Pangong_Tso_lake-1024×616-1

 

چین اور بھارت کی فوجیں جون ۲۰۲۰ کے درمیان مشرقی لداخ میں آمنے سامنے آئیں تھیں، جس سے دونوں کے درمیان سلامتی سے لے کر سفارتی شعبوں تک مقابلے بازی شدت اختیار کر گئی۔ اس کے باوجود چینی اور بھارتی قیادت اپنے بیانات میں جوہری ہتھیاروں کی صلاحیتوں کا حوالہ دینے سے باز دکھائی دیتی رہی۔ دونوں میں سے کسی بھی ریاست نے ۲۰۲۱ میں فوجوں کے آمنے سامنے آنے پر جوہری بٹن دبانے کی دھمکی نہیں دی، جو اس امر پر شاہد ہو سکتا ہے کہ یہ جوہری جوڑی بھارت اور پاکستان کی جوڑی کے مقابلے میں قدرےمستحکم ہے۔ تاہم جوہری اشارے بازیوں کی واضح موجودگی کے ثبوت موجود نہ ہونا لازمی طور پر یہ اشارہ نہیں دیتا کہ بھارت اور چین نے کلی طور پر اس سے گریز کیا ہے۔

یہ مضمون ان دو مواقع کا جائزہ لے گا کہ جب چین نے بھارت کے حوالے سے جوہری اشارہ کیے: دو ویڈیوز جنہیں چینی سرکاری میڈیا نے فروری اور مارچ ۲۰۲۱ میں جاری کیا تھا، سرحد کے اوپر بھارت کے ہمراہ عسکری تناؤ کا حوالہ دیتی ہیں اور دونوں میں پیپلز لبریشن آرمی راکٹ فورس (پلارف) کی ایسی تصاویر موجود ہیں جن میں وہ جوہری صلاحیت کے حامل میزائل داغنے کے لیے تیار رہنے کی مشق کر رہی ہیں۔

ان دو ویڈیوز کے اندر چین کی اپنی جوہری صلاحیتوں کی تزویراتی نمائش ایک فوری مقاصد کی حامل اور ایک طے شدہ چال تھی جس کا مقصد لائن آف ایکچوئل کنٹرول (ایل اے سی) پر موجود بھارتی فوجیوں کو ہٹانا تھا کیونکہ دونوں ہمالین پڑوسیوں کے درمیان بات چیت کا سلسسلہ منقطع تھا۔ طویل مدت میں، یہ ویڈیوز یہ تجویز کرتی ہیں کہ چین ایل اے سی پر بھارت کے ہمراہ سرحدی جارحیت سمیت علاقے میں خود کو درپیش خطرات کو نشانے بنانے کی اپنی قابلیت کو مضبوط کر رہا ہے۔

پلارف کا کردار: ایک طے شدہ چال یا علاقائی حکمت عملی؟

ریاستی اسپانسرشپ میں ۱۹ فروری ۲۰۲۱ کو جاری ہونے والی ایک اور ویڈیو میں ہم جوہری صلاحیتوں کے حامل ڈونگفینگ میزائلوں کے وژوئلز کے ہمراہ پلارف کے سپاہیوں کو چینی خودمختاری کا غیر ملکی قوتوں سے تحفظ کرنے کا عہد کرتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ یہ ویڈیو ریاست سے الحاق یافتہ نیشنل ڈیفنس ٹائمز نے پروڈیوس کی تھی اور اسے مختصر ویڈیوز کے پلیٹ فارم بلی بلی سے جاری کیا گیا تھا۔

اس ویڈیو میں، فوجی نعرے لگا رہے ہیں کہ، “عالی شان قراقرم نے سرخ آگ کے نوک دار شعلوں کو اور بھی تیز تر کر دیا۔ میں پیپلز لبریشن آرمی راکٹ فورس کی دھرتی ماں ہوں۔ میں تم سے کہنا چاہتی ہوں کہ ہم ایک عظیم ہتھیار رکھتے ہیں اور جنگ لڑنے کے اپنے ارادوں کو تازہ دم رکھنے کے لیے چینی کمیونسٹ پارٹی کے حکم کو سننے کے لیے پرعزم ہیں۔“ چونکہ قراقرام وہ اصطلاح ہے جسے پی ایل اے مشرقی لداخ کے مخالف سمت کے خطے کے لیے استعمال کرتی ہے جس پر چین دعوی کرتا ہے، لہذا اس سے یہ مطلب نکلتا ہے کہ عہد بھارت کے ہمراہ سرحدی جارحیت کے بارے میں ہے۔ بھارت کے لیے یہ بلواسطہ حوالہ حیران کن امر نہیں، کیونکہ پی ایل اے ”قراقرم ریجن“ کو عام طور پر اندرونی پراپیگنڈے کے لیے استعمال کرتا ہے، حتیٰ کہ تائیوان اور امریکہ کا بھی پی ایل اے کے پراپیگنڈے میں براہ راست حوالہ نہیں دیا جاتا۔

دو ویڈیوز کے اجراء کے ذریعے چین نے ۲۰۲۱ میں فوجوں کے آمنے سامنے آ جانے کے ایک نازک موقع پر بھارت پر زیادہ سے زیادہ دباؤ ڈالنے کی کوشش کی۔ اگرچہ دونوں اشاعتوں کے مقصودہ سامعین بنیادی طور پر چینی باشندے تھے، تاہم بیجنگ غالباً یہ توقع بھی رکھتا تھا کہ بھارتی حکومت اور اس کے انٹیلی جنس ادارے اس سرعام دستیاب ویڈیوز کا پتہ چلائیں۔ یہ ایک ایسے وقت پر جاری کی گئیں تھیں جب بھارت ۲۰۲۰ میں فوجوں کے آمنے سامنے آنے کے بعد سے مشرقی لداخ میں تعینات پی ایل اے فورسز کے مکمل طور پر پیچھے ہٹنے کے لیے مذاکرات کر رہا تھا۔ خاص کر DF-31AG مشقیں عسکری مذاکرات کے دسویں راؤنڈ کے بعد نشر کی گئی تھیں- یہ ایک ایسا وقت تھا جب مذاکرات میں ایک رکاوٹ پیدا ہو گئی کیونکہ بھارتی فریق نے پی ایل اے فورسز کے مزید پیچھے ہٹنے کا مطالبہ کیا تھا۔ مشقوں کا وقت یہ عندیہ دیتا ہے کہ بیجنگ شاید بھارت پر اسٹیٹس کو کی بحالی پر آمادہ ہونے کے لیے دباؤ ڈالنا چاہتا تھا۔ تاہم یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ کیا نئی دہلی نے DG-31AG مشقوں کو پی ایل کے ارادوں کی جانب اشارہ سمجھا یا پھر کیا ان کا مقصد سرحدی تنازعوں کی جانب اشارہ کرنا تھا۔

چینی میزائل کی تیاری: کیا ہدف بھارت ہے؟

چینی رہنما شی جن پنگ کی جانب سے براہ راست جوہری دھمکیاں نہ دیے جانے کے باوجود، چین نے جوہری ہتھیاروں کے حامل میزائلوں کی عسکری مشقیں کیں اور حکمت عملی کے تحت ان کی نمائش کی۔ ۲۶ مارچ، ۲۰۲۱ کو چینی سرکاری ٹیلی ویژن نے پلارف کو ایک روڈ موبائل میزائل DF-31AG کی ایک قسم کے لیے تیاریوں کی مشق کرتے دکھایا۔ اس نشریات کے مطابق، یہ مشقیں منفی ۲۰ ڈگری درجہ حرارت میں ۴۰۰۰ میٹرز کی بلندی پر کی گئیں تھیں۔ ویڈیو میں پلارف کے سپاہیوں کو ایک انٹرکانٹینینٹل بیلسٹک میزائل (آئی سی بی ایم) DF-31AG کو ایک ٹرانسپورٹ ایرکٹر لانچر (ٹی ای ایل) کے اوپر کسی مخصوص مقام پر لے جاتے ہوئے اور ٹیسٹ کے لیے میزائل کو تیار کرتے دکھایا گیا تھا۔ سپاہیوں نے تابکاری سے تحفظ دینے والے ماسکس (00:۴۹) پہن رکھے تھے اور وہ میزائل کے تیار ہونے کی جانچ کر رہے تھے۔

مارچ ۲۰۲۱ کی یہ مشق اس امر کا ایک ثبوت ہے کہ چین علاقائی اہداف کی اپنی حکمت عملی پر دوبارہ غور و خوض کر رہا ہے۔ ۲۰۱۷ اور ۲۰۱۸ میں چین نے سرکاری سطح پر اس کا اظہار کیا تھا اور اس کے نتیجے میں DF-31AG کو تعینات کر دیا تھا۔ بلیٹن آف اٹامک سائنٹسٹس نیوکلیئر نوٹ بک کے مطابق، DF-31 اور اس کی اقسام ایک نیا میزائل سسٹم ہیں جو علاقائی اہداف کے لیے پہلے سے موجود DF-4 سسٹم کی جگہ لیتے ہیں۔ DF-31 کی رسائی اسے علاقائی اہداف کے لیے مثالی بناتی ہے کیونکہ یہ میزائل امریکہ کے زیادہ تر حصوں کا احاطہ نہیں کرتا۔ اس کے بجائے، DF-31 خطے میں چینی ڈیٹرنس میں موجود خلاء کو پر کرنے کے لیے موزوں ہے، جس میں بھارت، روس اور گوام شامل ہیں۔

کچھ دیگر ایسے اشارے بھی ملتے ہیں کہ پلارف بھارت سمیت خطے کے حوالے سے خصوصاً جوہری ڈیٹرنس کو مضبوط کرنے کے ضمن میں فکرمند ہے۔ ایک نئی میزائل برگیڈ، برگیڈ بیس

۴۶۷ نے ممکنہ طور پر چنگھائی صوبے کے شہر زیننگ میں ایک تجربہ کیا ہے۔ تجربے کے ٹھیک ٹھیک مقام کی ویڈیو میں تشہیر نہیں کی گئی۔ تاہم غالب امکان یہی ہے کہ ویڈیو میں دکھائی دینے والا پہاڑی سلسلہ چینی صوبے چنگھائی کے سطح زمین سے بلند تر مقام ہیں، جو تبت کے ساتھ متصل اور لداخ کے قریب ہیں۔ وہ مقام جہاں سے اسے ممکنہ طور پر داغا گیا نیز DF-31AG کی رینج اسے بھارت کو نشانہ بنانے کے لیے ایک مثالی میزائل بناتی ہے۔ اگر ایک DF-31AG شنگھائی سے داغا جائے تو یہ سان فرانسسکو تک بھی نہ پہنچ سکتا۔ یہ میزائل علاقائی اہداف کے لیے ہی ہے؛ یہ بہت آرام سے پورے برصغیر کو نشانہ بنا سکتا ہے، بشمول بھارت کے دور دراز جزائر جیسا کہ جزائر انڈمان و نکوبار اور لکشدیپ جزائر۔

چین بھارت جوہری تناؤ کا مستقبل

دونوں ویڈیوز نے شاید بھارت کے ہمراہ جوہری سطح کے بحران کا اشارہ نہ دیا ہو لیکن ان سرکاری میڈیا پلیٹ فارمز نے مشرقی لداخ میں فوجوں کے مقابل ہونے کے پس منظر میں پلارف اور اس کی جوہری قوتوں کی جانب براہ راست اشارہ کیا ہے۔ چین کی جانب سے ایک عسکری بحران کے دوران اپنی جوہری صلاحیتوں کی تشہیر یہ ظاہر کرتی ہے کہ بیجنگ میں موجود قیادت مستقبل میں اپنے اہداف کو حاصل کرنے کے لیے دھمکی آمیز جوہری اشارے کر سکتی ہے۔ یہ مستقبل میں چین بھارت تنازعوں میں نادانستہ طور پر اشتعال انگیزی کے شدت اختیار کرنے کے اضافی خطرے کی جانب اشارہ کرتا ہے، کیونکہ ایسے لمحے میں کہ جب عسکری تناؤ عروج پر ہو تب ایک اصل جوہری بحران اور فوجی تیاریوں کی مشقوں میں تفریق مشکل ہو سکتی ہے۔

اس امر کو ثابت کرنے لائق کوئی حقائق اگرچہ دستیاب نہیں کہ بھارتی سیاسی اور عسکری قیادت نے اوپر بیان کردہ میزائل کے تجربوں پر غور کیا ہو۔ ہو سکتا ہے کہ چینی قیادت ایسے ذرائع کی وساطت سے اشتعال انگیزی کے اشارے بھیج رہی ہو کہ جو بھارتی قیادت تک پہنچ نہ رہے ہوں۔ اگر درحقیقت یہ سچ ہے کہ بھارتی قیادت نے وہ اشارے وصول ہی نہیں کیے کہ جو چین بھیج رہا تھا، تو ایسے میں نادانستہ یا حادثاتی اشتعال انگیزی کے سنگین امکانات ہو سکتے ہیں۔

یہ ویڈیوز یہ بھی تجویز کرتی ہیں کہ چین کی ارتقاء پذیر جوہری حکمت عملی بھارت کے ہمراہ جاری سرحدی تنازعوں کے ساتھ مل کر متعدد کیفیات کو پیچیدہ کر سکتی ہے۔ اگر بھارت کے ہمراہ سرحدی جارحیت پہلے ہی زوال پذیر ہو رہی ہوتی، تو ایسے میں بھارت چین کے ان اشاروں کو باآسانی غلط سمجھ سکتا تھا جو کہ وہ تائیوان کی صورتحال میں گوام میں موجود امریکی فورسز کو بھیج رہا ہے۔ پاکستان کے ہمراہ بحران کی صورت میں بھارت، چین پاکستان معاونت سے حواس باختہ ہو سکتا ہے اور اس طرح چین کی جوہری قوتوں کی جانب سے کیے جانے والے کسی بھی اشارے سے پیشگی مصروف ہو سکتا ہے۔

مختصر یہ کہ، چین کی جانب سے جوہری اشاروں کا تجزیہ یہ تجویز کرتا ہے کہ بھارت اور چین کے درمیان سرحدی تنازعہ جنوبی ایشیائی خطے کی پیچیدہ سیاست میں بدستور کم زیر مطالعہ آنے والا تاہم جوہری جنگ کے خطرے کا حامل مقام ہے۔ پالیسی سازوں اور مفکرین دونوں کو یہ یقینی بنانے کے لیے کام کرنا چاہیئے کہ بھارت اور چینی رہنماؤں کے درمیان بات چیت کے دروازے کھلے رہے ہیں تاکہ انہیں جوہری بحران کو روکنے کے لیے استعمال کیا جا سکے۔

***

Click here to read this article in English.

Image 1: Pangong Tso Lake via Wikimedia Commons

Image 2: Chinese PLA via Flickr

Share this:  

Related articles

جنوبی ایشیا میں بائیڈن کے ورثہ کا جائزہ Hindi & Urdu

جنوبی ایشیا میں بائیڈن کے ورثہ کا جائزہ

ریاستہائے متحدہ امریکہ ، 20 ویں صدی کے وسط سے…

سی پیک کو بچانے کے لیے، پاکستان کی چین پالیسی میں اصلاح کی ضرورت ہے Hindi & Urdu

سی پیک کو بچانے کے لیے، پاکستان کی چین پالیسی میں اصلاح کی ضرورت ہے

پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف رواں ماہ کے اوائل میں صدر شی جن پنگ اور دیگر اعلیٰ چینی حکام سے ملاقاتوں کے بعد تقریباََ خالی ہاتھ وطن واپس پہنچ گئے ہیں۔ چین نے واضح انضباطِ اوقات ( ٹائم لائن) کے تحت پاکستان میں بڑے منصوبوں کے لئے سرمایہ کاری کا وعدہ نہیں کیا۔ اس […]

آبدوزیں بحرہند میں ہندوستان کی ابھرتی ہوئی قوت کی کلید ہیں Hindi & Urdu

آبدوزیں بحرہند میں ہندوستان کی ابھرتی ہوئی قوت کی کلید ہیں

شمال مغربی بحر ہند میں سمندری تجارت گزشتہ چھ ماہ…