India-Pakistan-Border-Wagha

تعارف

جوہری ہتھیاروں کے انسانوں پراثرات ( ایچ آئی این ڈبلیو) کے بارے میں عالمی سطح کی کوششیں اقوام متحدہ جنرل اسمبلی کی فرسٹ کمیٹی ( یو این جی اے) کی جانب سے ۲۷ اکتوبر ۲۰۱۶ کو قرارداد ایل ۴۱ اور ۲۳ دسمبر ۲۰۱۶ کو قرارداد ۲۵۸/۷۱ منظور کئے جانے پر منتج ہوئیں۔ یہ قرارداد اقوام متحدہ کے ایک اجلاس کا مطالبہ کرتی ہے جس میں “جوہری ہتھیاروں کی ممانعت کیلئے قانونی طورپر پابند کرنے والی حکمت عملی طے کی جائے، جس سے انکے مکمل خاتمے کی جانب پیش رفت ہوسکے”۔ اجلاس کے تحت مذاکرات مارچ اور جون جولائی ۲۰۱۷ میں نیویارک میں اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹر میں ہوئے۔ اس کے نتیجے میں ۷ جولائی ۲۰۱۷ کو جوہری ہتھیاروں پر پابندی کا معاہدہ طے پایا۔ بھارت اور پاکستان نے اگرچہ ایچ آئی این ڈبلیو کے بارے میں منعقدہ تینوں بین الاقوامی اجلاسوں میں شرکت کی جس کے نتیجے میں یہ مذاکرات ہوئے تاہم نہ تو انہوں نے اقوام متحدہ کی قرارداد کی حمایت کی اور نہ ہی معاہدے پر دستخط کیلئے رغبت کا اظہار کیا۔

بھارت نے قرارداد پر رائےشماری سے یہ کہہ کر علیحدگی اختیار کرلی کہ اقوام متحدہ کے قائم کردہ ادارے تخفیف اسلحہ کانفرنس کے پاس جوہری ہتھیاروں کے خاتمے کیلئے جامع حکمت عملی تیار کرنے کا مینڈیٹ ہونا چاہئے۔ نئی دہلی نے یہ مشاہدہ بھی کیا کہ جوہری ہتھیاروں پر پابندی کے معاہدے کیلئے مجوزہ گفت و شنید، عالمی برادری کی تخفیف اسلحہ کیلئے جامع حکمت عملی کی پرانی خواہش پر پورا نہیں اتر سکے گی، خصوصاً جوہری ہتھیاروں سے لیس ممالک کی جانب سے حمایت کی عدم موجودگی میں۔ نئی دہلی نے مزید کہا کہ توثیقی عمل اگرچہ عالمی سطح پر تخفیف اسلحہ کی جامع حکمت کیلئے کلیدی کردار کا حامل ہوگا تاہم جوہری ہتھیاروں پر پابندی کا معاہدہ تخفیف اسلحہ کو لاحق چیلنجز سے نہیں نمٹ سکتا۔

پاکستان نے تخفیف اسلحہ کانفرنس کے تحت ہی مذاکرات کی ضرورت کی بھارتی تجویز کو دہراتے ہوئے کہا کہ تخفیف اسلحہ عمل کے ہر مرحلے پر تمام ریاستوں کے تحفظ کو مدنظر رکھنا چاہئے اورہتھیاروں اورافواج کے نچلے ترین درجے پر بھی تحفظ میں کمی نہیں ہونی چاہئے۔ علیحدگی کے باوجود بھی پاکستان اور بھارت نے اس عالمی اقدام کی نمایاں حمایت کی کیونکہ جوہری ہتھیار رکھنے والے یہی دو ممالک ہیں جنہوں نے ایچ آئی این ڈبلیو پر ہونے والی تینوں عالمی اجلاسوں میں شرکت کی، اگرچہ ان اجلاسوں میں ان ممالک کی شرکت کی وجوہات کا ایچ آئی این ڈبلیو سے متعلقہ خدشات سے کم ہی لینا دینا تھا۔

بھارت اور پاکستان ایچ آئی این ڈبلیو کے معاملے پر ایک دو طرفہ اقدام کے ذریعے سے جوہری ہتھیاروں کے حامل ذمہ دار ملک ہونے کا مزید مظاہرہ کرسکتے ہیں، جس کے تحت دونوں ممالک کے سربراہان برصغیر میں جوہری ہتھیاروں کے استعمال کی صورت میں اس کے ماحول اور انسانوں پر نتائج کے مشترکہ جائزے کا عزم کریں۔ اس اقدام سے یہ ظاہر ہوگا کہ یہ ایک دوسرے پر جوہری حملوں کے ہولناک نتائج کو سمجھتے ہیں اور نہ صرف ان کی اپنی عوام بلکہ عالمی براداری کو بھی یہ پیغام جائے گا کہ وہ اس سے بچنے کیلئے ڈٹے ہوئے ہیں۔ یہ مضمون ایسے ہی ایک دو طرفہ اقدام کاجائزہ لے رہا ہے جس پر اگرسنجیدگی سے غور کیا جائے تو وہ ایسے بامعنی قدم کا باعث بن سکتا ہے جو جنوبی ایشیا میں جوہری خطرات کو کم کرنے کے ساتھ ساتھ علاقائی استحکام کو بھی مضبوطی بخشے گا۔ 

منصوبہ

ایچ آئی این ڈبلیو کیلئے مجوزہ دو طرفہ اقدام کے تحت نئی دہلی اور اسلام آباد، دو جنوبی ایشیائی جوہری طاقتوں کے درمیان جوہری لڑائی کی صورت میں انسانوں اورماحول پر اثرات کی سائنسی بنیادوں پر جانچ کیلئے حامی بھریں گے۔ دونوں قیادتیں سائنسی ماہرین، ماحولیاتی تجزیہ کار،انسانی، طبی اورآفات سے نجات کے ماہرین کی ایک مشترکہ کمیٹی قائم کریں گی جو پاکستان اور بھارت کے درمیان متعدد درجوں کے جوہری دھماکوں کا خودمختار، تکنیکی جائزہ لےگی۔ دھماکوں کی تعداد اورانکے مضمرات کے بارے میں اندازے تصوراتی ہوں گے اور دونوں ریاستوں کے پاس دستیاب ہتھیاروں کی اصل تفصیلات کے مطابق نہیں ہوں گے۔ یہ جائزہ دھماکوں کیلئے مختلف مقامات کو زیر غور لائے گا۔ یہ جائزہ، غیر خفیہ تخمینوں کی بنیاد پر دوںوں ممالک کی جانب سے جوہری ہتھیاروں کی ترسیل کیلئے موزوں گاڑیوں کی دستیابی اور ان کی مناسب تعداد پر بھی غور کرے گا۔

 پاکستان اور بھارت میں جوہری جنگ کی صورت میں ماحول اورانسانوں پر اثرات کے بارے میں تفصیلی جائزہ طے شدہ وقت میں ایک بارمکمل ہوجائے، تو دونوں ممالک کی قیادت جائزہ سے حاصل شدہ معلومات کو مشترکہ طور پر مطالعہ اور پڑتال کیلئے اپنی عوام اور عالمی برادری کو پیش کریں گی ۔ اس اقدام کے تحت، دونوں قیادتیں ہر دو سال بعد اس جائزے پر نظرثانی کا بھی عزم کریں گی جو بھارت اور پاکستان میں کسی بھی نئی، اہم اور متعلقہ پیش رفت کے اثرات پر غور کرے گا۔ بھارت اور پاکستان کی قیادتیں دیگر جوہری حریفوں کو بھی چیلنج کریں گی کہ وہ بھی جوہری دھماکوں کے ماحول اور انسانوں پر اثرات کا ملتا جلتا سائنسی جائزہ منعقد کروائیں۔

جوہری ہتھیاروں کا استعمال یا ایٹمی جنگ پڑوسی ممالک پر بھی تباہ کن اثرات کا باعث ہوسکتی ہے، لہذا بھارت اور پاکستان دو سالہ نظر ثانی ملاقاتوں میں دیگر ممالک کے علاوہ ، افغانستان، بنگلہ دیش، چین، نیپال اور سری لنکا کے ماہرین کو بھی مدعو کرسکتے ہیں۔

چیلنجز

 ایچ آئی این ڈبلیوپر مجوزہ دو طرفہ اقدام کی پاکستان اور بھارت کے اندر سے ممکنہ طور پر مخالفت ہوسکتی ہے۔ یہ حصہ ان چیلنجز کے بارے میں قیاس اور ان سے نمٹنے کے طریقوں پر غور کرے گا۔ پاکستان میں راولپنڈی ایسے کسی بھی اقدام کی مخالفت کرسکتا ہے جو اس ملک کی جوہری ہتھیاروں پر انحصار کی فرض کی گئی اہمیت کو کم کرنے کے ساتھ ساتھ بھارت کی روایتی جارحیت کا مقابلہ کرنے کیلئے جوہری ہتھیاروں کے استعمال میں پہل کے خوف کو کم کرے۔ نئی دہلی میں فوجی منصوبہ سازوں کی جانب سے کولڈ سٹارٹ ڈاکٹرائن کے نفاز کے امکانات پر غور جس میں بھارتی افواج لائن آف کنٹرول یا بین الاقوامی سرحد پر چھوٹے پیمانے پر اچانک حملے کرسکتی ہیں، راولپنڈی کے خدشات میں اضافہ کرسکتے ہیں۔ راولپنڈی، بھارتی پیش رفت کو روکنے کیلئے اپنے روایتی ہتھیاروں کے استعمال میں پہل کی دھمکی اور نتیجے میں پھیلنے والی بے قابو کشیدگی پرزور دینا چاہے گا۔

تاہم نئی دہلی کی جانب سے ملنے والے اشاروں جن کے مطابق وہ کولڈ سٹارٹ کے ساتھ ساتھ بڑے پیمانے پر جوابی حملے اور حتیٰ کہ حفظ ما تقدم کے طور پر جوہری ہتھیاروں کے استعمال کے امکانات پر غور کررہا ہے، کی روشنی میں راولپنڈی ان کوششوں کی حمایت بھی کرسکتا ہے۔ دو دہائی قبل جوہری توانائی سے لیس ہونے کے اعلان کے بعد سے نئی دہلی میں یہ بحث زور پکڑ رہی ہے کہ اہم فوجی تنصیبات کو نشانہ بنانے کی حکمت عملی کے ذریعے سے طاقت کے توازن کو مضبوط تر کیا جائے۔ جوہری ہتھیاروں کے استعمال کے ماحول اور انسانوں پر اثرات کی جانچ کیلئے مشترکہ سائنٹیفک جائزہ بھارت میں ایسی آوازوں کو تقویت بخش سکتا ہے جو جوہری ہتھیاروں کو ایٹمی جنگ کے اوزار کے بجائے ایک سیاسی ہتھیار قرار دیتی ہیں۔ بھارتی قومی سلامتی میں جوہری ہتھیاروں کے محدود کردار کے مطالبے کی طرح مشترکہ جائزہ بھی نئی دہلی میں پالیسی سازوں کو بھارت کی جانب سے تخفیف اسلحہ کے پرانے وعدے کی یاد دلا سکتا ہے۔ 

 راولپنڈی اپنے مہنگے جوہری ہتھیاروں سے متعلقہ منصوبوں پر عالمی تنقید کو کم کرنے کیلئے بھی اس منصوبے سے اتفاق کرسکتا ہے، تاکہ یہ ظاہر ہو سکے کہ وہ ان ہتھیاروں کے تباہ کن اثرات کے بارے میں آگہی رکھتے ہیں۔

دوسری جانب بھارتی حکومت ایسے کسی بھی اقدام کی مخالفت کرسکتی ہے جو گلوبل نیوکلییئر آرڈر میں بھارت کو وہی حیثیت دے جو پاکستان کی ہے۔ نئی دہلی گلوبل نیوکلیئر آرڈر میں اپنی شمولیت پر کام کرتے ہوئے اپنے غیر معمولی جوہری عدم پھیلائو کے ریکارڈ اور تخفیف اسلحہ کا حوالہ دیتا رہا ہے ۔ ۱۹۹۸  میں جوہری طاقت ہونے کے اعلان کے بعد نئی دہلی نے قومی سلامتی سے وابستہ خدشات کو بہانہ بناتے ہوئے جوہری ہتھیاروں سے پاک ریاست کے طور پر جوہری عدم پھیلائو کے معاہدے پر دستخط سے معذوری کے باوجود اس کے اصولوں کیلئے حمایت کا اظہار کیا ہے۔ درحقیقت جوہری عدم پھیلاؤ کے ایک مثالی ریکارڈ کے ساتھ ، بھارت گلوبل نیوکلیئر آرڈر میں زیادہ بہتر جگہ پر ہے۔ ۲۰۰۸ میں نیوکلیئر سپلائیر گروپ (این ایس جی) کی جانب سے ملنے والی وہ چھوٹ جس نے بھارت کو بین الاقوامی جوہری ایجنسی کی حفاظتی تدابیر کے مکمل نفاذ کے بغیر ہی پرامن مقاصد کیلئے جوہری تجارت کی اجازت دی، اس تبدیلی کی عکاس ہے۔ پاکستان کو ایسی کوئی چھوٹ حاصل نہیں۔ نئی دہلی، پاکستان سے نمایاں علیحدگی چاہتا ہے، ایسے میں بھارت کیونکر اس جیسے اقدام میں حصہ لے گا۔

چار ایسی وجوہات ہیں جن کی وجہ سے نئی دہلی پاکستان کے ہمراہ مشترکہ تکنیکی جائزے پر رضامندی ظاہر کرسکتا ہے ۔ اول، یہ کوشش پاکستان کو جوہری ہتھیاروں سے لیس ایک ذمہ دار ریاست بننے پر اکسانے میں بھارتی رضاکارانہ کردار کے ساتھ ساتھ ایک ذمہ دار جوہری ملک کے طور پر اس کے عزم کا مظہر ہوسکتی ہے۔ دوئم، اس اقدام کو قبول کرنے سے نئی دہلی این ایس جی میں شمولیت کے اپنے امکانات کو مزید بڑھاوا دے سکتا ہے۔ اس اقدام سے بھارت کی این ایس جی میں شمولیت کے خلاف چین کے سخت موقف میں شائد نرمی نہ آئے تاہم یہ یقینناً غیر جانب دار ممالک کے موقف پراثرانداز ہوسکتا ہے۔ سوئم یہ کہ مجوزہ دو طرفہ اقدام بھارت کی عالمی تخفیف اسلحہ کیلئے کوششوں کو نمایاں کرے گا۔

مزید براں نئی دہلی دیگر جوہری ہتھیاروں سے لیس ریاستوں کیلئے ایک مثال قائم کرے گا کہ وہ اس کی پیروی میں جوہری ہتھیاروں کے انسانوں اور ماحول پر اثرات کیلئے ملتے جلتے جائزے کا انعقاد کریں۔ بھارت کئی دہائیوں سے جوہری ہتھیاروں پر پابندی کے ایسے معاہدے کا مطالبہ کررہا ہے جو عالمی، جامع اور وقت کی پابندی کے ساتھ تخفیف اسلحہ کی جانب لے جائے۔ سابق بھارتی وزیراعظم راجیو گاندھی کی ۱۹۸۸ میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں جوہری ہتھیاروں سے پاک دنیا کے بارے میں تقریربھارت اور دنیا بھر میں جانی جاتی ہے۔ بھارت اس دوطرفہ اقدام کی حمایت کے ذریعے سے تخفیف اسلحہ کے لئے اپنے عزم کے اعادے کا اظہار کرسکتا ہے۔

راولپنڈی اور نئی دہلی کو درپیش متذکرہ دو چیلنجز کے علاوہ، ایک تیسرا چیلنج مشترکہ جائزے کیلئے لائحہ عمل، اس کی حدود اور پھیلاؤ پر اتفاق کے حوالے سے ہوسکتا ہے۔ مشترکہ طور پر یہ طے کرنے میں غیر متوقع مشکلات در پیش آسکتی ہیں کہ آیا ماحول اور انسانوں پر جوہری حملوں کے اثرات کا جائزہ پاکستان اور بھارت کے جوہری موقف کی روشنی میں مخصوص حالات تک محدود ہوگا یا پھر دونوں فریقوں کے ہتھیاروں کی تبدیل ہوتی تعداد کا کل احاطہ کرتے ہوئے جامع جائزہ ہوگا۔ مجوزہ مشترکہ جائزہ کیلئے شرائط و ضوابط پر اتفاق کیلئے وقت درکار ہوسکتا ہے تاہم یہ کام ناممکن نہیں ہونا چاہئے۔

حاصل کلام

جوہری ہتھیاروں کے انسانوں پر اثرات کیلئے مجوزہ دوطرفہ اقدام پاکستان اور بھارت دونوں کو متعدد فوائد دے سکتا ہے۔ اول، یہ ان کو دیگر جوہری ریاستوں پر تنہا، کسی ایک یا کئی ممالک کے ساتھ مل کے ملتی جلتی تحقیق کا اہتمام کرنے کیلئے دباؤ ڈالنے کی آزادی دے گا۔ دو طرفہ جوہری حملے کے انسانوں اور ماحول پر اثرات کا مجوزہ دوطرفہ جائزہ منعقد کرنے سے بھارت اور پاکستان خود کو ذمہ دار جوہری ریاستوں کے طور پر پیش کرسکیں گے اور اس طرح گلوبل نیوکلیئر آرڈر میں اپنی سیاسی حیثیت کو نمایاں کرسکیں گے۔ دوئم، دو سالہ نظرثانی مطالعہ میں پڑوسی ملکوں کے نامزد کردہ سائنسی ماہرین کی شمولیت کے خیرمقدم سے بھارت اور پاکستان یہ واضح کرسکیں گے کہ وہ بڑے پیمانے پر علاقائی تباہی کو رد کرنے کیلئے مشترکہ ذمہ داری اورعلاقائی امن اور توازن کے فروغ کی ضرورت کو پہچانتے ہیں۔ سوئم، پاکستان اور بھارت اگر ایچ آئی این ڈبلیو پر عالمی کوششوں سے علیحدہ بھی رہیں تو بھی مجوزہ دوطرفہ اقدام جوہری ہتھیاروں پر پابندی اور جامع تخفیف اسلحہ کی عالمی کوششوں کی حمایت کرے گا۔ سب سے آخر میں، یہ اقدام بھارت اور پاکستان میں سے سول سوسائٹی کی آوازوں کی حوصلہ افزائی کرے گا جو فی الوقت جاری سخت جوہری مقابلے پر سوال اٹھاتی ہیں۔ جوہری لڑائی کے ماحول اور انسانوں پر اثرات کی مشترکہ تکنیکی جانچ کا آغاز دو جنوبی ایشیائی جوہری پڑوسیوں کے درمیان جاری جوہری ہتھیاروں کی تیاری کو سست کرنے میں مدد دے سکتا ہے۔

ایڈیٹر کا نوٹ:یہ مضمون سٹمسن سینٹر کی نئی کتاب ”آف ریمپ فرام کنفرنٹیشن ان سدرن ایشیا“ کا حصہ ہے اور اجازت کے ساتھ دوبارہ شائع کیا جارہا ہے۔ اس کتاب میں ابھرتے ہوئے باوصف اورتجربہ کار تجزیہ نگاروں کے حقیقت پسند، منفرد خیالات کو جگہ دی گئی ہے تاکہ بھارت، پاکستان اور چین کے مابین جوہری مقابلے کے سبب پیدا تنائو کو کم کیا جاسکے۔ ڈائون لوڈ کیلئے مکمل کتاب یہاں دستیاب ہے۔

***

Click here to read this article in English.

Image 1: Koshy Koshy via Flickr

Image 2: Getty Images via Carnegie Endowment

Share this:  

Related articles