساتھ چاہ بہار سے زاہدان (افغان سرحد کے قریب) تک ریلوے رابطہ بنانے کےلئے اضافی ۶.۱ بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کا بھی اعادہ کیا ہے۔ گزشتہ اکتوبر میں بھارت نے گندم کی ایک کھیپ مغربی افغانستان کو براستہ ایران سڑک کے ذریعےبھیجی جس کا مقصد روٹ کی افادیت بتانا تھا۔لیکن صدر ٹرمپ کی جانب سے جے-سی-پی-او-اے سے باہر نکل آنا اور ایران پر پابندیوں کے دوبارہ اطلاق سے چاہ بہار کو بڑا دھچکا لگا ہے۔ پہلے امید تھی کہ بندرگاہ ۲۰۱۸ کے آخر تک چالو ہو جائے گی لیکن اب بھارت اسکے آپریشنل ہونے کی تاریخ ۲۰۱۹ کو دیکھتا ہے۔
ثانوی امریکی پابندیاں ایران کے ساتھ ساتھ اسکے ساتھ تجارت کرنے والے بیرونی سٹیک ہولڈرز پر بھی لاگو ہوتی ہیں ۔بھارت بھی اسی طرح کا سٹیک ہولڈر ہےاور اسکا چاہ بہار میں ملوث ہونے پر اثر پڑے گا۔اس وقت چاہ بہار کو ایک ایرانی کمپنی ۱۸ ماہ کےلئے سنبھالےہوئے ہے جبکہ بھارت اس کو بھارتی کمپنی کے ساتھ بدلنا چاہتا ہے تاکہ وہ بندرگاہ کے معاملات اگلے ۱۰ سال کےلئے سنبھالے۔لیکن ثانوی پابندیوں کی ساخت دیکھتے ہوئے بھارتی کمپنیوں پر بھی اثر پڑ سکتا ہے۔ جہاں بہت سی کمپنیاں ثانوی پابندیوں کی زد میں آنے سےاجتناب کریں گی وہیں بھارتی حکومت کےلئے بندرگاہ کا کنٹرول چلانےکےلئے ایک کمپنی کو ـــبیشک وہ پبلک سکٹر ہی کی کیوں نہ ہو ـــ ڈھونڈنا چیلنج ہو گا۔اگرچہ بھارت نے ماضی میں پابندیوں میں جکڑے ایران کے ساتھ تجارت کا راستہ نکال لیا تھا لیکن یہ دیکھنا باقی ہے کہ اب اس صورتحال میں بھارت کیا متبادل راستہ نکالتا ہے۔
بھارت کے تہران سے متعلق خطرات؛
بھارت کا ایرانی تیل پر انحصار معاملے کو اور گھمبیر بنا دیتا ہے۔ بھارت خام تیل کی ضروریات کو ۸۰ فیصد سے زیادہ درآمد کرتا ہے جس میں ایران اس کا تیسرا بڑا درآمدی یا ۱۵ فیصد تیل کا سپلائر ہے۔ ۲۰۱۵ میں جے-سی-پی-او-اے پر دستخط ہونے اور ایران پر پابندیاں ہٹائے جانے سے پہلےبھارت نے ایران سے درآمدی تیل کی قیمت روپوں اور دوسری بیوپاری اشیاء کی صورت میں کی ۔لیکن جے-سی-پی-او-اے پر دستخط ہو جانے کے بعد سے بھارت کی ایران سے درآمدات بڑھ گئیں۔ نومبر میں ثانوی پابندیوں کے اطلاق کے بعد بھارتی ریفائنریوں نے متاثر ہونے کے خطرے کے پیشِ نظر ایران سے خام تیل لینا کم کر دیا۔ کچھ بھارتی ریفائنریوں نے انشورنس اور ثانوی پابندیوں کی وجہ سے ایرانی درآمدات کو معطل کرنا شروع کر دیا ہے اور اس تعداد میں اضافے کی توقع ہے۔ایرانی درآمدات میں یہ کمی بھارت کےلئے صرف اس لئے بڑا دھچکا نہیں ہو گی کہ اسے متبادل ذریعے تلاش کرنا پڑیں گے بلکہ اس لئے بھی کہ ایران نے بھارت کو کم نرخوں پر تیل دیا اور ادائیگیوں میں نرمی برتی۔اس لئے نئی دہلی واشنگٹن کے ساتھ ایرانی تیل سپلائی میں کمی پر بات چیت کر رہا ہے لیکن اس بارے میں کوئی سرکاری بیان جاری نہیں کیا گیا۔
بھارت کی ایران میں موجودگی: ٹرمپ کی جنوبی ایشیائی حکمتِ عملی کی حمائت؛
امریکہ کی نئی دہلی کے تہران کے ساتھ تعلق کی مخالفت کے باوجود بھارت کی طرف سے چاہ بہار کی ترقی اصل میں امریکی مفادات کےلئے فائدہ مند ہو گی۔یہ اس لئے ہے کہ چاہ بہار منصوبہ بھارت اور افغانستان کے بیچ روابط بڑھائے گا اور کابل کو بھارتی مارکیٹ تک رسائی دیتے ہوئےملکی معاشی ترقی میں سہولت دے گا، بالخصوص اگر چاہ بہار ایک متحرک علاقائی یا عالمی بندرگاہ بن جاتی ہے تو۔چونکہ امریکہ کی جنوبی ایشائی حکمتِ عملی کا مقصد مستحکم افغانستان ہے تو چاہ بہار کو ترقی دینے کی بھارتی کوششیں امریکہ کو علاقائی مفادات پورے کرنے میں مدد دیں گی۔حقیقت میں امریکہ بھارت سے خطے میں اسی کردار کی توقع کرتا ہےجیسا کہ امریکی سرکاری عہدیداران نے زور بھی دیا ہے۔چاہ بہار میں اپنے مفادات کو کھو دینا بھارت کےلئے نقصان دہ ہو گا اور امریکہ کے خطے وژن کےلئے بھی۔
بھارت کےلئے ایران معاملے میں چھوٹ داراصل امریکی انڈو-پیسفک حکمتِ عملی کےلئے بھی کارگر ہو گی۔ ۲۰۱۷ کی امریکی نیشنل سکیورٹی سٹریٹجی بھارت کو خطے میں اہم شراکت دار تصور کرتی ہے، جو بحرِ ہند میں بڑھتے چینی کردار کو اپنے حجم، محل وقوع اور معیشت کےحجم کی وجہ سے متوازن کرتا ہے۔جہاں واشنگٹن خطے میں بھارت کےلیڈرشپ کے کردار کو سپورٹ کرتا ہے وہیں ایرانی معاملے میں اس کردار کو کم تر سمجھنا مطلوبہ نتائج نہ دے سکے گا۔مزید برآں مختلف حربے، جیسے اقوامِ متحدہ میں سابق امریکہ مندوب نکی ہیل نے بھارت کو متنبہ کرتے ہوئےایران کے ساتھ مراسم پر “نظرِ ثانی” کا کہا، دونوں ملکوں کےلئے فاصلے بڑھائیں گے بالخصوص جب بھارت تزویراتی خود مختاری کے نظرئے پر کاربند ہے۔
دوستوں کے بیچ ڈیل؛
اگرچہ اس بات کے کوئی بھی اشارے نہیں ملے ہیں کہ امریکہ ایران کے معاملے پر بھارت کو کوئی چھوٹ دے گا لیکن معاملے کو دونوں اطراف سے حال ہی میں زیرِ بحث لایا گیا جب سفارتکار ایلس ویلس ــــ جو وسطی اور جنوبی ایشیا کےلئے امریکی پرنسپل ڈپٹی اسسٹنٹ سیکرٹری ہیں ــــ ــ نے ـ بھارت کو یقین دہانی کرائی کہ ایران پر پابندیوں کا مقصد “شراکت داروں کو خطرے میں ڈالنا” نہیں ہے۔
ایران شائد امریکہ کےلئے خطرے کاباعث ہو مگر بھارت امریکہ کے ساتھ تاریخی اور ثقافتی تعلقات سے مستفید ہوا ہے۔اس لئے واشنگٹن کےلئے یہ غیر معقول ہو گا کہ وہ بھارتی خطرات کو اپنے خطرات کے ساتھ نتھی کر کے دیکھے۔ایران معاملے میں بھارت کو چھوٹ اسے افغانستان کی معاشی استحکام میں مزید مثبت کردار ادا کرنے کی اجازت دے گا، یہ امر خطے میں امریکی مفادات کو پروان چڑھائے گا اور امریکہ و بھارت کی دیرپا تزویراتی شراکت داری کا ضامن ہو گا۔تزویراتی تجربہ امریکہ سے متقاضی ہے کہ وہ اپنے تزویراتی دوستوں کےخدشات کو بھی خاطر میں لائے تاکہ بالآخر امریکہ خود اس چیز سے مستفید ہو سکے۔
***
Click here to read this article in English.
Image 1: Atta Kenare/AFP via Getty Images