پاکستان چین کی جنوبی ایشیائی پالیسی میں انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ جنوبی ایشیا وہ خطہ ہے جس کے بے پناہ قدرتی وسائل اور اہم سمندری راستوں سے قربت نے اس کو معاشی اور تزویراتی جغرافیہ میں چین کےلئے بھی اہم بنا دیا ہے۔ اور جنوبی ایشیا کی اسی اہمیت نے پاکستان کو چین کے “ایشیا ڈریم“میں مزید اہم کر دیا ہے (چین کی یہ پرانی خواہش ہے کہ وہ اپنی تاریخی مقام کہ جس میں وہ برصغیر میں بنیادی راہبر تھا،کو دوبارہ حاصل کر سکے)۔ چین کی جنوبی ایشیائی پالیسی کا مقصد ایک طرف تو علاقائی ربط سازی کا ارتقاء ہے اور دوسری طرف وہ ایشیا میں بھارتی اثرورسوخ کو بھی قابو کرنا چاہتا ہے۔
بلاشبہ چند تجزیہ کاروں کے مطابق چین کا پاکستان کی طرف جھکاؤ بھارت کے ساتھ سرد مہری کی وجہ سے ہے کیونکہ بھارت ایک ابھرتی ہوئی ایشیائی طاقت ہے جو چینی اثرورسوخ کو روک سکتی ہے۔ اسی لئے چین کے پالیسی سازوں کی نگاہیں امریکہ-بھارت بڑھتے ہوئے روابط (جنکی وسعت کی مثال صدر ٹرمپ کی حالیہ افغان پالیسی میں بھی دکھائی دی )، پاک–بھارت مسائل اور چین کے بھارت کے ساتھ اپنے سرحدی مسائل پر رکھے ہوئے ہیں۔ چین پاکستان کو جنوبی ایشیا میں امریکہ-بھارت تزویراتی گٹھ جوڑ کے توڑ کےلئے بھی بہترین گردانتا ہے۔
چین کا پاکستان میں تزویراتی اور معاشی کردار
۱۹۵۳ میں سفارتی روابط کے آغاز سے پاکستان اور چین نے اچھے دور ہی دیکھے ہیں۔ اگرچہ پاکستان سرد جنگ کے دوران امریکی بلاک کا حصہ رہا تاہم ۱۹۶۲ کی چین-بھارت سرحدی معاملے پر جنگ اوربھارت کی سابقہ سوویت یونین کے ساتھ قربت (کہ جس کے ساتھ چین کے تعلقات ۱۹۶۰ کے بعد خراب ہوئے) وہ عوامل تھے جن کی بنیاد پر چین نے پاکستان کے ساتھ سفارتی تعلقات کو وسعت دی اور ۱۹۶۵ اور ۱۹۷۱ کی پاک-بھارت جنگوں میں بھی پاکستان کی مدد کی۔
چین نے پاکستان کو ہتھیاروں کی فراہمی ۱۹۶۰ کی دہائی میں شروع کی اور ۱۹۹۰ میں امریکہ کی طرف سے پاکستان کو ہتھیاروں کی فراہمی پر پابندیوں کے بعد چین ہی پاکستان کو اسلحہ فراہم کرنے والا بنیادی ملک بن گیا۔ یہ بھی یقین سے کہا جاتا ہے کہ چین نے ہی پاکستانی جوہری پروگرام میں بھی مدد دی۔ چین کےلئے پاکستان کے ساتھ اشتراک سے نہ صرف اسے پاک-امریکہ قربت سمجھنے بلکہ بھارت کی چین کے خلاف جارحیت کو روکنے میں بھی مدد ملی۔ پاکستان چین کےلئے امریکہ کے ساتھ تعلقات کو بحال کرنے کا بھی موجب بنا اور اسی بدولت ہنری کسنجر نے ۱۹۷۱ میں چین کا دورہ کیا تھا۔
اگرچہ بنیادی طور پر پاکستان کے ساتھ چینی تعلق محض تزویراتی نوعیت کا تھا تاہم ۱۹۹۰ کے بعد چین نے معاشی سطح پر بھی اسلام آباد کے ساتھ روابط بڑھائے۔ چین نے اب پاکستانی اشتراک سے ۶۲ بلین ڈالر کے سی پیک منصوبے (جو نقل و حمل، بنیادی ڈھانچے کی تعمیر اور توانائی منصوبوں کو پاکستان کے طول و عرض میں پھیلا دے گا) پر بھی کام شروع کر دیا ہے۔ چین کے وسیع تر علاقائی بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو کےلئے سی پیک بنیادی کردار ادا کرے گا اورا س سے چین کے جنوبی ایشیا میں کردار کا دائرہ وسیع ہوگا اور بھارتی بالا دستی کے آگے بھی بند بندھا جائے گا۔ اس (بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو ) منصوبے نے اسلام آباد کی چین کےلئے تزویراتی اہمیت دوچند کر دی ہے اور چین کی وسطی ایشیا، افغانستان کے ساتھ تجارت مزید موثر بنا دی ہے۔ سی پیک نے گوادر بندرگاہ کے ذریعے چینی مارکیٹوں کو افریقہ اور خلیج ملکوں کے ساتھ ملادیا ہے اور اسی بندرگاہ سے پہلی شپمنٹ ۲۰۱۶ کے آخر میں شروع ہو چکی ہے۔
چین کے پاکستان کے ساتھ معاشی روابط جنوبی ایشیا میں بھارت-امریکہ تعلقات کے ساتھ نتھی ہیں۔ بھارت-امریکہ تعلقات نے پاکستان کو کافی عرصے سے پریشان کیا ہوا ہے کیونکی اسلام آباد کی نظر میں یہ تعلقات واشنگٹن کی طرف سے علاقے میں اسکے ازلی دشمن بھارت کو بالا دستی کی شہہ دینے کے مترادف ہیں۔ جبکہ چین پاکستان کے ساتھ تعلقات کو خطے میں اپنے معاشی و فوجی مفادات کا تحفظ گردانتا ہے۔ نتیجتاً پاکستان اور چین صدر ٹرمپ کی افغان پالیسی کو رد کرتے ہیں کیونکہ اس سے افغانستان میں بھارتی کردار کو توسیع ملتی ہے اور پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف کوششوں کی نفی ہوتی ہے۔ حالیہ دنوں میں چینی اور پاکستانی تھنک ٹینک کی اسلام آباد اجلاس میں میجر جنرل (ریٹائرڈ) لی میگیانگ کا کہنا تھا کہ امریکہ نے پاکستان کو نامناسب انداز میں موردِ الزام ٹھراتے ہوئے افغانستان میں غلط پالیسی اپنائی ہے۔ جبکہ میجر جنرل(ریٹائرڈ) ژاؤ ننگ نے کہا کہ امریکہ آسٹریلیا اور بھارت کو اپنی انڈو-پیسیفک حکمتِ عملی میں مرکزی کردار دے رہا ہے۔ چونکہ بھارت اور امریکہ کے مفادات میں مماثلت بڑھتی چلی جا رہی ہے تو نتیجتاً چین اور پاکستان بھی ایک دوسرے کے مزید قریب آ رہے ہیں۔
پاک–چین تعلقات کے بدلتے رخ
اگرچہ چین کی پاکستان کو امریکہ-بھارت گٹھ جوڑ کے خلاف سپورٹ خاصی غیر متزلزل رہی ہے تاہم چینی صدر ژی جن پنگ نے برکس اجلاس ۲۰۱۷ کے اعلامیہ کی حمائت کی۔ اعلامیہ میں پاکستان سے دہشت گردوں کے ٹھکانے ختم کرنے پر زور دیاگیا تھا۔ یہ چین کی طرف سے پاکستان کو اقوامِ متحدہ سمیت دیگر عالمی فورمز پر سہارا دینے کی روش سے پہلو تہی ہے۔ لیکن وزیر خارجہ خواجہ آصف کی دورہ چین کے دوران مشترکہ پریس کانفرنس چینی وزیر خارجہ وانگ ژی نے پاکستان کے ساتھ مضبوط شراکت داری کے اعادے کو دوہرایا اور دہشت گردی کے خلاف پاکستانی کوششوں کو سراہا۔ بظاہر لگتا ہے کہ چین پاکستان کے ساتھ تعلق اور عالمی اداروں کے ساتھ ربط سازی میں توازن پیدا کرنے کے چیلنج میں پھنسا ہوا ہے۔ اورمستقبل میں یہ دیکھا جائے گا کہ چین اس چیلنج سے کیسے نبرد آزماہوتا ہے۔
افغانستان میں بدلتے حالات کے تناظر میں چین اور پاکستان نے “افغان لیڈ، افغان اونڈ” امن فارمولے(جو طالبان کو امن عمل میں شامل ہونے کی دعوت دیتا ہے) کی حمائت میں اپنا وزن ڈالا ہے ۔ تاہم یہ دیکھنا دلچسپ ہو گا کہ اس قسم کا کوئی عمل کس حد تک کامیاب ہوتا ہے وہ بھی ایک ایسے وقت میں جب نئی افغان پالیسی میں صدر ٹرمپ مصالحتی عمل کو زیر غور ہی نہیں لائے۔
چین پاکستان شراکت داری کا ایک اور ابھرتا نقطہ دفاع کا شعبہ ہے۔ چین اور پاکستان ۲۰۱۶ میں امریکہ اور بھارت کے آپس میں لاجسٹک سمجھوتے کے حوالے سے بھی غیر مطمئن پائے گئے کیونکہ اس سے (امریکہ-بھارت) کی فوجوں کے بیچ تعاون مزید گہرا ہوا۔ اس لئے یہ شائد چین کے مفاد میں ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ دفاعی تعلقات مضبوط کرے۔ گزشہ دنوں کے ڈوکلام معاملے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ دونوں علاقائی طاقتوں نے ایشیا پر حکمرانی کے پرانے نظرئے کو خیرباد نہیں کہا ہے۔ بڑھتے ہوئی بھارت۔امریکہ دفاعی تعاون کے مدنظر ممکن ہے کہ پاکستان میں امریکی دفاعی امداد کی جگہ چین لے لے۔
اسلام آباد چین کی جنوبی ایشیا میں موجودگی کو کیسے دیکھتا ہے؟
اسلام آباد نےجنوبی ایشیا میں چینی کردار کو خوش آمدید کہا ہے کیونکہ اسے لگتا ہے کہ یہ خطے میں بھارتی تزویراتی اور معاشی بالا دستی کے خلاف توازن کا باعث بنے گا۔ پاکستان چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو کی سری لنکا تک وسعت کو ایک تیر سے دو شکار سمجھتا ہے کیونکہ منصوبہ ایک ہی وقت میں چین کا خطے میں کردار بڑھاتا ہے اور بھارت کو پریشان بھی کرتا ہے۔
تاہم پاکستان کی چین سے یہ امیدیں بھی ہیں کہ وہ افغانستان میں امریکی کوششوں میں ناکامی کے بعد اپنا کردار ادا کرتے ہوئے امن یقینی بنائے۔ روہنگیا کے معاملے پر پاکستان اور چین کی اپنی اپنی حکمتِ عملی ہے۔ پاکستان کی نظر میں روہنگیا حقیقی مسئلہ ہے اور ہزاروں پاکستانیوں نے انکے حق میں آواز اٹھائی ہے لیکن اسکے برعکس چین میانمار کو اہم اتحادی سمجھتا ہے۔ ان سب عوامل کے باوجود پاک-چین دوستی آج بھی مضبوط کھڑی ہےکیونکہ دونوں ہی جنوبی ایشیا میں اپنے اپنے ایجنڈے کی ترویج کےلئےایک دوسرے کو ضروری سمجھتے ہیں۔
***
Click here to read this article in English.
Image 1: The British Foreign and Commonwealth Office via Flickr
Image 2: Lintao Zhang via Getty Images