Military_truck_carrying_IRBMs_of_Pakistani_Army-1600×900

جوہری ہتھیاروں سے لیس پاکستان  تدریسی میدان میں کافی دلچسپی بنائے ہوئے ہے۔ جیسےجیسے محققین پاکستان کے جوہری نظرئے کے ارتقاء پر  نظر ڈالتے ہیں تو وہ داراصل  پاکستان کے جوہری قوت بننے سے متعلق تدریسی مواد میں مزید اضافہ کر رہے ہوتے ہیں۔ اس تناظر میں حسن عباس کی کتاب “Pakistan’s Nuclear Bomb: A story of Defiance, Deterrence and Deviance” اس سال کے اوائل میں شائع ہوئی۔ حقائق سے بھرپور اس کتاب میں حسن عباس نے پاکستان کے جوہری سفر  ، جوہری پروگرام کو معیاری  بنانے  اور ڈاکٹر قدیر خان والے بدنامِ زمانہ قصے پر نظر ڈالی ہے۔ 

حسن کی تحقیق  میں پاکستان کے  جوہری پروگرام سے متعلق مختلف سوالات  کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ جیسا کہ اس پروگرام سے پاکستان  کےلئے مجوزہ فوائد اور جوہری طاقت بننے کے بعد سے  جوہری پھیلاؤ  سے متعلق  پاکستانی سرگرمیاں ۔ پاکستانی جوہری تاریخ کے تمام عرصے کے دوران ایک بات  سرِ دست رہی اور وہ ہے ‘اسلام آباد کا  خود سے عدم تحفظ کا ادراک’۔ 

پاکستان کا جوہری پروگرام، فوائد اور اہم افراد

حسن عباس نے بہت سے دیگر مصنفین کی طرح کہتے ہیں کہ پاکستان نے اپنا جوہری منصوبہ بھارتی روائتی و جوہری  خطرے کے پیشِ نظر شروع کیا۔ تاہم انہوں نے اپنی بات بتانے کےلئے نیو-رئیلسٹ (Neo-Realist) خیالات کا  استعمال کیا ہے۔ انکا کہنا ہے کہ ۱۹۷۱ کی پاک-بھارت جنگ اہم موڑ تھی  جب دسمبر ۱۹۷۱ میں مشرقی پاکستان کی طرف سے علیحدگی  کے مطالبے پر سخت بھارتی عسکری  ردِ عمل  اور اسکے  نتیجے میں بنگلہ دیش کی آزادی  ہوئی تھی۔تب علاقائی توازن بھارت کے حق میں ہو گیا تھا اور ۱۴ روزہ کشیدگی میں  دونوں ملکوں کے بیچ روائتی ہتھیاروں کا فرق بھی واضح ہو  گیا تھا۔ 

اگرچہ حسن عباس کا کام اس موضوع پر پہلے سے موجود  مواد کا جائزہ ہے تاہم ڈاکٹر قدیر کے معاملے پر تحقیق انکے کام کو دوسروں سے ممتاز کرتی ہے۔ عباس کے کام کا زیادہ حصہ  قدیر خان ‘پاکستانی جوہری بمب کے باپ (فادر آف پاکستانی نیوکلئیر بمب)’ اور خان ریسرچ لیبارٹریز (کے-آر-ایل) اور پاکستان اٹامک انرجی کمیشن (پی-اے-ای-سی) سے متعلق ہے۔ عباس پڑھنے والے کو  قدیر خان کے منصوبوں اور کے-آر-ایل کی سرگرمیوں کے بیچ گھماتے ہیں  اور بتاتے ہیں کہ  کے-آر-ایل نے ۱۹۷۸ کے آس پاس  یورینیم کی ایک قلیل مقدار میں افزودگی شروع کر دی تھی۔ عباس جامع انداز میں ڈاکٹر قدیر کے اچانک سامنے آنے اور انکے پاکستان کو جوہری طاقت بنانے کے وعدے کا بھی بتاتے ہیں۔انکا کہنا ہے کہ ڈاکٹر قدیر کو ایک بہت بڑے بجٹ اور انکے اقدامات پر حکومت کی طرف سے کسی قسم کی پوچھ گچھ نہ ہونے کی آزادی دی گئی تھی۔ اگرچہ ڈاکٹر قدیر کو ملنے والی یہ آزادیاں ہی پاکستان کے جوہری پروگرام میں تیزی کا باعث تھیں لیکن حسن عباس کے خیال میں اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ پاکستان کو عدم تحفظ کا خطرہ سرِے سے تھا ہی نہیں۔ 

اسلام آباد کا جوہری پھیلاؤ  سے تعلق؛

پاکستانی جوہری پروگرام میں ڈاکٹر قدیر کے کردار کے علاوہ حسن عباس نے جوہری پھیلاؤ  سے متعلق پاکستان کے ایران، شمالی کوریا اور لیبیا سے تعلقات پر بھی ایک ایک باب لکھا ہے۔ جوہری پھیلاؤ کے تاریخی  حوالہ جات  دیتے ہوئے حسن عباس ڈاکٹر قدیر کو مرکزی اور  بسا اوقات  نامناسب کردار کہتے ہیں چونکہ کچھ مواقع پر پاکستانی حکومت کی اجازت کے بغیر جوہری مواد کی ترسیل  کی گئی۔ ایران سے جوہری معلومات کے تبادلے کے حوالے سے عباس کا کہنا ہے کہ سکیورٹی خطرات، مغرب کی طرف سے دھوکہ، ڈاکٹر قدیر  کی سنٹری فیوجز بنانے میں شہرت اور عسکری اسٹیبلشمنٹ کا زیادہ کردار وجوہات بنیں۔ حسن عباس ڈاکٹر قدیر کے کچھ سابقہ انٹرویوز کہ جس میں انہوں نے برادر اسلامی ملک (ایران) کےلئے جوہری پروگرام کا شروع کرنا لازم گردانا، کا حوالہ دیتے ہوئے ثابت کیا کہ جوہری معلومات ایران کو فراہم کی گئی تھیں۔ وہ لکھتے ہیں “اس بات سے قطعِ نظر کہ ڈاکٹر قدیر کو ۱۹۹۳ سے ۲۰۰۰ کے دوران ایران  کے ساتھ  روابط قائم کرنے کی رسائی تھی یا نہیں، یہ غیر یقینی ہے کہ کسی پاکستانی سیاسی لیڈر نے ایران کو جوہری ٹیکنالوجی اور مہارت منتقل کرنے کی اجازت دی ہو۔ لیبیا کے بارے میں بھی عباس کی رائے کچھ اسی طرح کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگرچہ اسے بیان کرنا مشکل ہے لیکن “ڈاکٹر قدیر کا عالمی نیٹ ورک سے رابطہ، جرات اور انٹرنیشنل آرڈر سے مقابلے“کے ساتھ ساتھ اسلام آباد کی ڈاکٹر قدیر کی حرکات پر نظر رکھنے میں ناکامی تھی۔ 

شمالی کوریا کے حوالے سے عباس کا کہنا ہے کہ اس میں پاکستانی فوج نے سنٹری فیوجز کے کوریائی حکومت تک پہنچانے میں  نگرانی کی  اور شائد اوپری سطح کے فوجی افسران اس بات سے بخوبی واقف تھے۔ لیبیا اور ایران کے برعکس شمالی کوریا کے معاملے میں جوہری  معلومات کے تبادلے کے پاکستان کےلئے کچھ فوائد تھے۔ عباس کہتے ہیں کہ پاکستان کے امریکہ کے ساتھ کمزور تعلقات ، قابلِ اعتماد میزائل کا ڈلیوری سسٹم اور شمالی کوریا کی پاکستان کو دُور مار کے میزائل  ٹیکنالوجی و مہارت فراہم کرنے کی پیشکش پاکستان کےلئے (شمالی کوریا کو  جوہری معلومات فراہم کرنے کے بدلے) پُرکشش عوامل تھے۔ 

ایک پسپا ریاست جسے اپنے دشمن کے ہاتھوں  تزویراتی شکست  ہو چکی تھی ،نے محسوس کیا کہ  اپنی بقا کےلئے جوہری ہتھیار ضروری ہیں اور یہی عوامل ذہن نشین کرواتے ہیں کہ ِکن خُطوط پر پاکستان نے جوہری بمب کی خواہش کی ۔ پڑھنے والا ۱۹۷۱ کی پاک-بھارت جنگ اور ۱۹۸۰ کی ایران-عراق جنگ کے مابین موازنہ کرسکتا ہے کہ کیسے ایک شکست خوردہ ملک مجبوراً جوہری ہتھیاروں کے پیچھے بھاگا۔ شمالی کوریا کے معاملے پر بھی اسلام آباد اور پیانگ یانگ کو ایک جیسے مسائل درپیش تھے  چونکہ شمالی کوریا  امریکی وسوسے اور کوریائی جنگ کے خطرے میں مبتلا تھا۔ حسن عباس پاکستان اور شمالی کوریا کے قابلِ اعتماد جوہری پروگرام کےارتقاء کے  بیچ مماثلت  بیان کرتے ہیں اور ساتھ ہی امریکی پابندیوں کی وجہ سے اس پروگرام میں آنے والی رکاوٹیں بھی بتاتے ہیں۔ تاہم قارئین اسی شش و پنج میں مبتلا رہتے ہیں کہ  ڈاکٹر قدیر نیٹ ورک یا پاکستانی فوج  کو کن عوامل کی وجہ سے ایکشن لینا پڑا۔ 

پاکستانی جوہری تاریخ سے آگے؛

اگرچہ حسن عباس پاکستانی جوہری پروگرام نظرئے میں تبدیلی کو مختصراً بیان کرتے ہیں لیکن  انکا پاکستان کے جوہری  پروگرام کے آغاز سے متعلق تفصیلی نقطہِ نظر ملک کے جوہری سمت کےمستقبل کا تفصیلی پتا دیتا ہے۔وہ درست طور پر لکھتے ہیں کہ نئی دہلی کی جوہری صلاحیتوں کا ہم پلہ ہونا اسلام آباد کی ترجیح ہے یعنی عباس کہتے ہیں کہ پاکستان بھارتی حرکات پر ردِ عمل دیتا ہے۔ اور یہ ‘عمل ردِعمل’ فارمولا آج تک جاری ہے کیونکہ اب دونوں ملک ملٹیپل انڈیپنڈینٹ ری-اینٹری وہیکل (ایم-آئی-آر-وی) کو جوہری ڈلیوری نظام میں متعارف کرا رہے ہیں۔ یہ چیز بتاتی ہے کہ اسلام آباد بھارت کے مقابل اپنا ڈیٹرنس بڑھاتا رہے گا  اور اپنے جوہری نظرئے اور کیفیت کو بھارتی جوہری ترقی کے متوازن کرتا رہے گا۔ 

حسن عباس کا  کہنا ہےکہ سویلین لیڈرشپ کی فوج پر  کمزور گرفت اور سیاسی عدم استحکام سے جوہری پھیلاؤ کے ممکنات زیادہ ہو سکتے ہیں، تاہم انکا یہ نقطہ  پاکستانی فوج کے  جوہری سکیورٹی کےلئے بنائے گئے سٹریٹیجک پلانز ڈویژن اور نیشنل کمانڈ اینڈ کنٹرول اتھارٹی  کے اقدامات سے  متصادم ہے۔۲۰۰۰ میں قائم کی گئی نیشنل کمانڈ اینڈ کنٹرول اتھارٹی  سویلین کنٹرول میں  ہے  جبکہ سٹریٹیجک پلانز ڈویژن ملکی تزویراتی اداروں جیسے پی-اے-ای-سی اور کے-آر-ایل کو دیکھتا ہے۔ انکی سکیورٹی کی ذمہ داری سٹریٹیجک پلانز ڈویژن فورس پر ہے جو ملک کے جوہری اور تزویراتی  اثاثوں کا تحفظ  یقینی بناتے ہیں۔ 

مزید برآں حسن عباس کا سول-ملٹری تعلقات کے غیر متوازن ہونے پر زور اصل میں سکیورٹی نقطہِ نظر سے متصادم ہے  کیونکہ ملٹری نے تزویراتی سطح پر ملکی اداروں کا تحفظ کیا ہے اور پاکستان سے جوہری پھیلاؤ فوجی ادوار میں ہی ہوا ہے۔ ڈاکٹر قدیر والے گھمبیر معاملے کے دوران جنرل مشرف ملک کے صدر تھے لیکن یہ بھی درست ہے کہ انہی کے دور میں قدیر خان نیٹ ورک کا خاتمہ ہوا۔ ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کے سب سے مشہور سول لیڈر تھے اور وہ ہی جوہری  طاقت  ہونے کے سب سے بڑے داعی بھی  تھے ۔ اس لئے یہ ثابت کرنے کےلئے کچھ خاص مواد نہیں ہے کہ اگر سویلین کنٹرول ہوتا تو  جوہری معاملے میں پاکستانی پالیسی مختلف ہوتی ۔ بھٹو کی اسلامی ممالک کی طرف جھکاؤ اور مغرب مخالف نقطہِ نظر یہ بتلاتا ہے کہ ضرورت پڑنے پر انہوں نے برادر اسلامی ملک ایران کی مدد کی ہوتی ۔ 

جوہری پاکستان کو سمجھنا؛

حسن عباس کی تحقیق ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب پاکستان کو  جوہری  ڈاکٹرائن میں تبدیلی ، اپنے ہتھیاروں کی سکیورٹی اور تحفظ  اور ایک ذمہ دار جوہری ریاست کے حوالے سے تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ یہ کتاب مربوط انداز میں  بتاتی ہے کی کریڈیبل جوہری صلاحیت ماضی میں اور آئندہ بھی پاکستان کی سکیورٹی میں کلیدی کردار ادا کرے گی۔ جہاں  اقوامِ عالم  ریاستوں کے جوہری بننے کی خواہشات کا احاطہ کئے بغیر جوہری ہتھیاروں کے حصول کو نا ممکن بنانا چاہتی ہیں وہیں  حسن عباس کا تجزیہ عالمی جوہری عدم پھیلاؤ کے لئے اہم فریم ورک فراہم کرتا ہے۔ اس طرح کا فریم ورک نہ صرف دنیا کو “جوہری پاکستان” سے واقف ہونےاور اسکی سکیورٹی سے متعلقہ مقاصد سمجھنے میں مدد دیتا ہے بلکہ پاکستان کے جوہری  خواہش مند ریاستوں  سے میل جول میں بھی مددگار ثابت ہوتا ہے۔ 

ایڈیٹر نوٹ: یہ مضمون ایس-اے-وی کی جاری جوہری معاملات سے متعلق  رِی ویو سیریز کا حصہ ہے(جو بنیادی طور پر پئیر ریویو جنرلز میں شائع ہوئے ہیں) اور جو جنوبی ایشیائی خطر پر اثرات کا حامل ہو سکتے ہیں۔

***

.Click here to read this article in English

Image 1: Syednavqi90 via Wikimedia Commons

Image 2: Aamir Qureshi via Getty

Share this:  

Related articles