Imran-Khan-Pakistan-and-United-States-flag-1600×900

آنے والے امریکی انتخابات نہ صرف امریکی عوام کیلئے فیصلہ کن لمحہ ہوں گے بلکہ بطورعالمی رہنما مستقبل میں ملک کے سفر کیلئے راہیں متعین کرنے کے حوالے سے بھی۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے بطور صدر چار برس  ملک کو تنہا رکھنے کی جانب رجحان ظاہر کیا ہے اور وعدہ کیا ہے کہ اپنی دوسری مدت میں وہ ”سب سے پہلے امریکہ“ کی سوچ کو جاری رکھیں گے جبکہ دوسری جانب ڈیموکریٹک صدارتی امیدوار جو بائیڈن نے عالمی اداروں میں امریکہ کے قائدانہ کردار کی ازسرنوتعمیر کی بنیاد پر مہم چلائی ہے۔ متعدد داخلی اور خارجہ پالیسی امورپر ٹرمپ اور بائیڈن کے بیانات ایک دوسرے کے برعکس ہونے کے باوجود جنوبی ایشیا کے حوالے سے دونوں کی بنیادی پالیسی، مثلاً افغانستان سے امریکی انخلاء، انڈوپیسیفک میں بھارتی مرکزی کردار اور چینی عروج سے نمٹنے جیسے امور کے حوالے سے دونوں کی سوچ میں کسی حد تک اتفاق پایا جاتا ہے؛ لہذا اس خطے کے بارے میں امریکی پالیسی کی اساس میں تبدیلی کے بہت کم امکانات ہیں۔ بہرحال، ٹرمپ کی ممکنہ دوسری مدت یا بائیڈن کی بطور صدر پہلی مدت میں پاکستان اور خطے کے بارے میں پالیسی کے بہت سے ایسے پہلو ہیں جو بعد از انتخابات دوبارہ گہرے جائزے کے متقاضی ہیں۔

پاک امریکہ تعلقات میں افغانستان

پاک امریکہ تعلقات کی مجموعی کیفیت کاروباری نوعیت کی رہی ہے۔ جب بھی دونوں کے مفادات نے میل کھایا تو دونوں ریاستوں نے ہی خوشگوار تعلقات سے فائدہ اٹھایا ہے۔ مشترکہ تزویراتی مقاصد اور طویل المدتی مشترکہ مفادات کی عدم موجودگی کے باوجود بھی پاک امریکہ دوطرفہ تعلقات کی بہت سی پرتیں سراسر کسی ایک ریاست کے مفادات کی بنیاد پر مبنی نہیں رہی ہیں۔ خاص کر گزشتہ دو دہائیوں کے دوران دوطرفہ تعلقات نے اگرچہ بہت سے عروج و زوال دیکھے تاہم دونوں ممالک بعض معاملات پر ایک دوسرے سے اختلاف کے باوجود بھی قربت کے ساتھ مصروف عمل رہے۔

صدر ٹرمپ کی جانب سے مبینہ ”جھوٹ اور دھوکہ دہی“ پر شدید تنقید کے سامنے اور امریکی سیکیورٹی معاونت کے خاتمے کے بعد افغان امن عمل میں پاکستان، امریکی مفادات سے انتہائی قریبی مطابقت پاتا ہے جس نے دونوں ممالک کو افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے اور بین الافغان مذاکرات میں آخرکار حصہ لینے کیلئے مل جل کے کام کرنے کے قابل بنا دیا ہے۔ امریکی انتخابات کے بعد اس شراکت داری کو برقرار رکھنے اور باہمی مفاد پر مبنی تعلقات کو قائم رکھنے کیلئے یہ ضروری ہوگا کہ دوہا سے پیدا ہونے والے عزم و ولولے کو برقرار رکھا جائے اور اس میں توسیع کی جائے۔ افغان طالبان کو مذاکرات کی میز تک لانے میں پاکستان کو اسکے مثبت کردار کی وجہ سے سراہا جانا بالکل بجا ہے کیونکہ افغانستان سے امریکی افواج کو باعزت انخلاء فراہم کرنے کیلئے یہ ایک لازمی شرط ہے۔

تاہم ایک خطرہ موجود ہے کہ ایک مرتبہ امریکی انخلاء مکمل ہوگیا تو خطے میں امریکی دلچسپیاں معدوم پڑ جائیں گی خواہ افغانستان میں ٹھوس مفاہمتی عمل شروع ہوا ہو یا نہیں۔ اگرچہ ٹرمپ اور بائیڈن دونوں نے افغانستان سے امریکی انخلاء کی حمایت کی ہے تاہم ٹرمپ انتظامیہ جس نے مکمل انخلاء کا وعدہ کررکھا ہے، بعد از انخلاء کے افغانستان میں کم دلچسپی لیتی دکھائی دیتی ہے۔ اس کے برعکس، بائیڈن نے افغانستان میں امن کے فوائد کو برقرار رکھنے کیلئے کچھ باقی ماندہ افواج کو افغانستان میں رکھنے پر مبنی زیادہ سوچی سمجھی پالیسی کا اعلان کررکھا ہے۔ ملک میں دیرپا امن کو قائم رکھنے میں ممکنہ ناکامی دوطرفہ تعلقات اور علاقائی سلامتی  کیلئے تباہ کن ہوگی اور یہ موجودہ خیرسگالی کے جذبات کی بساط بھی لپیٹ سکتی ہے۔ لہذا نئی انتظامیہ کی اولین ترجیحات میں سے ایک یہ ہونی چاہئے کہ وہ افغانستان کے پیچیدہ کلیئے کو جس حد تک ممکن ہو ہموار طور پر انجام تک پہنچائے۔ اس ضمن میں کسی بھی شک و شبہے اور الزام تراشی سے بچنے کیلئے ضروری ہوگا کہ افغانستان سے ۱۶۰۰ میل طویل مشترکہ سرحد کے حامل، ۳۰ لاکھ افغان مہاجرین کو پناہ دینے والے اور طالبان کو مذاکرات میں حصہ لینے پر آمادہ کرنے والے ملک پاکستان سے روابط کو جاری رکھا جائے۔

پاک بھارت تعلقات اور امریکہ چین تناؤ

نئی امریکی انتظامیہ کو جنوبی ایشیا میں ابتری کا شکار ہوتی سلامتی کی صورتحال پر لازماً توجہ مرکوز کرنی چاہئے۔ امریکہ چین محاذ آرائی اور ہمالیہ میں جاری عسکری تنازعے کے باعث چین اور بھارت میں بڑھتی ہوئی جارحیت کی وجہ سے ماضی میں معمولی دکھائی دیتی علاقائی تقسیم اب انتہائی واضح ہوگئی ہے جس کے علاقائی سلامتی کیلئے گہرے  مضمرات ہوسکتے ہیں۔ پاک بھارت تعلقات اپنی بدترین سطح پر ہیں-لائن آف کنٹرول پر دو طرفہ فائرنگ اور بھارتی اعلیٰ عسکری اور سیاسی قیادت کی جانب سے پاکستان کے زیرانتظام کشمیر اور گلگت بلتستان پر حملوں کی دھمکیوں  نے علاقائی سلامتی حرکیات کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ کسی بھی قسم کے براہ راست ابلاغ کی غیرموجودگی میں، اعتماد سازی کے اقدامات کے ناکافی ہونے اور خطرات میں کمی کے لئے دیگر اقدامات کی عدم دستیابی کے سبب ارادی و غیرارادی  طور پر وجود میں آنے والے بحران کے امکانات کئی گنا بڑھ چکے ہیں۔

انڈوپیسیفک میں امریکہ کی موجودہ پالیسی ترجیحات، اسکے اس قائدانہ کردار سے یکسر مختلف ہیں جو وہ جنوبی ایشیا کے بحران میں بطور ثالث اپنے لئے تصور کرتا ہے۔ امریکہ بھارت تزویراتی شراکت داری میں مسلسل اضافہ جس کا ثبوت دونوں کے درمیان دفاعی اور انٹیلی جنس تبادلے کے اہم معاہدے ہیں، طاقت کے توازن کو بہت حد تک بھارتی حق میں کرچکا ہے، چنانچہ یہ علاقائی سلامتی کے توازن کو متاثر کررہا ہے۔ اعلیٰ امریکی عہدیداران کی جانب سے پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کے منصوبوں میں شفافیت کی کمی پر پاکستان پر غیر معمولی تنقید، نیز اقلیتوں کیخلاف تعصب اور پاکستان میں صحافیوں پر عائد پابندیوں کیخلاف تنقید کیا جانا جبکہ بھارت میں مذہبی تعصب اور کشمیر کو خصوصی نیم خودمختار حیثیت دینے والی بھارتی آئین کی شق ۳۷۰  کے خاتمے جیسے امور پر سرسری ردعمل نے اس تاثر کو مزید تقویت بخشی ہے کہ پاکستان کے ساتھ غیر منصفانہ سلوک کیا گیا ہے۔ بھارت کے ساتھ ترجیحی سلوک لامحالہ پاکستان کو اس جانب دھکیل دے گا کہ وہ چین کے ہمراہ اپنے اتحاد کو مضبوط کرے جو مزید علاقائی تقسیم کا موجب ہوگا۔

جوبائیڈن اور نائب صدر کیلئے ڈیموکریٹک امیدوار کاملا ہیرس کی جانب سے کشمیر میں بھارتی اقدامات پر تنقیدی بیانات کے باوجود بھی یہ امر ہرگز یقینی نہیں کہ نئی انتظامیہ کشمیر کے معاملے پر بھارت کیخلاف سخت موقف اپنائے گی۔ بائیڈن عمومی طور پر شائد مودی حکومت کی تقسیم کا باعث بننے والی پالیسیوں کو مکمل نظر انداز نہ کریں تاہم تزویراتی شراکت دار کے طور پر بھارتی کردار، جمہوری روایات کو درپیش خطرات کے مقابلے میں بھاری ثابت ہوگا۔ جہاں تک بحران سے نمٹنے کا تعلق ہے تو تزویراتی شراکت دار کے طور پر بھارتی حیثیت برقرار رہنے کے باوجود ٹرمپ اور بائیڈن دونوں ہی بھارت اور پاکستان کے مابین توازن قائم کرنے والے امریکی کردار کی بحالی کیلئے فعال اقدامات کرتے دکھائی دیتے ہیں تاکہ خطے میں غیرارادی اشتعال انگیزی سے بچنے میں مدد کی جاسکے۔

 پاک امریکہ تعلقات میں دہشت گردی اور جوہری مسائل

آنے والے برسوں میں  دہشتگردی اور جوہری ہتھیاروں خاص کر ٹیکٹیکل جوہری ہتھیار اور سمندر سے مار کرنے والے جوہری ہتھیاروں کی تیاری کے معاملے پر پاکستان پر دباؤ میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ پاکستان کیلئے آئندہ امریکی سفیر کے طور پر ولیم ای ٹوڈز کا نام طے کیا جانا یہ ظاہر کرتا ہے کہ خواہ جو بھی حکومت میں ہو، پاکستان کو ان امور پر دباؤ کا سامنا ہوگا ۔ افغانستان سے امریکی انخلاء کے بعد یہ معاملات نگاہوں کا مرکز بن سکتے ہیں اور اگران سے تعاون کی فضا میں نہیں نبٹا گیا تو یہ پاک امریکہ تعلقات میں بگاڑ کا سبب ہوسکتے ہیں۔ ماضی کے تجربات ظاہر کرتے ہیں کہ دہشتگردی سے نمٹنے اور جوہری تحفظ اور سلامتی کی تقویت کیلئے جب دونوں ممالک نے مل کے کام کیا تو مثبت پیش رفت سامنے آئی تھی۔ پاکستان کا جوہری پروگرام خاص کر بائیڈن انتظامیہ کیلئے تشویش کی بڑی وجہ ہوسکتا ہے۔ ٹرمپ کے برعکس، جوہری عدم پھیلاؤ ڈیموکریٹس کی ترجیح ہے اور بائیڈن پاکستان کو اس کے جوہری منصوبے کی وجہ سے مسلسل تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں۔ بہرحال یہ دوطرفہ تشویش کے امور کو زیادہ تعاون کے ساتھ نمٹنے کا موقع بھی فراہم کرتی ہے۔ دوطرفہ اعتماد سازی اورتمام اختلافی نکات پر تعاون کی خاطر لائحہ عمل کے قیام کیلئے پاکستان اور امریکہ کے درمیان سرکاری تزویراتی مذاکرات کی دوبارہ بحالی ایک راستہ ثابت ہوسکتی ہے۔ گزشتہ مذاکرات کی طرح پاکستان اور امریکہ متنوع شعبہ جات مثلاً تجارت، معیشت، دہشتگردی کا مقابلہ، دفاع اور سلامتی اور علاقائی مسائل پر ایک دوسرے سے تعاون کرسکتے ہیں۔

حاصل کلام

ٹرمپ اور بائیڈن کی ملتی جلتی پالیسی اور جنوبی ایشیا میں پائے جانے والے مقامی خدشات کے حوالے سے انکے نقطہ نگاہ کو دیکھتے ہوئے ایسا دکھائی دیتا ہے کہ انتخابات کے بعد پاک امریکہ شراکت داری کی مجموعی نوعیت بڑی حد تک بدستور رہے گی۔ وزیراعظم عمران خان  گزشتہ برس امریکہ کے سرکاری دورے کے دوران اگرچہ صدر ٹرمپ سے خوشگوار ذاتی تعلقات قائم کرنے میں کامیاب رہے تھے تاہم بنیادی طور پر یہ افغانستان کے معاملے پر پاک امریکی مفادات کا اجماع تھا جس نے دونوں حکومتوں کو ایک دوسرے کے قریب کیا۔ اجماع کے اس اہم نکتے کی غیر موجودگی میں نئی حکومت کے ساتھ تعلقات پاکستان کیلئے آزمائش ہوں گے۔ امریکہ اور پاکستان دونوں جگہ اس ادراک میں اضافہ ہورہا ہے کہ دو طرفہ تعلقات کی مضبوطی کیلئے مسلسل روابط اہم ہیں۔ تاہم اس ضمن میں خالصتاً پاکستان کی تشویش کو ملحوظ خاطر رکھا جانا نیز محض بھارت، افغانستان، ایران یا چین کی نگاہ سے دکھائی دینے والے خدشات کی بنیاد پر دو طرفہ تعلقات قائم کرنے سے احتراز اہم ہے۔ یہ غیر ملکی نگاہ اگرچہ اپنا کردار جاری رکھے گی تاہم خطے میں پاکستان کی اہمیت اور مستقبل میں سلامتی کے کسی بھی ڈھانچے میں اس کی ممکنہ جگہ کے پیش نظر دیگر علاقائی پالیسی اہداف کی قیمت پر اسے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ۔ پاکستان، افغانستان میں امریکہ کے مسائل حل کرنے میں اہم کھلاڑی کے طور پر باقی رہے گا۔ مزید براں، علاقائی شراکت داریوں کو متوازن بنانے میں پاکستان کے کردار کا مطلب یہ ہے کہ  اس میں ایران کے ہمراہ تنازعات میں ثالثی کی صلاحیت موجود ہے نیز یہ ایک بار پھر امریکہ اور چین کے مابین ابتری کا شکار تعلقات میں پل کا کردار ادا کرسکتا ہے۔

ادارتی نوٹ: ۳ نومبر ۲۰۲۰ کو منعقد ہونے والے امریکی صدارتی انتخابات امریکہ کیلئے داخلی سطح نیز دنیا کے ساتھ اس کے معاملات کیلئے اہم مضمرات رکھتے ہیں۔ ایس اے وی کی اس سیریز میں افغانستان، بھارت اور پاکستان سے تعلق رکھنے والے شرکاء یہ بحث کررہے ہیں کہ انتخابی نتائج کیونکر ان کے ملک سے امریکی تعلقات پر اثرانداز ہوسکتے ہیں۔ مکمل سیریز یہاں پڑھی جاسکتی ہے۔

***

.Click here to read this article in English

Image 1: U.S. Institute of Peace via Flickr

Image 2: Banalities via Flickr

Share this:  

Related articles

کواڈ کو انڈو پیسیفک میں جوہری خطروں سے نمٹنا ہو گا Hindi & Urdu

کواڈ کو انڈو پیسیفک میں جوہری خطروں سے نمٹنا ہو گا

کواڈ کے نام سے معروف چار فریقی سیکیورٹی ڈائیلاگ کے…

بھارت اور امریکہ کی دفاعی شراکت داری  کے لئے رکاوٹیں اور مواقع  Hindi & Urdu

بھارت اور امریکہ کی دفاعی شراکت داری  کے لئے رکاوٹیں اور مواقع 


سرد جنگ کے دوران جغرافیائی سیاسی نقطہ نظر میں اختلافات…

پلوامہ – بالاکوٹ پانچ برس بعد جائزہ Hindi & Urdu

پلوامہ – بالاکوٹ پانچ برس بعد جائزہ

لمحۂ موجود میں پاکستان، بھارت کے تزویراتی بیانیے سے تقریباً…