بھارت کے ترسیلی نظام اور ڈیٹیرنٹ صلاحیت کی تقویت
دیبیلینہ گھوشل
ہتھیاروں کے ترسیلی نظام کی عملیاتی صلاحیت صرف بروقت تجربات سے ہی ممکن ہو سکتی ہے۔ چونکہ جوہری ڈیٹرنس کا دارومدار ایک ملک کے پاس (مجوزہ) جوہری صلاحیتوں پر ہوتا ہے اس لئے بعض دفعہ تجربات سے یہ امید کی جاتی ہے کہ وہ توقع کے مطابق نتائج دیں گے۔ ہتھیاروں کے کامیاب تجربات ڈیٹرنس کو مظبوط بناتے ہیں چونکہ اس سے مخالفین کو یہ پیغام جاتا ہے کہ محدود یا بڑے پیمانے پر ہونے والی روائتی جنگ اگر جوہری رنگ اختیار کر جاتی ہے تو ایک ریاست دوسری کو ناقابل تلافی اور تباہ کن نقصان پہنچا سکتی ہے۔
۷ نومبر کو بھارت نے اپنے پہلے لینڈ اٹیک کرُوز میزائل (نیربھے)کا تجربہ کیا۔ ۱۰۰۰ کلومیٹر تک مار کرنے والا میزائل نہ صرف آواز کی رفتار سے تیز تر ہے بلکہ نشانے کو ہدف بنانے سے قبل رک بھی سکتا ہے۔ یہ تجربہ اس لئے بھی اہم تھا کہ اس سے قبل ۲۰۱۳ میں بہت سے تجربات ناکام ہوئے تھے اور ۲۰۱۴ میں محض جزوی کامیابی ہی ملی تھی۔ اگرچہ بھارت اس تجربے سے خوش ہو گا تاہم ( ماضی کی ناکامیاں دیکھتے ہوئے) پائیداری جانچنے کےلئے اس میزائل کے مزید کامیاب تجربات کرنے چاہئیں۔ مزید برآں کم مار کی ہونے کی وجہ سے نیربھے چین کےلئے ڈیٹرنس کا باعث نہیں ہے۔جبکہ چین کو روکنے کےلئے بھارت کو (ترجیحاً فضاء اور آبدوز سے داغے گئے) لمبی مار کے کرُوز میزائلوں کے تجربات کرنا ہوں گے۔
۱۰۰۰ کلومیٹر کی مار ہونے کے باعث نیربھے بھارتی سرحد سے داغنے کے بعد پاکستان کے کچھ حصوں کو نشانہ بنا سکتا ہے۔ پاکستان نے پہلے ہی جوہری صلاحیت سے لیس ‘بابر اور رعد‘ کرُوز میزائل بنا لئے ہیں اور ان میں سے رعد کو دورانِ جنگ چھوٹے ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کےلئے بنایا گیا ہے۔ اسی صورتحال کے باعث بھارت کی طرف سے جوہری صلاحیت کے حامل کرُوز میزائلوں کی تیاری کو خطے میں تزویراتی عدم استحکام کے طور پر نہیں دیکھنا چاہیے۔
روائتی ڈیٹرنس حکمتِ عملی ‘میڈ’ (دو طرفہ یقینی نقصان) عمومی طور پر کاؤنٹر ویلیو اہداف (جیسا کہ ذیادہ آبادی والے مرکز) کو نشانہ بنانے کا نام ہے۔ میڈ کو اس لئے مستحکم ڈیٹرنس کے طور پر دیکھا جا تاہے چونکہ کسی بھی طرف سے جوہری ہتھیاروں کے استعمال میں پہل اس لئے نہیں ہوتی کہ مخالف سمت سے بھرپور جوابی کاروائی یقینی ہوتی ہے۔ تاہم جب ریاستیں ایسی کاروائیاں روکنے کی حکمتِ عملی پر کام کرتی ہیں جو خصوصی طور پر عسکری اثاثوں کو ہی ہدف بناتی ہیں تو ڈیٹرنس کمزور پڑ جاتا ہے چونکہ اس سے’پہلے حملہ’ کرنے کی راہ ہموار ہو جاتی ہے۔ اس صورتحال اور پاکستان و بھارت کی ہمسائیگی کی وجہ سے نیربھے تجربہ کاؤنٹر ویلیو اور کاؤنٹر فورس جیسی حکمتِ عملیوں کے طور پر کام کرتے ہیں ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ڈیٹرنس پر ایسے تجربات کا اثر بھی مبہم ہی ہے۔
نیربھے میزائل کا کامیاب تجربہ جنوبی ایشیا میں ڈیٹرنس اور پاکستانی صلاحیتوں کے ہم پلہ ہونے کے حوالے سے اہم قدم ہے۔ جبکہ چینی طاقت کے تدارک کےلئے ۲۰۰۰ سے ۳۰۰۰ کلومیٹر مار کرنے کی صلاحیت کے حامل میزائلوں کی تیاری بھی کرنی چاہیے۔
نیربھے میزائل جنوبی ایشیا میں ڈیٹرنس کا استحکام کمزور کرنے کا موجب؛
صائمہ امان سیال
گزشتہ ہفتے بھارت کے ڈیفنس ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن (ڈی-آر-ڈی-او) نے نیربھے میزائل کا تجربہ کیا۔ میزائل زمین سے زمین تک دور تک مار کرنے، ۳۰۰ کلو گرام تک جنگی اسلحہ سے لیس ہونے اور ۱۰۰۰ کلومیٹر تک نشانے کو ہدف بنانے کی صلاحیت سے لبریز ہے۔ بہت سی خبروں میں یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ ڈی-آر-ڈی-او نیربھے میزائل کے فضائی اور سمندری ورژن پر بھی کام کر رہا ہے۔
اس کو مقامی طور پر تیارکرنے کا آغاز ۲۰۰۴ میں ہوا اور منصوبے کو مکمل کرنے کےلئے ۲۰۱۶ کی حتمی تاریخ رکھی گئی تھی۔ تاہم آغاز سے ہی منصوبہ تکنیکی و سمت شناسی جیسے مسائل کا شکار رہا۔ حالیہ تجربے سے قبل کئے گئے چار تجربات میں سے محض ایک کامیابی ۲۰۱۴ میں ملی مگر اسے بھی جزوی کامیابی ہی کہا جا سکتا ہے۔ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ایک دفعہ عملیاتی ہو جانے پر میزائل کو جوہری آبدوز یا بھارتی بحریہ کے زمینی جہازوں پر تعینات کیا جائے گا۔
بھارت نے پہلے ہی روسی مدد سے دوہرے استعمال کا حامل براہموس میزائل تیار کر لیا ہے۔ براہموس آواز کی رفتار سے تیز کرُوز میزائل ہے جس کی مار ۲۹۰ کلومیٹر اور جو زمین، فضاء اور سمندر ی ورژن کا حامل بھی ہے۔ اسی میزائل کا اضافی مار کا ورژن (۴۵۰ کلومیٹر) کا تجربہ بھی اسی سال کیا گیا تھا جبکہ اسے آواز کی رفتار سے پانچ گنا تیز بنانے پر بھی کام جاری ہے۔
بیلسٹک میزائل کے بر خلاف کرُوز ٹیکنالوجی کی صلاحیت حاصل کرنا بھارت کےلئے کچھ الگ ہی معنی رکھتا ہے۔ اپنی درستگی کی وجہ سے کروز میزائل کاؤنٹر فورس کےلئے بہترین ہے۔ اپنی اپنی مار کی بدولت براہموس اور نیربھے میزائل بھارت کو زمین اور سمندر میں تزویراتی تعطل برقرار رکھنے کی صلاحیت سے نوازیں گے۔
بھارت کے جوہری نظریے سے متعلق حالیہ بحث ایک تبدیلی کی طرف اشارہ کرتی ہے اور وہ یہ ہے کہ اب بھارتی جوہری نظریہ بڑی جارحیت پسندی سے ‘پہلے حملہ ‘ کرنے کی پالیسی میں بدل گیا ہے۔ مخالف کی جوہری حملے میں پہل کی صلاحیت کو ختم کرنا ایک پر خطر اور رسکی حکمتِ عملی ہے۔ اگرچہ یہ مخالف کی جوہری صلاحیت کو مکمل ختم کرنے کی گارنٹی نہیں دیتا مگر اس پالیسی کی تیاری (مختلف صلاحیتوں اور ہتھیاروں کی استعدادِ کار بڑھاکر) بھارت کے اعتماد میں اضافہ کرتی ہے۔ بیلسٹک میزائلوں سے دفاع، جوہری آبدوزوں اور کروز میزائلوں سے مسلح صلاحیت بھارت کو یہ اعتماد دیتی ہے کہ وہ پاکستان پر حملہ کرنے میں پہل (فرسٹ سٹرائیک) کر سکے۔
پہلے ہی بھارت کے اگنی سیریز کے میزائل پاکستان کے تمام حصوں کو نشانہ بنا سکتے ہیں اور تزویراتی ڈیٹرنس کےلئے انتہائی مناسب ہیں کیونکہ ان میں ہدف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت میں غلطی کا امکان انتہائی کم ہے۔ ان کی اسی خاصیت کے باعث ، کرُوز میزائل (جیسا کہ نیربھے) پاکستان کے اسلحہ خانوں، کمانڈ اینڈ کنٹرول کے مراکز، ریڈارز کی جگہوں اور اڈوں کو نشانہ بنانے کےلئے بہترین ہیں۔ ۲۰۱۴ میں نیربھے تجربے کے بعد ڈی-آر-ڈی-او کے ڈائریکٹر جنرل آوینش چندر نے بیان دیا کہ میزائل کی کرُوز صلاحیت “مسلح افواج کی جنگی ضروریات کے بیچ خلاء کو پرُ کر سکے گی” اور یہ چیز بھارت کے کولڈ سٹارٹ نظریے کی حمائت میں جاتی ہے۔
بھارت کا کاؤنٹر فورس حکمتِ عملی اپنانا جنوبی ایشیا کےلئے خطرناک اثرات مرتب کرے گا۔ اور اس پالیسی پر عمل پیرا ہونے کےلئے بھارت اپنی انٹیلی جنس، نگرانی اور جاسوسی کی صلاحیت بڑھانے کے ساتھ ساتھ مزید جوہری مواد اکھٹا کرے گا۔ پاکستان کےلئے اس صورتحال میں ضروری ہو جائے گا کہ وہ جوہری ڈیٹرنس کی قابل اعتبار بنانے کےلئے مختلف اقدامات کرے جیسا کہ جوہری ہتھیاروں کو بچانے اور چھپانے کے ساتھ ساتھ ان کی سمندر میں تعیناتی ۔
اسکے علاوہ، کرُوز میزائلوں کو آبدوزوں اور جہازوں کے ذریعے سمندر میں رکھنا کشیدگی کے امکانات بڑھا دے گا۔ جنوبی ایشیا کے دونوں ہمسائیوں کےلئے یہ مناسب ہو گا کہ وہ اعتماد سازی کے اقدامات کریں تاکہ دونوں ملک ایک دوسرے کے کمانڈ اینڈ کنٹرول مراکز، مواصلات اور بنیادی ڈھانچے پر حملوں سے اجتناب کر سکیں اور جس سے باہمی ڈیٹرنس یقینی بنایا جا سکے۔
***
Click here to read this article in English.