Gwadar-Getty-Images

 پاکستان کے جنوب مغربی صوبہ بلوچستان اور بحیرہ عرب کے ساحلوں پر واقع گوادر بندرگاہ کی طویل عرصے سے علاقائی روابط کے ایسے مرکز کے طور پر تشہیر کی جاتی رہی ہے جو جنوبی ایشیا کی جغرافیائی سیاست میں متحرک کردار ادا کرے گا۔ پاک چین اقتصادی راہداری کے اہم ترین منصوبے کا مقصد پاکستان، افغانستان، وسطی ایشیا اور چین کو ایک بحری تجارتی گڑھ کی صورت میں گوادر کے ذریعے ملانا ہے۔ چائنہ اوورسیز پورٹس ہولڈنگ کمپنی پاکستان پرائیوٹ لمیٹڈ ۴۰ سالہ لیز کے منصوبے کے تحت اس کا انتظام دیکھتی ہے۔

علاقائی انضممام کا خواب گوادر کو ایک ایسا مرکز بناتا ہے جو جنوب، وسطی اور مشرقی ایشیا (بنیادی طور پر چین) کی معیشتوں کو منسلک کرتا ہے۔ تاہم، اس خواب کے ادراک کا مطلب نہ صرف گوادر کی بطور تجارتی گڑھ تعمیر ہے بلکہ بندرگاہ کو سڑکوں اور سفری نظام کے ذریعے خطے سے جوڑنا بھی ہے۔ اس میں بذریعہ موٹروے سندھ پنجاب، خیبرپختونخواہ (کے پی کے) سے گزرتے ہوئے پشاور تا کراچی سفر نیز سی پیک کا مغربی راستہ بھی شامل ہے جسے ”مختصر المدتی“ منصوبے کے طور پر ترتیب دیا گیا ہے اور جو ابھی زیرتعمیر ہے۔ تاہم سفر کا مرکزی راستہ بذریعہ موٹر وے پنجاب، اسلام آباد اور پھر پشاور سے ہی گزرنے  کا امکان ہے جو گوادر اور چین کے درمیان ایک تیز تر رابطہ قائم کرے گا۔ 

ملک میں تزویراتی اور سیاسی استحکام ناصرف گوادر منصوبے بلکہ خطے سے باہر موجود متعلقہ فریق جیسا کہ امریکہ کی حمایت یا پھر مشرق وسطیٰ سے سرمایہ کاری کے حصول کی پاکستان کی امیدوں کے لیے بھی انتہائی اہم ہے۔ معیشت کے اہم ترین سنگ میل کے طور پر گوادر کا خواب ۱۹۵۸ میں اومان سے اس کی خریداری سے شروع ہوتا ہے اور گوادر کی عوام جو یہاں کے ترقیاتی منصوبوں کی ایک اہم فریق ہے، تب سے یہاں سماجی و اقتصادی ترقی کی بیتابی سے منتظر ہے۔ لیکن جوں ہی ترقیاتی منصوبوں میں کئی درجوں پر مشتمل انتظامی ڈھانچہ  (مقامی، قومی اور چینی) متحرک ہوا، اس نے مقامی آبادی کے ذرائع معاش کو مزید ابتر بنا دیا۔ چونکہ رابطوں میں بہتری کے لیے سفر سے متعلقہ تمام منصوبے ان کے لیے کلیدی نوعیت رکھتے ہیں اور یہ وہ تصور ہے جو عوام کے عوام سے رابطوں پر بنیاد رکھتا ہے، ایسے میں متعلقہ گروہوں کے مفادات اور ذرائع معاش کی حفاظت بھی انتہائی اہم ہے۔

گوادر اور علاقائی رابطے کے خواب

گوادر سے شروع ہونے والے تجارتی راستوں کا مقصد خطے بھر میں رابطوں کے اہم ذرائع میں توسیع ہے۔ یہ تجارتی راستے گوادر کو ایک ممکنہ انٹرجنکشن بنا دیتے ہیں کیونکہ اندازہ ہے کہ بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آرآئی) افریقہ، یورپ اور ایشیا پر مبنی تین براعظموں کی ۳ بلین آبادی کو جوڑ سکے گا۔  سی پیک کے تحت گوادر کو خطے میں تجارتی شراکت داروں سے ملانے کے لیے مجوزہ ترسیلی نظام علاقائی سطح پر نیشنل ہائی وے اور موٹروے کے نظام میں ضم ہوتا ہے۔ گوکہ ان منصوبوں کو اکثر سی پیک رابطوں کے تحت یکجا کیا جاتا ہے، لیکن اس کے مالی اخراجات متعدد علاقائی اور دیگر علاقوں میں موجود تعلق داروں کی جانب سے اٹھائے گئے ہیں۔ ان میں امریکی ایجنسی برائے بین الاقوامی ترقی، جاپان انٹرنیشنل کوآپریشن ایجنسی، ایشین ڈویلپمنٹ بنک کے ساتھ ساتھ پاکستان سے تعلق رکھنے والے نجی بنکوں کی تعمیر شدہ سڑکیں شامل ہیں۔ یوں اس لائحہ عمل کے ذریعے، خطے اور اس سے باہر موجود اہم فریقوں کے مفادات ان منصوبوں کے لیے ایک بنیادی ضرورت یعنی خطے میں استحکام اور پورے خطے میں تجارتی روابط کے نکتے پر یکجا ہوگئے۔

وسطی ایشیا میں چاروں اطراف سے خشکی میں گھرے ہوئے شراکت داروں کے لیے گوادر ایک ایسے مرکز کی تصویر ہے جہاں زمینی اور سمندری تجارتی راستے آپس میں ملتے ہیں۔ مارچ ۲۰۲۱ میں پاکستان نے ازبکستان کے ہمراہ تجارت و سفر کے لائحہ عمل پر مبنی دوطرفہ معاہدے پر دستخط کیے ہیں جس میں گوادر اور کراچی میں واقع پاکستان کی بندرگاہوں تک رسائی بھی شامل ہے۔ یہ معاہدہ پاکستان کو وسطی ایشیا سے ملانے کیلئے ماضی میں کی گئی بات چیت کے نتیجے میں عمل میں آیا ہے۔  اس بات چیت کے دوران ۲۰۱۸ میں ازبکستان کی حکومت نے ترمذ سے براستہ افغانستان، پاکستان میں پشاور تک ایک ریل گاڑی چلانے کی تجویز بھی دی تھی۔ یہ سی پیک کی مین لائن ون ریلوے سے منسلک ہوگی۔ پاکستانی کمپنیاں ازبکستان کے فری اکنامک زونز میں سرمایہ کاری کا ارادہ بھی رکھتی ہیں جو انہیں ازبکستان کی اعلیٰ معیار کی روئی، قابل مزدور اور ۳۰۰ ملین نفوس پر مشتمل وسطی ایشیائی ریاستوں سے فری ٹریڈ سہولیات کے تحت تجارت کا موقع فراہم کرے گی۔ وسط ایشیائی ریاستوں سے رابطے قائم کرنے کے سلسلے کے طور پر چین اور پاکستان نے افغانستان کو بھی سی پیک کا حصہ بنانے کی تجویز دی ہے۔ پاکستان، سفری راہداری کے طور پر افغانستان کیلئے تجارت کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔ اس تجارتی سفر میں آمدورفت کے لیے دو مقام ہیں؛ ایک بلوچستان میں چمن بارڈر پر ہے اور دوسرا کے پی کے میں طورخم پر ہے۔

گوادر کی تزویراتی حیثیت کے سبب پاکستان اس حیثیت میں ہے کہ وہ موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے علاقائی رابطے کا مرکز بنے اور متعدد تزویراتی شراکت داروں کے ہمراہ رابطے قائم کرے۔ البتہ گوادر بندرگاہ اور اس کی صلاحیتوں کو بڑھانے کے لیے منصوبے کی تزویراتی، سیاسی، معاشی اور سماجی و ثقافتی جہتوں کی اندرونی پڑتال نیز یہ سوال پوچھنے کی ضرورت ہے کہ علاقائی و غیر علاقائی رابطہ اہداف کے ان عناصر پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔

زمینی حقائق

 چونکہ یہ خطہ مسلسل تزویراتی تبدیلی سے گزر رہا ہے، ایسے میں یہ سوال اٹھانا انتہائی اہم ہے کہ آیا گوادر بندرگاہ کا منصوبہ علاقائی روابط کے ضمن میں پاکستانی اہداف کو آسانی سے پورا کرسکتا ہے۔ گوادر جو بنیادی طور پر مچھیروں کا قصبہ ہے، بنیادی ضروریات بشمول پانی، بجلی، اور مناسب نکاسی کی ناکافی سہولیات کا سامنا کر رہا ہے جس نے رہائشیوں کو متصل علاقوں میں ہجرت کرنے پر مجبور کردیا ہے۔ گوادر کے ترقیاتی منصوبے ایک ایسا نقشہ پیش کرتے ہیں جو مقامی آبادی کو غیر کردیتا ہے۔ مقامی مچھیرے جو گوادر بندرگاہ کو مکران کوسٹل ہائی وے سے ملانے کے لیے ایکسپریس وے کی تعمیر کے سبب ساحلی پٹی کے ساتھ ساتھ مچھلی کی شکار گاہ کے بڑے حصے سے محروم ہوگئے ہیں، ان کی مستقل گزراوقات کے لیے مقامی آبادی نے احتجاجوں میں مطالبے کیے ہیں۔ گو کہ ان کی دوبارہ آبادکاری کے لیے مبینہ طور پر معاوضے کی پیشکش کی گئی ہے اور پاکستان اور چین نے مقامی آبادی کی زیادہ شمولیت کے لیے کوششیں کی ہیں تاہم ان منصوبوں اور لائحہ عمل کی بین الاقوامی نوعیت کی کوئی ضمانت فراہم نہیں کرتی ہے۔ اندرونی طور پر ہجرت اور نقل مکانی کا عمل محرومی پیدا کرسکتا ہے جو تنازعے کا باعث اورعلاقائی انضمام کے امکانات کو محدود بنا سکتا ہے۔ بلوچستان لبریشن آرمی کی جانب سے ۲۰۱۹ میں پرل کانٹینینٹل ہوٹل اور مارچ ۲۰۲۱ میں پاک بحریہ کی گاڑی پر ڈسٹرکٹ گوادر میں گنز کے مقام پر حملہ جس میں بحریہ کے ۲ جوان مارے گئے، بڑھتی ہوئی محرومی کا نتیجہ ہے۔

گوادر اور سی پیک کو مقامی سطح کے مسائل کی جانچ میں جن آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑا، افغانستان تک کے سفری راستے اور دیگر مقامات پر بھی انہیں پرکھنے کی ضرورت ہوگی۔ پاکستان اور افغانستان نے افغانستان پاکستان ٹرانزٹ ٹریڈ ایگریمنٹ (اے پی ٹی ٹی اے) کے دس سالہ معاہدے میں حال ہی میں تین ماہ کے لیے توسیع کی ہے کیونکہ  دونوں فریق باہمی اتفاق رائے ہونے تک اصل دستاویز کا دوبارہ جائزہ لینے میں مصروف ہیں۔ اس سے بذریعہ گوادر، پاکستان افغانستان تجارت کو تحفظ ملتا ہے کیونکہ اب اے پی ٹی ٹی اے کی معیاد ختم نہیں ہوگی جیسا کہ ۲۰۱۰ میں طے کیا گیا تھا۔ افغانستان کے لیے بذریعہ گوادر پہلا کارگو جولائی ۲۰۲۰ میں چمن روانہ کیا گیا تھا، اسی مہینے افغان انڈیا ٹریڈ ٹرانزٹ بھی اے پی ٹی ٹی اے کے تحت حکومت پاکستان کی جانب سے کھولا گیا تھا۔ بیجنگ جہاں سی پیک کی افغانستان تک توسیع میں دلچسپی رکھتا ہے وہیں تزویراتی اور سیاسی ابتری گوادر سے تجارتی سفر کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔

پاکستان، افغانستان اور دیگر وسط ایشیائی ممالک کے درمیان تجارتی نیٹ ورک کو قائم رکھنے کیلئے استحکام کی ضرورت ہے کیونکہ ماضی میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان سیاسی و تزویراتی تناؤ کے دور میں تجارتی راستے متاثر ہوئے تھے۔ مثال کے طور پر  طورخم بارڈر حال ہی میں کرونا وائرس کے مریضوں کی وجہ سے ”ہر قسم کی امیگریشن“ کے لیے بند رہا ہے۔ آمدورفت کے راستوں کی بندش سرحد کے دونوں جانب اقتصادی اور انسانی بحران کو جنم دیتی ہے۔ ۲۰۱۶ میں چمن بارڈر کے پار افغان افراد کی جانب  سے اپنے یوم آزادی کا جشن مناتے ہوئے پاکستانی پرچم کو نظرآتش کرنے کا نتیجہ چمن بارڈر کی بندش کی صورت میں ہوا تھا جہاں سے اوسطاً ۱۰۰۰۰ سے ۱۵۰۰۰ ہزار تاجر روزانہ گزرتے ہیں۔ یہ افغانستان کے جنوبی صوبہ قندھار میں انگور کی فصل کی کاشت کا وقت تھا۔ بندشوں کے سبب توڑے گئے انگور پاکستان برآمد نہیں کیے جا سکے تھے اور انہیں خشک کرکے کشمش میں تبدیل کرنا پڑا تھا۔ تجارت کے لیے سرحد پار جانے پر انحصار کرنے والے کسان وہ معاوضہ حاصل نہیں کر پائے تھے جس کی انہوں نے فصل کا بیچ بوتے ہوئے توقع کی تھی۔ یہ معاملہ اس جانب روشنی ڈالتا ہے کہ کیسے ایک واقعہ تجارت کی بندش اور سفری سرگرمیوں پر اثرانداز ہوتا ہے نیز بندرگاہ پر مال کی وجہ سے ٹریفک جام کا باعث ہوتا ہے جو بالآخرعلاقائی روابط کے ایجنڈے پر اثرانداز ہو سکتا ہے۔

 ازبکستان کے لیے مجوزہ راستہ جو براستہ افغانستان، گوادر سے ازبک سرزمین تک مئی ۲۰۲۱ میں فعال ہوچکا ہے، پاکستان کے صوبہ بلوچستان اور خیبرپختونخواہ سے گزرتا ہے۔ یہ وہ علاقے ہیں جہاں شناخت اور لسانیت کی بنیاد پر سیاست ہوتی ہے اور جہاں کے رہائیشیوں کو پاکستان کی مسلح افواج کی جانب سے کے پی کے میں دہشتگردی کیخلاف جنگ کی وجہ سے نقل مکانی کرنا پڑتی تھی۔ کے پی کے اور ضم شدہ قبائلی علاقوں کے پشتونوں کا اپنا ضابطہ اخلاق ہے جو پشتون ولی کے نام سے ایک باقاعدہ نظام کے تحت ہے۔ یہ خاص پشتون  پس منظر میں خود احتسابی کا حامل، روایتی اصولوں پر مبنی ہے اور قانون و ترقی کے لیے ایک باقاعدہ نظام فراہم کرتا ہے۔ ان علاقوں کے افراد جو ثقافتی، سماجی، سیاسی، انتظامی اور اقتصادی خودمختاری کی تاریخ رکھتے ہیں ریاستی عمل داری جو کہ ان کے سماج میں گہرائی تک اتر رہی ہے، اس کے بارے میں شبہات کا شکار ہوسکتے ہیں اور کسی بھی ایسے منصوبے میں اپنا حصہ مانگ سکتے ہیں جس میں ان کی زمینیں استعمال ہوئی ہوں۔

پشتون ولی کے سائے تلے پروان چڑھنے والے نسلی ثقافتی تعلقات جو طورخم کے اطراف میں پھیلے ہوئے ہیں سرحد کے دونوں جانب تجارت اور عوام کے عوام سے رابطوں پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ شنواری قبیلے کی مثال اس کیفیت کو بیان کر سکتی ہے۔ شنواری پاکستان افغانستان کے سرحدی علاقوں میں رہتے ہیں اور صدیوں سے ان کے خاندان یہاں بسے ہوئے ہیں۔ پاکستان اور افغانستان میں ان کی باآسانی آمدورفت کے لیے پاکستان کی حکومت نے انہیں قومی شناختی نمبر دے رکھے ہیں (قبل ازیں یہ راہداری کارڈ کہلاتے تھے)  تاکہ خاندانی میل ملاپ میں تعطل نہ پیدا ہو۔ یہ مثالیں سرحدوں کی بندش کے کسی بھی واقعے کی صورت میں میل جول میں رکاوٹ کو بیان کرتی ہیں جو کہ سیاسی تناؤ کی صورت میں متاثر ہوتے ہیں۔ ایسی غیرمحفوظ سرحدوں پر سلامتی سے جڑی آزمائشیں بھی ہوتی ہیں جیسا کہ غیرقانونی تجارت اور منشیات کی اسمگلنگ کے واقعات بھی ہوچکے ہیں۔ اگر اس خطے میں سرحد کے دونوں جانب عوام کے عوام سے رابطوں کو محفوظ نہ بنایا گیا تو ایسے میں علاقائی رابطوں کو ٹھوس شکل دینے کیلئے تعمیر کیے گئے انفرااسٹرکچر کی کوئی حیثیت نہ ہوگی۔ 

مستقبل کی راہ

گوادر کے ذریعے علاقائی رابطوں کے اس ایجنڈے کی تکمیل کی راہ میں اندرونی اور بیرونی رکاوٹیں حائل ہیں۔ بلوچستان سیاسی، سماجی اور معاشی اعتبار سے پاکستان کا سب سے زیادہ غیرمستحکم صوبہ ہے۔ بیرونی سطح پر افغانستان سے امریکی انخلا خطے کے تزویراتی استحکام اور سیاسی تسلسل کے لیے خطرہ بن رہا ہے کیونکہ طالبان بےدھڑک حملوں کی دھمکی دے رہے ہیں جو کہ خطے کے تعلقات میں کشیدگی، سفر کی معطلی، سرحدوں کی بندش کا باعث ہوگا اور شہریوں کی زندگی پر اثرانداز ہوگا۔ سی پیک کے تحت سڑکوں کا جال گوادر سے چین تک ہوگا اور کے پی کے ذریعے گزرے گا تاہم خطے میں تزویراتی یا سیاسی عدم استحکام سے گوادر کی کارکردگی متاثر ہونے کا امکان ہے۔ اگر پالیسی سازی کے عمل میں جغرافیائی سیاسی اہداف سے نمٹنے کے ساتھ ساتھ سماجی ثقافتی حقائق کو بھی مدنظر رکھا جائے تو ایسے میں یہ بندرگاہ گہرے علاقائی روابط کے لیے کامیابی سے کام کرسکتی ہے۔ اس کے لیے اوپر سے نچلی سطح کے بجائے نچلی سے اوپری سطح پر مبنی سوچ جو سماجی ثقافتی حرکیات کومدنظر رکھتی ہے، اسے اپنایا جاسکتا ہے۔ وسطی ایشیا میں پاکستان گہرے دوطرفہ تعلقات قائم کرنے میں مصروف ہے، ایسے میں افغانستان اور ازبکستان کے ہمراہ زیادہ لچکدار سرحدی انتظامات کے ذریعے انہیں مزید بہتر بنایا جاسکتا ہے تاکہ عوام کے عوام سے رابطے قائم کیے جا سکیں۔

 علاقائی روابط کو مزید گہرا بنانے کے لیے فری ٹریڈ ایریا ایک اور اہم قدم ہوسکتا ہے۔ ان فری ٹریڈ ایریاز کے ذریعے علاقائی روابط کو مزید وسعت بھی دی جا سکتی ہے نیز علاقائی تنازعوں کے موثر حل کے لیے کثیرالفریقی فورمز جیسا کہ شنگھائی تعاون تنظیم، سارک یا پھر اسلامی تعاون تنظیم کے ہمراہ  بھی کام کیا جاسکتا ہے کیونکہ علاقائی تنازعے جیسا کہ پاک بھارت رقابت اہم رکاوٹیں ہیں۔ اگر رابطے کے لیے پیش رفتیں رقابت کی جگہ اقتصادی انضمام کا نکتہ بن جائیں تو ایسے میں ان رقابتوں سے نمٹا جاسکتا ہے۔

***

Click here to read this article in English.

Image 1: Asim Hafeez/Bloomberg via Getty Images

Image 2: Asim Hafeez/Bloomberg via Getty Images

Share this:  

Related articles