بین الاقوامی بڑی طاقتیں بحرِ ہند میں تزویراتی برتری حاصل کرنے کےلئے کئی سالوں سے جوہری آبدوزیں بھیج رہی ہیں۔ حال ہی میں بحرِ ہند نے جوہری بن جانے کی تازہ لہر دیکھی ہے جس کا آغاز بھارت نے کیا ہے اور جس سے علاقائی عدم استحکام میں اضافہ ہو گا چونکہ اب یہ علاقہ ملحقہ ریاستوں کے بیچ جیو پولیٹیکل اور عسکری مقابلے کا مرکز بن گیا ہے۔ اب چونکہ اس صورتحال کو عالمی توجہ حاصل ہوئی ہے تو موضوعِ بحث پاکستان کا سمندری جوہری ڈیٹرنس بن گیا ہے جبکہ بھارت کی طرف سے سمندر کےلئے جوہری ہتھیاروں کی تیاری اور انکی تعیناتیـــــ جسکی وجہ سے علاقے میں جوہری دشمنی نے جنم لیاــــ کو کوئی نہیں دیکھ رہا۔ نئی دہلی کا جوہری ہتھیاروں سے لیس آبدوزوں کےمنصوبے کو چین کے مقابلے میں قابلِ اعتماد زیرِ سمندر ڈیٹرنس کے طور پر دیکھا جاتا ہے لیکن پاکستان اور بھارت کے بیچ اس ڈیٹرنس کونظر اندازکیا جاتا ہے۔ جنوبی ایشیا میں ڈیٹرنس کی پہلے سے نازک صورتحال کے پیشِ نظر یہ ضروری ہے کہ بھارت کےبحری جوہری منصوبے کو پرکھا جائے کہ وہ کیسے علاقائی کشیدگی کا باعث بنتا ہے بالخصوص جب اسکو پاکستان کے تناظر میں دیکھا جاتا ہے تو۔
بھارتی بحری جوہری اقدامات؛
بھارت کی طرف سے اپنی نیوی کو جوہری ہتھیاروں سے لیس کرنے کی کوشش ۱۹۸۵ سے جاری ہے جب اس نے ۹۰ میگاواٹ جوہری ری ایکٹر پر کام شروع کیا۔ ۱۹۸۸ میں بھارت نے روس سے چارلی–کلاس جوہری آبدوز لیز پر حاصل کی۔ اس ڈیزائن کی بنیاد پر بھارت ۱۹۸۴ میں ایڈوانس ٹیکنالوجی وہیکل پروگرام کا آغاز کرنے کے قابل ہو گیا ۔ اور پھر اس ٹیکنالوجی سے بھارت نے ملکی ساختہ جوہری بیلسٹک جوہری آبدوز (ایس– ایس– بی– این) “آئی این ایس اری ہانت” بنا لی۔جنوبی ایشیائی بحری معاملات سے متعلقہ سکالر اسکندر رحمان کے مطابق ” بھارت اپنے بحری جوہری منصوبوں کا جواز یہ دیتا ہے یقینی سیکنڈ سٹرائیک کیپبلٹی کو سمندری ڈیٹرنس کے ذریعے موثر بنا سکتا ہے“۔
“آئی این ایس اری ہانت” کو ۱۲عدد K-15 سگاریکا (۷۵۰ کلومیٹر مار کی حامل) بیلسٹک میزائل آبدوزوں (ایس–ایل–بی–ایم) میں نصب کیا جا سکتا ہے۔ بھارت نے K-4 ایس–ایل–بی–ایم (۳۵۰۰ کلومیٹر مار کی حامل) کو ۶ نئی ایس– ایس– بی– این بیڑے کےلئے ترویج دی ہے ۔ بھارت کا یہ بی منصوبہ ہے کہ K-5 اور K-6 کو زیادہ مار اور ملٹیپل انڈیپنڈنٹ ری اینٹری وہیکل (مرو) کی صلاحیت کے ساتھ بنایا جائے۔ بھارت بحری صلاحیت کا کروز میزائل ”نیربھے“ ( ۱۰۰۰ کلومیٹر مار کا حامل) کی تیاری بھی کرتا چلا آ رہا ہے۔ مزید برآں دھنوش میزائل (۳۵۰ کلومیٹر مار کا حامل) کی تیاری کے ارادوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ بھارت جوہری میزائلوں کو سمندری جہازوں پر تعینات کرنے جا رہا ہے۔
بھارت اگلے چند سالوں میں ایس– ایس– بی– این آبدوزوں کا بیڑہ تیا ر کرنا چاہتا ہے جو جنگی ہتھیاروں کی مزید پیداوار کا متقاضی ہو گا ۔ اس سے خطے میں ہتھیاروں کی دوڑ شروع ہو سکتی ہے کیونکہ پاکستان ان اقدامات کا جواب دینے کی کوشش کرے گا۔ اس ساری صورتحال سے نئی دہلی کے کم سے کم جوہری ہتھیاروں کے دعوے پر بھی سوالات اٹھیں گے۔
جوہری پھیلاؤ پر اثرات:
جیسے ہی بھارت اپنے ڈلیوری سسٹم کو تیزی سے ترقی دے رہا ہے اور بحری جوہری ڈیٹرنس میں بھی ترقی لا رہا ہے تو اس سے واضح ہو رہاہے کہ آبدوزوں کو لیس کرنے کےلئے مستقبل میں بھارت درجنوں جوہری ہتھیار تیار کرے گا۔ اس عمل سے فیسائل مواد کی پیداواری صلاحیت میں اضافہ ناگزیر ہو جائے گا اور جوہری فورس کے حجم میں اضافے کےلئے بھارت کو فیسائل مواد کے ذخیرے اور اسے تیزی سے پیداوار لینے کی ضرورت پڑے گی۔ اس وجہ سے بھارت نے اپنے ۸ جوہری ری ایکٹرز کو انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی (آئی–اے–ای–اے) کے حفاظتی حصار سے باہر رکھا ہوا ہے۔ اسکے علاوہ بھی بھارت یورینیم افزودگی کو بڑھا رہا ہے تاکہ یورینیم کی اعلیٰ افزودگی بروقت ملنے پر بحری منصوبوں کی ضروریات کو پورا کیا جا سکے اور شائد اس لئے بھی کہ بھارت پاکستان کے ساتھ جوہری تجربات پر عارضی تھماؤ کےلئے دو طرفہ معاہدہ نہیں کرنا چاہتا۔ مزید برآں محققین کا کہنا ہے کہ “بھارت کا یورینیم افزودگی کا جو بھی ذخیرہ ہے اور جو ابھی ہتھیاروں کےلئے نہیں ہے ، اسے تھوڑے وقت میں مزید افزودہ کر کے ہتھیاروں کےاستعمال کی سطح تک لایا جا سکتا ہے“۔
ایس– ایس– بی– این کے آنے والے بیڑے کے ساتھ ساتھ بھارت ملک میں چھ ایس–ایس–این آبدوزیں اور جوہری طاقت سے چلنے والے ”ایر کرافٹ کیریر“ بھی بنانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ چینی اور فرانسیسی آبدوزوں کے برخلاف بھارت ان ملکوں میں سے ہے جو ایچ–ای–یو (highly enriched uranium) کا ۴۰–۶۰ فیصد استعمال کرکے جوہری ری ایکٹرز کو آگے بڑھاتے ہیں۔ ایچ–ای–یو (highly enriched uranium) کے ذخائر سے متعلق عالمی خدشات کے باوجود اسے تیزی سے جوہری ہتھیاروں کےاستعمال میں لایا جا سکتا ہے اور بھارت پہلے سے ہی ایچ–ای–یو (highly enriched uranium) کا استعمال بحری مقاصد کےلئے کرتا ہے۔
استحکام سے متعلق خدشات:
بھارتی اقدامات اور اسکی جوہری بحری محرکات اس بات کی غماز ہیں کہ پاکستان نے سمندر سے سیکنڈ سٹرائیک کیپبلٹی کو بھارتی اقدامات کے جواب میں تشکیل دیا ہے اور پاکستان کا یہ عمل عدم استحکام کا باعث نہیں ہے۔ بحرِ ہند کو جوہری ہتھیاروں سے پاک رکھنے کی تجویز، جسے علاقائی ریاستوں جیسے سری لنکا نے سپورٹ بھی کیا، کے باوجود بھارت نے وہاں پر اپنے اقدامات سے جوہری دشمنی کی بنیاد رکھی ہے۔ نئی دہلی کے بحری نیوکلیرائیزیشن کے فیصلے سے علاقائی تزویراتی متوازن بھارت کے حق میں موڑا جا سکتا ہے اور اس عمل سے پاکستان بھی ایسا ہی کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ پاکستانی عہدیداران اپنی بحری سڑیٹیجک فورس کمانڈ جسے ۲۰۱۲ میں بنایا گیا تھا، کا حوالہ دیتے ہیں لیکن اس راہ پر بھارت دو عشرے قبل ہی چل چکا تھا۔
جوں جوں بھارت، پاکستان اور چین کے بیچ زیرِ سمندر جوہری مقابلہ بڑھ رہا ہے ویسے ہی خطے کی سکیورٹی کو ان گنت چیلنجز سامنے آ رہے ہیں۔ پاکستان اور بھارت کی جغرافیائی قربت اور بھارت کی آبنائے ہرمز تک رسائی کی خواہش سے دونوں ملکوں کے بیچ متواتر بحری ٹاکرے ناگزیر ہوں گے۔ کشیدگی کی صورت میں ــــ جیسا کہ ماضی میں بھارتی ” آئی–این–ایس گوداوری” اور ” پی–این–ایس بابر” کاٹکراؤ ہوا تھا ــــ سے تنازعہ جنم لے سکتا ہے۔ مزید برآں بحری طیاروں اور جہازوں کے ارادوں کے تعین میں مشکل بھی کشیدگی کے امکانات بڑھاتی ہے۔ اور اس میں شدت بھارت کی طرف دور سمندر میں سے کم مار کے بیلسٹک میزائل دھنوش کا تجربہ لاتا ہے۔
تنازعہ بڑھنے کی ایک اور وجہ دونوں ملکوں کی بحریہ کے بیچ مواصلاتی رابطہ نہ ہونا ہے۔ تنازعہ کی صورت میں بھارت ایس–ایس–بی–این کو پاکستانی ساحل کے قریب تعینات کرکے K-15 میزائلوں سے ٹارگٹ کر سکتا ہے جس سے یقیناً کشیدگی میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ پاکستان کے اینٹی–سب میرین–وار فئیر (اے–ایس–ڈبلیو) آپریشنز جن میں ATR-72 طیاروں کی صلاحیت موجود ہے ـــــبھارتی جونئیر کمانڈروں کی “استعال کرو یا ہار جاؤ“ جیسی دوہری مشکل ( use-it or lose-it dilemma ) کو اکساتے ہوئے پہلے حملے کی خواہش کو ہوا دے سکتی ہے۔ یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ یہ تمام معاملات بھارت کی طرف سے ممکنہ ‘پہلے حملہ نہ کرنے‘ کے جوہری ڈاکٹرائن کی موجودگی میں پنپ رہے ہیں جس سے بھارت کی کمانڈ اور کنٹرول کے نظام پر سوال اٹھتا ہے۔
بھارت اس وقت بحریہ کےلئے مکمل طور پر قابلِ اعتماد مواصلاتی نظام نہیں رکھتا ہے جیسا کہ بھارتی بحریہ کے وائس ایڈمرل (ریٹائرڈ) وجے شنکر نے اشارہ کیا ہے۔ کمانڈ سینٹر اور متحرک آبدوز کے درمیان ربط سازی اہمیت کی حامل ہے اس لئے جوہری ہتھیاروں کی آبدوزوں پر تعیناتی اور جوہری اثاثوں پر “سویلین حکمرانی” سے متعلق سوال کھڑے ہوتےہیں۔ ایک دفعہ جب ایس–ایس–بی–این بیڑہ متحرک ہو جائے گا تو بحریہ آپریشنل کنٹرول اور جوہری فورسز پر گرفت کر لے گی تاکہ اپنے سمندری ڈیٹرنس کو سہارا دیا جا سکے ۔جب کہ بحریہ کے اس عمل سے مرکزی عسکری کمانڈ کےلئے جارحانہ کنٹرول مزید مشکل ہو جائے گا بلخصوص کشیدگی کی صورتحال میں۔
کشیدگی بڑھنے کے امکانات کو کم کرنا؛
آخر میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ بھارت کی طرف سے بحرِ ہند کو جوہری بنا دینے نے پاکستان کے ساتھ تزویراتی استحکام کو متاثر کیا ہے۔ روائتی طور پر یہ مانا جاتا ہے کہ سیکنڈ سٹرائیک کیپبلٹی نے دو جوہری ریاستوں کے بیچ ڈیٹرنس کو استحکام دیا۔ لیکن اس امر میں وزن تب ہی پڑتا ہے کہ جب دونوں کے پاس سیکنڈ سٹرائیک کیپبلٹی موجود ہو ۔ اگر دونوں میں سے کسی ایک کے پاس بھی یہ صلاحیت نہیں ہو گی تو یہ تزویراتی عدم توازن کا باعث ہو گا ۔ جنوبی ایشیائی جوہری عدم توازن کو اس نظر سے دیکھنا چاہیئے کہ پاکستان کا بحری جوہری ڈیٹرنس داراصل بھارتی اقدامات کا رد عمل ہے۔ مزید برآں سمندر میں تعینات جوہری اثاثوں کا غیر ذمہ دارانہ استعمال جنوبی ایشیا کی کشیدگی کو ہوا دے گا۔ چونکہ سمندر میں تعینات جوہری ہتھیاروں کے استعمال پر دو طرفہ نقصانات کے امکانات کم ہیں اس لئے یہ صورتحال دونوں جارحانہ ملکوں کو اپنے اپنے آپریشنز کرنے کی طرف اکساتی ہے۔ اب چونکہ دونوں نے جوہری اثاثوں کی سمندر میں تعیناتی بھی شروع کر دی ہے تو ایسی روایات اور اقدامات کئے جانے ناگزیر ہیں جس سے غیر ارادی کشیدگی کم ہو سکے اور دونوں ملک ذمہ داری کا مظاہرہ کر سکیں۔ سمندر پر حادثے کے بچاؤ جس پر پاکستان اور بھارت اعلانِ لاہور میں پہلے ہی رضامندی ظاہر کر چکے ہیں ــــ (CBMs ) کے ذریعےکشیدگی کو روکنے کےلئے زیر غور لانا چاہیئے۔
***
.Click here to read this article in English
Image 1: Chanakyathegreat via Wikimedia Commons
Image 2: Pallava Bagla via Getty