com_media_-7.v2-1600×900

رواں ماہ آسیان کے ۵۳ویں یوم تاسیس کے موقع پر پاکستان کے وزیرخارجہ نے پاکستان کی ”ویژن ایسٹ ایشیا پالیسی“ کے مطابق آسیان ممالک کے ہمراہ تعلقات کومزید مضبوط بنانے کی تائید کی۔ ایک ایسے وقت میں کہ جب اسلام آباد معاشی سفارت کاری پر عمل درآمد کی نیت کرچکا ہے، مشرقی اور جنوب مشرقی ایشیا کے ممالک سے کثیرالجہتی روابط پر مبنی مذکورہ پالیسی کی دوبارہ بحالی پاکستان کیلئے بہترین جواء ہے۔ اس پالیسی کا ابتداً ۲۰۰۳ میں اعلان کیا گیا تھا تاہم داخلی سطح پر درپیش سیکیورٹی چیلنجز کی وجہ سے یہ متاثر ہوئی تھی۔ اس پالیسی کو از سر نو اپنانے کا یہ عمل پاکستان کیلئے مشرقی اور جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کے ہمراہ اہم معاشی مواقع حاصل کرنے کا امکان پیدا کرتا ہے۔

اگر معاشی شراکت داروں میں اضافے کو معیار مانا جائے تو اس کیلئے مشرق کی جانب دیکھنا پاکستان کیلئے ناگزیر ہے۔ موجودہ حکومت نے سال رواں کے ابتداء میں جنوبی کوریا، سنگاپور، جاپان اور ملائیشیا کے ہمراہ دو طرفہ معاشی تعاون قائم کرنے کی خواہش ظاہر کی تھی نیز آسیان کے ہمراہ اپنے محدود کردار کو وسیع کرتے ہوئے اس کی مکمل شراکت داری میں دلچسپی ظاہر کی تھی۔ مشرقی اور جنوب مشرقی ایشیاء کے ہمراہ معاشی اور تزویراتی تعلقات میں وسعت سے غیرملکی سرمایہ کاری کی توجہ حاصل کی جاسکتی ہے، نوکریوں کے مواقع بڑھ سکتے ہیں، برآمدات میں اضافے کے ذریعے تجارتی توازن کو بہتر بنایا جاسکتا ہے نیز پاکستان کے معاشی قد اور علاقائی روابط کو بہتر بنایا جاسکتا ہے۔

پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) نے پاکستان کیلئے علاقائی انضمام اور معاشی پیداوار کیلئے راستے کھول دیئے ہیں۔ اگرچہ تزویراتی روابط پر سی پیک کے اثرات کو بنیادی طور پر چین کی بحرہند تک رسائی کے نقطہ نگاہ سے سمجھا گیا ہے تاہم مشرق میں موجود ممالک کے پاکستان سے روابط کو بہتر بنانے کی اس کی صلاحیت پر زیادہ غور نہیں کیا گیا۔ گوکہ جہاں سی پیک مشرق میں پاکستانی برآمدات میں اضافے اور سرمایہ کاری لانے میں مدد دے سکتا ہے وہیں پاکستان-چین-بھارت کے درمیان تعلقات کی نوعیت نے مشرق اور جنوب مشرقی ایشیا کے متعدد ممالک کے ہمراہ اسلام آباد کے روابط کو محدود کیا ہے۔ ان رکاوٹوں کے باوجود، پاکستان کو اپنے مشرق میں موجود ممالک کے ساتھ نپے تلے روابط برقرار رکھنے چاہئیں اور اس امر کو یقینی بنانا چاہئے کہ جغرافیائی سیاست ممکنہ معاشی مفادات کی راہ میں رکاوٹ نہ بنے۔

معاشی مواقعوں میں وسعت: آسیان اور مشرقی ممالک سے تجارتی تعلقات

مشرقی ایشیا سے معاشی تعاون کی مضبوطی اسلام آباد کو نوکریوں کے مواقع یقینی بنانے اور تجارت میں اضافے میں مدد دیتی ہے۔ مثال کے طور پر گزشتہ برس ”مخصوص ہنرمند افراد“ کیلئے جاپان کے ہمراہ تعاون کی یادداشت پر دستخط سے جاپان میں پاکستانیوں کیلئے کام کرنے کے مواقع میں اضافہ ہوا ہے۔ اگرچہ جاپان کیلئے پاکستانی برآمدات میں گزشتہ برس سے مقابلتاً نمایاں کمی آئی ہے تاہم اگر یہ نکتہ یاد رکھا جائے کہ تجارتی مصنوعات محض طلب کی بنیاد پر برآمد کی جاتی ہیں، تو ایسے میں پاکستان برآمدی مصنوعات کی اقسام میں اضافے اور مسلسل تجارتی رجحانات کی پرکھ کے ذریعے جاپانی منڈیوں میں زیادہ بہتر رسائی حاصل کرسکتا ہے۔ اسی طرح جیسا کہ جنوبی کوریا پاکستان کو ”ترجیحی شراکت دار“ کا درجہ دے چکا ہے، ایسے میں اسکے ساتھ فری ٹریڈ کے معاہدے (ایف ٹی اے) پر دستخط کے ذریعے معاملات کو آگے بڑھانے کی صورت میں کوریا نان ٹیرف رکاوٹوں کے مسئلے سے نمٹنے اور زرعی مصنوعات کیلئے خصوصی ٹیرف کے ذریعے ان رکاوٹوں کو دور کرسکتا ہے جو اس کی منڈیوں تک پاکستانی رسائی کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔

جنوبی ایشیائی ریاستوں کے ہمراہ بھی ایسے معاشی مواقع موجود ہیں جن پر ابھی تک غور نہیں کیا گیا۔ محض یہاں تجارت کیلئے ہی بے حد ٹھوس امکانات موجود ہیں۔ ملائیشیا پاکستان کے چوٹی کے تجارتی شراکت داروں میں سرفہرست ہے، دونوں ممالک کے درمیان تجارتی حجم ۲ بلین ڈالر کے لگ بھگ ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان فقط ۲۰۰۸ کے ایف ٹی اے کے تحت ہی پاکستانی تجارتی حجم تخمینے کے مطابق اس کا دوگنا یعنی ۴.۶  بلین ڈالر ہوسکتا ہے۔ اس ممکنہ استعداد کے ادراک کیلئے ضروری ہے کہ اسلام آباد اپنے تجارتی توازن کو جنوبی ایشیائی ریاستوں کے  مطابق سود مند بنائے۔ اس کیلئے اسے ایسے ممالک کی جانب برآمدات میں اضافہ کرنا چاہئے جو درآمدات کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو نرم کرتی ہیں جیسا کہ انڈونیشیا جس نے گزشتہ برس پاکستان کی ۲۰ برآمدی مصنوعات پر محصول میں ۳۰ فیصد کمی کی تھی۔ پاکستان اپنی ان برآمدات سے بھی فائدہ اٹھا سکتا ہے جنہیں برونائی، کمبوڈیا، تھائی لینڈ اور آسٹریلیا کی منڈیوں میں ترجیح ملتی رہی ہے۔ ان برآمداتی اشیا میں بالعموم کپاس اور ٹیکسٹائل مصنوعات شامل ہیں۔ جنوب مشرقی ایشیا میں پاکستانی اسلحے کیلئے بھی مانگ موجود ہے، اس کا ثبوت ملائیشیا کی اسلام آباد سے جے ایف ۱۷ تھنڈر لڑاکا طیارے اور ٹینک شکن میزائل کی خریداری میں دلچسپی ہے۔

آسیان ریاستوں میں بھی پاکستان سے تعلقات پیدا کرنے کیلئے دلچسپی دکھائی دیتی ہے۔ تھائی لینڈ، پاکستان کو سمندری خوراک اور خام مال برآمد کرنے والا اہم ملک گردانتا ہے، اسی لئے دونوں ممالک آزاد تجارت کے معاہدے پر بات چیت کر رہے ہیں۔ مزید براں تھائی کارخانے بھی پاکستان کو اہم تجارتی شراکت دار تصور کرتے ہوئے ملک میں سرمایہ کاری کے مواقع ڈھونڈ رہے ہیں۔ اسی طرح پاکستان کی آٹومیٹو مارکیٹ کی طاقت کا اعتراف کرتے ہوئے ملائیشیا کی آٹومیٹو کمپنی پروٹون اپنا پہلا جنوبی ایشیائی کارخانہ کراچی میں ۲۰۲۱ تک  کھولے گی۔

 کیا سی پیک مشرق تک رسائی میں پاکستان کی مدد کرسکتا ہے؟

 جہاں سی پیک بحرہند میں چین کے داخلی راستے کے طور پر دیکھا جاتا ہے، وہیں یہ مشرق اور جنوب مشرقی ایشیا میں پاکستان کی رسائی کیلئے بھی مواقع پیش کرسکتا ہے۔ اس حوالے سے سی پیک کے دو منصوبے کردار ادا کرسکتے ہیں: زمینی روابط اور سپیشل اکنامک زونز (ایس ای زیڈ)۔

 اولاً، اگر پاکستان کو چینی بندرگاہوں کے ذریعے تجارت کی اجازت مل جائے تو ایسے میں چھوٹے زمینی تجارتی راستے کی وجہ سے سفری اوقات میں کمی اور کم اخراجات کی بدولت پاکستان کی ایشین ٹائیگرز کی منڈیوں تک رسائی میں اضافہ ہوگا۔ چین نیپال کو اپنی کچھ بندرگاہوں تک رسائی کی اجازت دے چکا ہے، پاکستان کے ساتھ بھی اس سے ملتا جلتا معاہدہ کیا جاسکتا ہے۔ جس طرح پاکستان کی گوادر بندرگاہ نے چین کی مغرب تک رسائی میں اضافہ کیا ہے، اسی طرح شمال مغربی چینی بندرگاہیں مثلاً کنگ ڈاؤ پورٹ پاکستان کیلئے شمال مشرقی ایشیا تک رسائی میں مددگار ہوسکتی ہے۔ مثال کے طور پر پاکستانی برآمدات کراچی سے بذریعہ سمندر جنوبی کوریا کے پورٹ بوسن تک بیس دن میں پہنچتی ہیں تاہم یہ بذریعہ زمینی سفر تیرہ دن میں پہنچ سکتی ہیں۔

دوئم، سی پیک کے تحت جو سپیشل اکنامک زون (ایس ای زیڈ) پاکستان تعمیر کررہا ہے وہ غیر ملکی سرمایہ کاری کیلئے بے حد اہم ہیں۔ مثلاً پاکستان نے سنگاپور کو سرمایہ کاری کی دعوت دیتے ہوئے ایس ای زیڈ کے تحت ٹیکسوں میں چھوٹ اور دیگر خصوصی مراعات کا تذکرہ کیا تھا۔ اہم امر یہ ہے کہ خود سنگاپور کی کمپنیز نے سی پیک میں سرمایہ کاری میں دلچسپی ظاہر کی۔ اسی طرح گزشتہ برس پاکستان نے بہتر تجارتی طریقہ کار کا حوالہ دیتے ہوئے سی پیک کے حصے کے طور پر کوریا کی کمپنیوں کیلئے خصوصی اکنامک زون تعمیر کرنے کی تجویز پیش کی تھی جس پر کوریائی کمپنیوں نے دلچسپی ظاہر کی تھی۔ اس معاملے پر اگرچہ قابل ذکر پیش رفت نہیں ہوسکی تاہم سی پیک پر از سرنو توجہ اور سی پیک کے دوسرے دور کے تحت جاری پیش رفت جس میں ایس ای زیڈز پر خصوصی توجہ دی جارہی ہے، مستقبل میں سرمایہ کاری حاصل کرنے کے مزید مواقع پیدا ہوسکتے ہیں۔

 پاکستان کی ویژن ایسٹ ایشیا پالیسی کی حدود

 مشرقی ایشیا میں پاکستانی روابط خطے میں جاری تنہا سرگرمی نہیں بلکہ یہ سرگرمی مقابلے کی فضا میں جاری ہے۔ ایشیا پیسیفک، اپنے معاشی مفادات کی نگہبانی کی خواہاں بہت سی ریاستوں کے مابین مقابلے کیلئے ایک تزویراتی اکھاڑا بنا ہوا ہے۔ لہذا پاکستان کے چین سے قریبی اور بھارت سے زوال پذیر تعلقات جنوب مشرقی اور مشرقی ایشیا میں اس کے روابط کی راہ میں رکاوٹ بن سکتے ہیں۔

کم سے کم جاپان کے فری اینڈ اوپن انڈو پیسیفک (ایف اوآئی پی) کے تصور کا خطے میں چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو بی آر آئی) کے مقابلے پر ہونا کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ اس تصور میں امریکہ اور دیگر علاقائی اتحادی اس کے ہم خیال ہیں۔  بی آر آئی کے تحت اہم ترین منصوبے سی پیک کا میزبان ہونے کے ناطے پاکستان، جاپان کے ہمراہ تعلقات کو وسعت دینے میں کشمکش کا شکار ہے۔ بہرآخر اسلام آباد بیجنگ میں خدشات کو جنم نہیں دینا چاہے گا کیونکہ ان کا تزویراتی اتحاد سی پیک سے بالاتر ہے۔ جاپان بھی کواڈ کے ذریعے بھارت کے ہمراہ تزویراتی تعلقات کی بدولت پاکستان سے تعلقات کو محدود کرچکا ہے جس کا مظہر اس کی جانب سے پاکستانی پشت پناہی میں دہشت گردی پر مبنی بھارتی موقف کی حمایت ہے۔ اسی کا کھلم کھلا مظہر، گزشتہ برس بھارتی وزیردفاع راج ناتھ کی جانب سے  جنوبی کوریا کو سی پیک میں سرمایہ کاری نہ کرنے پر ”زور“ دینا تھا۔

اسی طرح پاکستان کے جنوب مشرقی ایشیائی ریاستوں کے ساتھ تعلقات جغرافیائی سیاست کے بوجھ تلے دبے ہیں۔ جیسے جیسے بیجنگ ،بحیرہ جنوبی چین (ایس سی ایس) میں اثرورسوخ بڑھا رہا ہے، ساحلی  خطوں میں واقع ریاستوں کو علاقائی اور سمندری حدود کے حوالے سے چین سے بڑھتے ہوئے تنازعات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ پیچیدہ جغرافیائی سیاست کو دیکھتے ہوئے اسلام آباد کا چین اور ایس سی ایس کے بارے میں چینی موقف کی جانب جھکاؤ، جنوب مشرقی ایشیا میں اس کے تعلقات میں وسعت کی راہ میں رکاوٹ ڈال سکتا ہے۔ خاص کر ویتنام اور انڈونیشیا جیسے ممالک جو کہ بیجنگ کی سمندری پوزیشن کے خلاف زیادہ غیر لچک دار موقف رکھتے ہیں۔ اسی طرح  جیسا کہ بھارت کی ”ایکٹ ایسٹ“ پالیسی سے ظاہر ہوتا ہے، بھارت بھی جنوب مشرقی ریاستوں کو اہم تجارتی شراکت دار کے طور پر دیکھتا ہے اور مزید یہ کہ آسیان میں پاکستان کی مکمل رکنیت کے حق میں نہیں ہے۔ پاکستان کی وزارت تجارت و ٹیکسٹائل نے  پاکستان کی تنظیم میں شمولیت میں سنگاپور کی جانب سے رکاوٹ کو بھارتی اثرورسوخ کا نتیجہ قرار دیا تھا۔

ویژن ایسٹ کی بحالی

رکاوٹوں کی موجودگی کے باوجود، پاکستان کو  وسیع تر تجارت اور سرمایہ کاری کے امکانات کی بنیاد پر مشرق سے اپنے  معاشی روابط میں اضافے کیلئے کوشش کرنی چاہئے۔ ایشیا پیسیفک کی ریاستیں جس انداز میں چین کے ساتھ روابط رکھتی ہیں، غالباً اس میں پاکستان کیلئے سبق موجود ہے: ایس سی ایس میں تناؤ کے باوجود آسیان کی چین سے تجارت کا حجم ۶۴۴ بلین ڈالر ہے۔ اسی طرح جہاں آسٹریلیا نے بھارت کے ہمراہ دفاعی معاہدے پر دستخط کئے ہیں وہیں مارچ کے دوران اس کے چین کے ہمراہ تجارتی سرپلس میں ۱۷۴ فیصد اضافہ ہوا ہے۔ جس طرح ان ممالک نے چین کے ہمراہ براہ راست تنازعوں کے باوجود روابط کی راہیں ڈھونڈ نکالی ہیں، اسی طرح پاکستان کو بھی جنوب مشرقی منڈیوں تک رسائی کی راہیں ڈھونڈنا ہوں گی۔ اسلام آباد کی جانب سے تخلیقی سفارت کاری پر عمل درآمد اسے علاقائی تنازعات میں اپنے کردار کو موثر بنانے میں مدد دے سکتا ہے۔ مثال کے طور پر پاکستان، مسئلہ ہرمز کے سبب آبنائے سے توانائی کی محفوظ فراہمی کے حوالے سے جاپان کو لاحق خدشات سے نمٹنے میں مدد دے سکتا ہے نیز مشرق وسطیٰ میں ٹوکیو کی مصالحتی کوشش میں پاکستان کی معاونت جاپان سے تعلقات کو فروغ دینے میں اس کیلئے مفید ہوسکتی ہے۔ اسی طرح جنوب مشرقی ایشیا سے تعلقات کو فروغ دینے سے اسلام آباد کے معاشی وجود اور خطے میں سیاسی اثرورسوخ میں اضافہ ہوگا جو آخرکار اس کی علاقائی روابط کی کوششوں میں مدد دے گا۔ 

ایس سی ایس میں شدت اختیار کرتی ہلچل اور جنوبی ایشیا میں بالعموم بڑھتے چین بھارت مقابلے کو سمجھتے ہوئے پاکستان کو آخرکار معاشی روابط کو اپنی تخلیقی سفارت کاری کے ساتھ جوڑنا پڑے گا۔ شائد معاشی محرک کی بنیاد پر قائم خارجہ پالیسی اسلام آباد کو آزمائشوں کے باوجود بھی اپنی ویژن ایسٹ ایشیا پالیسی کو دوبارہ زندہ کرنے کے قابل بنا سکے۔

***

.Click here to read this article in English

Image 1: Prime Ministers Office, Pakistan via Twitter

Image 2: MANAN VATSYAYANA/AFP via Getty Images

Share this:  

Related articles

کواڈ کو انڈو پیسیفک میں جوہری خطروں سے نمٹنا ہو گا Hindi & Urdu

کواڈ کو انڈو پیسیفک میں جوہری خطروں سے نمٹنا ہو گا

کواڈ کے نام سے معروف چار فریقی سیکیورٹی ڈائیلاگ کے…

بھارت اور امریکہ کی دفاعی شراکت داری  کے لئے رکاوٹیں اور مواقع  Hindi & Urdu

بھارت اور امریکہ کی دفاعی شراکت داری  کے لئے رکاوٹیں اور مواقع 


سرد جنگ کے دوران جغرافیائی سیاسی نقطہ نظر میں اختلافات…

پلوامہ – بالاکوٹ پانچ برس بعد جائزہ Hindi & Urdu

پلوامہ – بالاکوٹ پانچ برس بعد جائزہ

لمحۂ موجود میں پاکستان، بھارت کے تزویراتی بیانیے سے تقریباً…